بسم اﷲ الرحمن الرحیم
فرانسیسی ہفت روزہ چارلی ایبڈو نے ایک بار پھر نبی مکرم ﷺکی شان اقدس میں
گستاخی کرتے ہوئے توہین آمیز خاکے شائع کئے ہیں۔ چند دن قبل مسلح افراد کی
جانب سے حملوں کا نشانہ بننے کے بعد پیرس سے شائع ہونے والے اس جریدے کا یہ
پہلا شمارہ ہے جس کے سرورق اور میگزین کے اندرونی صفحات پر توہین آمیز خاکے
شائع کرنے کی ناپاک جسارت کی گئی ہے۔ چارلی ایبڈو کی انتظامیہ کا کہنا ہے
کہ عمومی طور پر اس طنزیہ میگزین کی زیادہ سے زیادہ اشاعت 60ہزار ہوتی ہے
تاہم اس مرتبہ تیس لاکھ کاپیاں شائع کی گئی ہیں جو پوری دنیا میں دستیاب
ہوں گی۔ یہ میگزین انگریزی اور عربی سمیت چھ زبانوں میں شائع کیا گیا
ہے۔پاکستان، سعودی عرب اورترکی سمیت پوری دنیا میں مسلم تنظیموں اور عوام
نے اس واقعہ کی شدید مذمت کی ہے جبکہ گستاخ جریدے نے حالیہ شمارہ کی پچاس
لاکھ مزید شائع کروانے کا اعلان کیا ہے اور امریکہ و آسٹریلیانے مذکورہ
جریدے کے اس عمل کی حمایت کی ہے۔
نائن الیون کے بعدمغرب کی جانب سے اسلام ، قرآن اور شان رسالت ﷺ میں
گستاخیوں کا سلسلہ تواتر سے جاری ہے۔ کبھی گوانتاناموبے میں مسلم قیدیوں کو
ذہنی ایذا پہنچانے کیلئے قرآن پاک کے اوراق پھاڑے گئے، انہیں (نعوذبااﷲ)
غلاظت اور گندگی صاف کرنے کیلئے استعمال کیاجاتارہا اور کبھی ڈنمارک اور
ناروے جیسے ممالک کی طرف سے نبی اکرم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخیوں جیسی قبیح
حرکتیں کی گئیں۔یہ سب کچھ امریکہ و یورپ کی سرپرستی میں کیاجاتا رہا۔ملعون
ٹیری جونزنے اعلانیہ طور پر قرآن پاک کے خلاف (نعوذبااﷲ) مقدمہ چلانے کا
اعلان کیا ،امریکہ میں ہی ایک عبادت گاہ میں بیٹھ کراپنی عدالت سجائی اور
پھرقرآن پاک کے نسخوں پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔ کسی امریکی نے اس بدبخت
کو نہیں روکابلکہ اسے مکمل سکیورٹی اور تحفظ فراہم کیا گیا۔ اسی طرح ناروے
اور ڈنمارک سے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کا سلسلہ دوسرے مغربی ممالک میں
پھیلتا چلا گیا۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کی جانب سے زبردست احتجاج کیا گیا۔
ہر ملک میں لاکھوں افراد سڑکوں پر نکلے۔پاکستان میں بھی مذہبی و سیاسی
جماعتوں نے متحد ہو کرنبی اکرم ﷺ کی حرمت کے تحفظ کیلئے تحریک حرمت رسول ﷺ
چلائی۔جگہ جگہ مظاہرے کئے گئے اور پرامن طور پر گستاخانہ خاکوں کی اشاعت
روکنے کا مطالبہ کیا گیا۔پاکستان، سعودی عرب ، ترکی اور دیگر ملکوں کی جانب
سے بارباراس امر کا مطالبہ کیا جاتا رہا کہ عالمی سطح پر یہ قانون سازی کی
جائے کہ تمام انبیاء اور مقدس کتب کی توہین سنگین جرم ہو گا ۔ جو کوئی بھی
ایسی گستاخانہ حرکت کر کے عالمی امن کو داؤ پر لگانے کی کوشش کرے گااسے پکڑ
