اب اس میں کوئی دو آراء نہیں ہیں
کہ ہم خیال و خواب کی جنت میں جی رہے ہیں ،ہماری دھرتی روز لہوسے رنگین
ہوتی ہے ،آہوں اور سسکیوں سے فضائیں گونجتی ہیں اور شہرِ خاموشاں ہجومِ اشک
میں ڈوب چکے ہیں اور ہم اس گمان میں بیٹھے ہیں کہ یہ غم کی رات ڈھلنے والی
ہے ،مگر تا حد نظر عملی طور پربے کلی سی بے کلی ہے ،گزشتہ سال کا سورج جب
ڈوبا تو ہماری ا ٓس کا دیا آندھیوں میں تھرا تھرا رہا تھا اور یاس کا آسیب
ہمیں گھیرے ہوئے تھا ،مگر پھر نوید صبح نے ہمیں چند لمحات کے لیے اندیشوں
اور تفکرات سے مستثنا کر دیا ،کیونکہ انسان فطرتاً حال کو بھول کر مستقبل
سے امید وابسطہ کر لیتا ہے ۔لیکن اس بار ہم نے یہ بھلا دیا کہ ابتلا ابھی
باقی ہے! ہماری سلامتی و بقا ء کی ذمہ داری جن ہستیوں پر ہے وہ ذات کی محبت
سے سرشار ہیں ،ایسے میں ہم کیسے ہتھیلی پر دیا رکھ کر مخالف ہواؤں کو چیلنج
کر سکتے ہیں ۔بات صرف ترجیحات کے تعین کی ہے ،ایک طرف وہ انسان ہے جو روز و
شب اس ملک کی سالمیت کی جنگ لڑ رہا ہے اور دوسری طرف وہ ہیں جو لاشوں کے
ڈھیر پر آج بھی ووٹوں کے تھیلے کھول کربیٹھے ہیں اور اعداد و شمار میں
مصروف ہیں ۔ان کو اس سے سروکار ہی نہیں کہ ان کے ارد گرد کیا ہو رہا ۔رازِ
درون پردہ کچھ بھی ہوں ،وقت مناسب نہیں ۔مگر سچ ہے کہ زخم ہائے دل کا شکوہ
مسیحاؤں سے کیا جاتا ہے راہزنوں سے نہیں۔
پورا 2014 سانحات سے بھرا پڑا تھا ،ابھی تو سانحہ واہگہ باڈر اور سانحہ
پشاور کا غم کم نہ ہوا تھا کہ سانحہ راولپنڈی نے ہمارے عقل و فہم کو جکڑ
لیا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ امام بارگاہ پر جس وقت حملہ ہوا اس وقت محفل میلاد
جاری تھی اور امام بارگاہ عوام کے جم غفیر سے کچھا کچھ بھرا ہوا تھا ۔اس
سانحے میں تقریباً۸ افرادجاں بحق ،خواتین و بچوں سمیت درجنوں زخمی ہوگئے
،یعنی پھر بے گناہ اپنے ناکردہ گناہ کی پاداش میں جہان فانی سے کوچ کر گئے
۔اور پھر لورا لائی چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کے حملے کی صورت میں 7 سیکیورٹی
اہلکار شہید جبکہ دو زخمی ہوگئے ۔اس کے علاوہ حادثات کی تو گنتی ہی ممکن
نہیں ،آج نوحہ کناں آنکھوں کا ایک ہی سوال ہے
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے
منصف ہو تو حشراٹھا کیوں نہیں دیتے
کیا وجہ ہے کہ ہماری حکمت عملیاں اور اے پی سی جو گزشتہ ایک ماہ سے جاری
تھیں ان کی عملداری اب تک کیوں نہیں ہوئی ؟میں ہمیشہ کہتی ہوں کہ جب تک
پرخلوص حکمت عملیاں اور دانشمندی کا طریقہ اختیا ر نہیں کیا جائے گا کوئی
بھی حل کامیاب نہیں ہوسکتا ،پچھلے دنوں ایک قاری نے مجھ سے سوال بھی کیا کہ
سسٹر آپ کہتی ہیں کہ پرخلوص حکمت عملیاں اور دانشمندی ہی تمام مسائل کا حل
ہے تو کیاآج تک کسی نے ان کا نفاذبھی کیا ہے جس کو مشعل راہ بنا کر سفر کیا
جا سکے ۔تو مجھے حیرت کے ساتھ افسوس بھی ہوا کہ ہم نے یہ بھی بھلا دیا کہ
یہ وطن جب حاصل کیا گیا تھا اس وقت بھی اس کے حالات ابتر تھے مگر حوصلے پست
نہ تھے ،عقل و فہم پر ہوس و مفاد غالب نہ تھا،سب دل حب الوطنی کے جزبے سے
سرشار تھے ۔یہاں تک کہ
جب قائد اعظم ہمیں داغِ مفارقت دے گئے تو ابھی پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا
نہیں ہو پایا تھا ،تو ایسے وقت میں دشمنانِ پاکستان اور غیر ملکی اخبارات
نے یہ رائے دی کہ پاکستان زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکے گااور اس شدید
نقصان کو برداشت نہیں کر سکے گا ۔لیکن ایسے گھمبیر حالات میں ’’قائدِ ملت
