فیس بک٬ سوشل میڈیا اور اسلام

 حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر اﷲ تعالی نے پتھروں کی بارش کیوں کی ؟ یہ کہانی ہم قرآن پاک میں بھی پڑھتے ہیں اور اسلامی کتابوں میں بھی اس کا تفصیل سے ذکر موجود ہے کہ دنیا میں ایک قوم ایسی بھی آئی ہے جس نے قانون فطرت کے برعکس اپنی تسکین کے لیے ایسے ناپسندیدہ راستے اختیار کیے۔ جس پر چلنے سے اﷲ اور اس کے نبی نے انہیں منع فرمایا تھا۔ تخلیق آدم کی اپنی ایک حقیقت ہے اﷲ تعالی نے عورت کو مرد کی پسلی سے پیدا کرکے مرد اور عورت کے مابین محبت اور چاہت کا ابدی رشتہ استوار کیا ہے ۔اﷲ نے عورت کو مرد کالباس اورمرد کو عورت کامحافظ بنایا ہے ۔ مرد اور عورت کو اس لیے پیدا فرمایا تاکہ کائنات میں انسانوں کا وجود قیامت تک برقرار رکھا جاسکے پھر عورت مرد کے لیے تسکین اور راحت کا باعث بھی بنایا اور تخلیق انسانیت کا موجب بھی۔ کائنات میں بیلنس رکھنے کے لیے اﷲ نے کچھ قوانین مرتب کیے اور ان قوانین پر عمل درآمد کروانے کے لیے ہر قوم پرنبی ٗ پیغمبر اور رسول دنیا میں آئے اور رشدو ہدایت کا سلسلہ جاری رکھا ۔ حضرت محمد ﷺ سب سے آخری نبی ہیں ان کے بعد قیامت تک کوئی نبی دنیا میں ہدایت کا پیغام لے کر نہیں آئے ۔ نبی کریم ﷺ پر اﷲ تعالی نے قرآن پاک جیسی عظیم اور مقدس کتاب نازل فرمائی ۔ یہ ہدایت کا سرچشمہ بھی ہے اور مکمل ضابطہ حیات بھی ۔اس میں انسانی حیات اور پوری کائنات کے لیے رہنمائی کے اصول وضع کیے گئے ہیں ۔سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ قرآن پر ایمان نہ رکھنے والے غیر مسلم اور کفار بھی اس مقدس کی حقانیت کو سائنسی تحقیق کی روشنی میں تسلیم کرنے لگے ہیں ۔دنیا کے کچھ مذاہب دنیا کی زندگی کو ہی حتمی قرار دیتے چلے آئے تھے ۔انسان کی پیدائش کے کیمیائی اور طبیعاتی وجود پر تحقیق کرنے والے امریکی سائنسدانوں نے قرآن کے تصور موت و حیات کو تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسان کو آسمان سے نازل کیاگیا ہے جبکہ موت کے بعد بھی زندگی ہے ۔امریکہ کے ایک فزیالوجسٹ ڈاکٹر الس سلور نے کتابی شکل میں شائع کی جانے والی اپنی اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ انسان زمین میں نہیں بلکہ کہیں اور سے آیا ہے زمین پر انسان کی آمد کسی دوسرے سیارے یا آسمان سے آیا ہے ۔اس سلسلے میں انہوں نے اپنی کتاب میں بے شمار مثالیں اور ثبوت پیش کیے ہیں اورکہا ہے کہ بلاشبہ اس کی یہ تحقیق مسلمانوں کی آخری کتاب قرآن مجید کی روشنی میں کی گئی جو 100سچ ثابت ہوئی ہے امریکی سائنسدان نے قرآن میں موجود آیات کا ترجمہ پڑھا جس میں زمین اور آسمان کی تخلیق کے علاوہ انسان کی تخلیق کے بارے میں بھی آیات موجود ہیں ۔جس پر انہوں نے متاثر ہوکر تقریبا 10 سال تک سائنسی انداز میں اس کی تحقیق کی اور بالاخر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قرآن پاک میں جو کچھ لکھا ہے وہ بالکل سچ ہے انسان کی تخلیق اور اس کی موت ایک ایسی نادیدہ طاقت کے پاس ہے جواسے پیدا بھی کرتاہے اور اسے زندہ بھی کرے گا۔ رابرٹ لانزا کیمطابق موتکے بعد جب انسان کی روح پرواز کر جاتی ہے تو جسم میں کئی گھنٹے تک جان موجود ہوتی ہے جس کی طبی دنیا نے بھی تصدیق کی ہے ۔