کر سخت سزا دی جائے گی مگر پوری مسلم دنیا کے اس مطالبہ پر کسی نے کان نہیں
دھرا ۔ ہولو کاسٹ پر کوئی بات کرے تو اسے سنگین جرم سمجھا جاتا ہے لیکن
رحمت دوعالم نبی مکرم ﷺ کی شان اقدس میں کوئی ملعون گستاخی کرے تو نا صرف
اسے سرکاری سطح پر پروٹوکول سے نوازا جاتا ہے بلکہ اسے آزادی اظہار رائے کا
نام دیکرمسلم دنیا کو خاموش کروانے کی باتیں کی جاتی ہیں۔دنیا کو بین
المذاہب ہم آہنگی کا درس دینے والے یہ ملک اپنے ہاتھوں سے امن و امان کی
دھجیاں بکھیرتے رہے۔ ان کے مذہبی پیشواؤں نے بھی ان گستاخوں کو روکنے کی
کوئی کوشش نہیں کی بلکہ وہ خود بھی اسلامی تعلیمات کے خلاف بغض کا اظہار
کرنے میں پیش پیش رہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہی وہ گستاخیاں تھیں جس کے نتیجہ
میں فرانسیسی ہفت روزہ چارلی ایبڈو جس نے پیغمبر اسلام ﷺ کی شان رسالت میں
گستاخیاں کرنا اپنا وطیرہ بنا رکھا تھا ‘ پیرس میں واقع اس کے دفتر پر حملہ
کا واقعہ پیش آیااور چار کارٹونسٹوں سمیت 12 صحافیوں کو ہلاک کر دیاگیا۔ اس
حملہ کے بعد توہین آمیز خاکوں کی اشاعت پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے والے
ملکوں اور اداروں نے شدید ردعمل کا اظہا رکیا اورفرانس میں ایک بڑی ریلی
نکالی جس میں چالیس ملکوں کے سربراہان نے شرکت کی اور چارلی ایبڈو کی
انتظامیہ سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے یہ نعرہ بلند کیا جا تا رہا کہ ’’ہم سب
چارلی ہیں‘‘ اور ہفت روزہ چارلی ایبڈو کے ساتھ ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ
اس ریلی میں شریک چالیس ملکوں کے حکمرانوں میں سے ترکی کے علاوہ کسی ملک کے
ذمہ دار نے گستاخانہ خاکوں جن کی وجہ سے عالمی امن تباہی سے دوچارہو رہا ہے‘
کی مذمت نہیں کی۔ اگرگستاخ فرانسیسی میگزین پر حملہ کے خلاف ریلی میں شامل
ہونے والے یہ مختلف ملکوں کے حکمران دنیا میں امن و امان کے قیام کیلئے
مخلص ہوتے تواسلام، قرآن پاک اور شان رسالت ﷺ میں گستاخیاں روکنے کا اعلان
کرتے اور واضح طور پر کہتے کہ چارلی ایبڈو سمیت کسی ہفت روزہ ، اخبار یا
صحافتی ادارے کو ایسی ناپاک جسارت کا ارتکاب کرنے کی اجازت نہیں ہوگی مگر
ایسا نہیں کیا گیا۔مغرب کے دوہرے معیار کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا
ہے کہ اگر ان کے یہ ادارے ان کی اپنی اقدار اور لیڈروں کے خلاف معمولی سی
بات بھی کر دیں توانہیں سخت پابندیوں کا سامناکرنا پڑتا ہے۔اسی چارلی
ایبڈوکی مینجمنٹ کے تحت نکالنے جانے والے ایک جریدے نے 1970ء میں فرانسیسی
صدر چارلس ڈی گال کی وفات کے موقع پر محض ایک غیر سنجیدہ سرخی لگائی جس پر
مقامی میڈیا نے اعتراض کیا کہ فرانسیسی صدر کی وفات کی خبریں غیر مناسب