‘‘لیاقت علی خان نے پاکستانی عوام کو بد دل اور مایوس نہ ہونے دیا ،بلکہ ان
تھک محنت ،فرض شناسی اور دن رات کی تگ و دو سے پوری قوم کو ایک مرکذ پر
متحد کر دیا ۔بانئی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒکے زریں اصول ،ایمان
،اتحاد اور تنظیم ہمیشہ ان کے پیشِ نظر رہے ۔آپ نے نہ صرف ان کو اپنا مقصد
حیات بنایا بلکہ قوم کو بھی اس پر عمل کرنے کی نصیحت کی ،اور اقوام عالم نے
دیکھا کہ چار سال کے قلیل عرصہ میں لیاقت علی خان نے پاکستان کا نام اونچا
کر دیا جو بنیادیں قائد اعظم نے کھڑی کی تھیں ،قائد ملت نے ان پر ایک مظبوط
اور مستحکم عمارت کھڑی کر دی ،اور ان کی خدمات کے پیش نظر قوم نے انھیں
قائد ملت کا خطاب دیا تھا ۔
عصرِحاضر کے حکمرانوں کوایسا کوئی خطاب کیوں نہیں ملتا؟کیا کبھی انھوں نے
یا ہم نے اس بارے بھی سوچا ہے ۔یہاں یہ کہنا بھی بے محل نہ ہوگا کہ ہمیں یہ
شعور ہی نہیں دیا گیا ہے کہ ہم ان خطوط پر بھی سوچیں۔جبکہ اپنے سامنے واضح
مقاصد رکھنے والی قومیں ابلاغ عامہ کے ذرائع سے بہت مفید کام لے رہی ہیں
لیکن ہمارے یہاں بعض ابلاغِ عامہ کے ذرائع غیر صحتمندانہ اثرات پیدا کر رہے
ہیں ،خیال کیا جاسکتا ہے کہ یا تو متعلقہ اداروں کے سامنے واضح قومی مقاصد
نہیں ہیں یا ان کو صحیح طور پر استعمال نہیں کیا جا رہا ۔وہ بھی اس سیاسی
کساد بازاری کا آلہء کار بن چکے ہیں۔تخریب کاری اور تلخ یادوں کو فراموش
کیا جاسکتا ہے اگر کوئی حکمت عملی بہتری کا مژدہ سنائے مگر یہاں حال یہ ہے
کہ کچھ بھی ہو جائے اربابِ اختیار کو چپ کے ایسے تالے لگے ہوئے ہیں جو
مصلحت کی کنجیوں سے ہی کھلتے ہیں ۔ساغر صدیقی نے کہا تھا کہ
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کوئی بھول ہوئی ہے
ہم کیا کہیں جبکہ۔۔ آج جان ،مال ،عزت ،دولت سب کچھ لٹ رہا ہے اوراس پرطرہ
یہ کہ اس پر پشیمان بھی کوئی نظر نہیں آتا ۔مگر آج ایک بات طے ہے کہ ہم
مسلمان جہاں جہاں بھی آباد ہیں یا برباد ہیں تو صرف اپنی کمزور ایمانی اور
مفاد پرستی کی وجہ سے ہیں ،ہمارے بعض درپردہ دشمن ہمارے ساتھ بیٹھے ہیں ،ہم
میں افواہیں پھیلاتے ہیں اور معصوم انسانیت کو دہشت گردی پر اکساتے ہیں
،دھنگا ،فساد ،انارکی کے اسباب پیدا کرتے ہیں اور ہمارے سارے وسائل ذاتی
اغرض و طمع کی تسکین اور ایک دوسرے کو ایذا پہنچانے میں صرف ہو رہے ہیں
،نتیجہ سامنے ہے ،جنگ اندرونی ہو یا بیرونی ،حریف جان چکا ہے کہ ہم متحد ہو
ہی نہیں سکتے کیونکہ آج ہم میں ’’میں‘‘ آچکی ہے جب ہم ’’ہم ‘‘ تھے تو ہم نے
بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑا دئیے تھے ،آج اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دکھاوے کا
اتحاد ، یگانگت اور رواداری ہمیں مسائل سے نکال سکتے ہے تو یہ ہماری بھول
ہے ،جب تک ہم مکار دشمن کی چالوں کو نہیں سمجھ جاتے یہ اندھیری رات نہیں
ڈھلے گی ۔خیال تھا کہ کہانی کیسے الجھی تماشا ختم ہونے پر عقدہ کھلے گا مگر
اب یقین ہو چلا ہے کہ یہ تماشا اس وقت ختم ہوگا جب ہم حریف کو پہچان کر
قرار واقعی سزا نہیں دے دیتے ۔آخر میں یہ بات طے ہے کہ تمام کوتاہیاں حسبِ
اختیار ، حسبِ اختلاف اور بیوروکریسی سیکٹر سے ہیں ،جہاں تک پاکستانی قوم
کا تشخص ہے تو میں یہ لکھنے میں حق بجانب ہوں کہ بلاشبہ پاکستانی قوم کے
حوصلے بلند ہیں اور بلند حوصلہ قوم کو شکست نہیں دی جاسکتی۔ملکی ترقی اور
سلامتی کے لیے کرپشن اور تشددکے نظریے کو بہرصورت شکست ہوگی مگر ۔۔۔بقول
اطہر جعفری
تماشا ختم ہونے میں ابھی کچھ دیر ہے شاید
ابھی کچھ وقت رہتا ہے اندھیری رات ڈھلنے میں |