انداز میں شائع کی گئی ہیں جس پر اسے بند کر دیا گیا اور پھر اگلے بیس سال
تک یہ رسالہ منظر عام پر نہیں آسکا تاہم بعد ازاں یہی جریدہ چارلی ایبڈو کے
نام سے دوبارہ شائع ہونا شروع ہوا اور گستاخیوں کا ایک نیا سلسلہ شروع کر
دیا۔ اب ایک بار پھر اسی گستاخ رسالے نے اپنے سرورق پر (نعوذبااﷲ) شان
رسالت ﷺ میں گستاخی کی اور اندرونی صفحات پر ایسے توہین آمیز کارٹون بنائے
گئے ہیں جن میں اسلام کو انتہا پسندی کا مذہب دکھایا گیا ہے۔ ابھی یہ رسالہ
شائع نہیں ہوا تھا صرف اس کا ٹائٹل منظر عام پر آیا تھا کہ امریکہ، فرانس ،
اٹلی اور دیگر ملکوں کے اخبارات نے اس کے سرورق کو پرنٹ کیا اوراس کی خوب
پبلسٹی کی گئی ۔ ماضی میں یہ رسالہ زیادہ سے زیادہ ساٹھ ہزار کی تعداد میں
مارکیٹ میں آیا ہے مگر اس مرتبہ یہ تیس لاکھ کی تعداد میں شائع کر کے پوری
دنیا میں پھیلایاجارہا ہے اور پچاس لاکھ کاپیاں مزید پرنٹ کروانے کا اعلان
کر دیا گیا ہے۔ فرانس کی جانب سے دس ہزار فوجیوں کو یہودی عبادت گاہوں اور
ہوائی اڈوں پر تعینات کیا گیا ہے تاکہ کسی جگہ کوئی حملہ نہ ہو سکے لیکن
انتہا پسندوں کی جانب سے مسجدوں پر حملے جاری ہیں انہیں روکنے میں فرانسیسی
حکومت مکمل طورپر ناکام دکھائی دیتی ہے۔ اسی طرح سویڈن میں پچھلے کچھ عرصہ
میں کئی مساجد پر حملے کئے گئے اور انہیں نذرآتش کیاجاتا رہا مگر کسی کے
کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ۔ انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ ان حملوں کے
خلاف بھی مغربی ممالک کے حکمران ایک ریلی کا انعقاد کرتے اور ان واقعات کی
مذمت کی جاتی تاکہ دوہرے معیار کا تاثر ختم ہوتامگر ایسا نہیں ہوا ۔فرانس
اور امریکہ کی طرف سے کہاجارہا ہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف حالت جنگ میں
ہیں۔ فرانسیسی میگزین پر حملہ کے بعد مسلمانوں کے خلاف پہلے سے جاری مہم
اور زیادہ تیز کر دی گئی ہے اور ان کا جینا دوبھر بنایا جارہا ہے۔ہم صاف
طورپر کہتے ہیں کہ مغرب جتنا اسلام کو دبانے کی کوشش کر رہا ہے اسی قدر
قرآن پاک اور سیرت رسول ﷺکا مطالعہ بڑھ رہا ہے اور ہر سال بہت بڑی تعداد
میں لوگ مسلمان ہو رہے ہیں۔ فرانس ، امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں کو چاہیے
کہ وہ چارلی ایبڈو جیسے میگزین اور ملعون ٹیری جونز جیسے گستاخوں کی
سرپرستی بند کریں ‘ یہ چیزیں دنیا میں تہذیبوں کی جنگ بھڑکانے کا سبب بن
رہی ہیں۔ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے جو اقلیتوں کے حقو ق کا بھی مکمل
تحفظ کرتا ہے۔ مغرب اس عظیم مذہب کو دہشت گردی سے نہ جوڑے بلکہ اسلام، قرآن
اور شان رسالت ﷺ میں گستاخیوں جیسی مذموم حرکتیں جو دنیا کے امن کی بربادی
کا باعث بن رہی ہیں انہیں روکا جائے۔ |