اﷲ نے کا ہم پر بہت کرم ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان گھرانے میں پیدا فرمایا اور سب سے افضل نبی حضرت محمد مصطفے ﷺ کی امت میں شامل بھی فرمایا ۔ہمیں ایسا انبیاء کے امام حضرت محمد ﷺ میسر آئے جو زندگی کی آخری سانس تک بھی امتی امتی پکارتے رہے ۔آخری لمحات میں جب حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ ﷺ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اﷲ آپ سے آپ کی آرزو جاننا چاہتا تھا ۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا میری یہی خواہش ہے کہ میری زندگی میں میری امت کی بخشش کی ضمانت دے دی جائے ۔کہانی تو خاصی طویل ہے لیکن مختصریہ کہ اﷲ تعالی نبی کریم ﷺ کی آدھی امت کو جسمانی وصال سے پہلے ہی بخش دیا تھااور آدھی امت کی بخشش روزقیامت آپ کے سپرد کردی گئی آپ ﷺ جسے چاہیں بخشش دیں ۔

اپنی اس خوش قسمتی پر تو ہمیں ناز کرنا چاہیئے تھا اور ہمیں اپنی زندگیوں اور دنیاوی معاملات کو نبی کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ کے مطابق بنانا چاہیئے تھالیکن ہم نے وہ راستہ اختیار کرلیا جو جنت کی بجائے دوزخ کی طرف جاتا ہے ۔ایمان کے دو حصے ہیں اﷲ تعالی اور اس کے تمام انبیاء کرام ٗمقدس کتابوں پر کامل ایمان ۔ اسی طرح اگر انسان کی بنیاد ٹھیک بھی ہو لیکن اس پر اعمال کی صورت میں عمارت صحیح تعمیر نہ کی جائے تو زمین بوس ہوجاتی ہے ۔ lممتاز اسلامی سکالر مفتی محمد سلیمان قادری فرماتے ہیں اس میں شک نہیں کہ ہر مسلمان جنت میں ضرور جائے گالیکن اپنے اپنے اعمال کی سزا اور جزا بھگت کے ۔ جس کے اعمال اچھے ہوں گے وہ مرنے کے فورا بعد جنت میں پہنچ جائے گا لیکن جس مسلمان کے اعمال اچھے نہیں ہوں گے اور اس کی زندگی گناہوں میں گزر ی ہوگی اس کو اپنے گناہوں کا حساب دے کر جنت کا راستہ دکھائی دے گا ۔

عورت اورمرد کے رشتے کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کی طرح آج کے دور ہم جنس پرستی عروج پر دکھائی دے رہی فطرت کے برعکس یہ کشش ہمیں نہ صرف نبی کریم ﷺ سے دور کردے گی بلکہ قبر کو آگ سے بھرنے کے مترادف بھی ہے افسوس تو اس بات کا ہے ہم ایک دوسرے کی تقلید کرتے ہوئے آگے بڑھتے جارہے ہیں اور ایک ایسے اندھے کنویں میں گرنے کی جستجو کررہے ہیں جہاں سے شاید کوئی بھی ہمیں نہ نکال سکے ۔جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے پوری دنیا کو ایک گاؤں کی شکل دے دی ہے اسی طرح فیس بک نے بھی 8 ارب انسانوں کو ایک لڑی میں پرو کر واقعی ایک کارنامہ انجام دیا ہے ۔فیس بک کس کی ایجاد ہے اور کس نے اپنی تحقیق سے اسے پوری دنیا میں ہردلعزیز بنادیا ہے اس سے مجھے کوئی سرو کار نہیں لیکن اس وقت میرا موضوع اپنی نوجوان نسل کاانتہائی تیز رفتاری سے بگڑتا ہوا مزاج اور رجحان ہے جس کو کسی بھی صورت میں فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔

بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ فیس بک نہ صرف نوجوان لڑکیوں اورلڑکوں کے ملاپ کی آمجگاہ بن چکا ہے بلکہ انتہائی شریف اور مہذب گھرانوں کی لڑکیوں اور لڑکے اس پر اپنے اپنے جسم اور لباس کی نمائش کرنا فخر تصور کرتے ہیں ۔انسان جتنا بھی نیک سیرت اور مذہبی کیوں نہ ہو خوبصورتی سب کو بھاتی ہے اس لیے فیس پر خوبصورت لڑکیوں اورلڑکوں کے جال سے بچنا بہت مشکل دکھائی ہوچکا ہے ہر شخص ایک دوسرے کو گناہ کی دعوت دیتا ہوا دکھائی دے رہاہے لیکن جدید موبائل کے تیز رفتار نٹ ورک نے فیس بک کوہر انسان کی جیب تک پہنچا دیا ہے ۔ میں اس وقت حیران ہوتا ہوں کہ لاہور ٗکراچی ٗ سیالکوٹ ٗ گوجرانوالہ ٗ ملتان ٗ حیدر آباد ٗکراچی ٗ پشاور ٗ راولپنڈی ٗ فیصل آباد جیسے شہروں میں ہم جنس پرستوں(Guy) کے گروہ جنم لے چکے ہیں ۔جبکہ گرلز اور بوائے کالجز اور ہوسٹلز میں بھی ہم جنسی پرستی کی خبریں سننے کو برابر مل رہی ہیں ۔۔ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ معاشرے میں پہلے بھی ہم جنس پرستی کی لعنت کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی ہے اور بطور خاص پشاور جیسے شہر میں تو کئی مرد حضرات لڑکوں سے نکاح کرنے کے لیے باراتیں بھی لے جاتے دیکھے گئے ہیں ۔ لیکن فیس بک پر جس طرح شہر شہر گاؤں گاؤں خوش شکل اور تعلیم یافتہ نوجوان کسی شرم اور پردے کے بغیر انتہائی آزادانہ ماحول میں ہم جنس پرستی اور جنسی جرائم میں ملوث ہورہے ہیں اور دوسروں کو دعوت بھی دے رہے ہیں وہ واقعی لمحہ فکر ہے۔اگر کسی کو سمجھانے کی کوشش کی جائے تو وہ یہ کہہ کر خاموش کروا دیتا ہے کہ میں سب کچھ جانتا ہوں مجھے نہ سمجھایا جائے۔ جاب حاصل کرنے کے لیے بہت کوشش کی لیکن ناکام ہوکر مجبوری کے عالم میں نے یہ راستہ اختیار کیا اب میں پیسے لے کر لوگوں سے بدفعلی کرتا اور کرواتا ہوں اور میرا یہ پیشہ بن چکا ہے مجھے آخرت کا کوئی ڈر نہیں۔

ایک اور تکلیف دہ امر یہ بھی ہے کہ ماڈلنگ اور اداکاری کی آڑ میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو سہانے خواب دکھائے جاتے ہیں پھر شیشے میں اتار کر انہیں ایسے عیاش امیرزادوں کے سپرد کردیاجاتاہے جو ان کی عزت آبرو کی قیمت ادا کر کے اپنی ہوس پوری کرنا چاہتے ہیں ۔ماڈلنگ کے لیے لڑکوں اورلڑکیوں کو اشتہارکے ذریعے بلانے والے ادارے سے جب رابطہ کیاتو حیرت انگیز انکشافا ت سننے کو ملے ۔ ایک شخص نے بتایا کہ ہم ماڈلنگ کا صرف اشتہار دیتے ہیں لیکن حقیقت میں ہمارا کاروبار لڑکیوں اورلڑکوں کو جنسی تسکین کے لیے بڑے بڑے لوگوں کو فراہم کرنا ہے ہم ایک لڑکی یالڑکے کو گاہک سے ملوا نے کے بیس سے تیس ہزار روپے لیتے ہیں اور دونوں پارٹیوں سے ملاقات کروا کے فارغ ہوجاتے ہیں باقی معاملات لینے اور دینے والے خود طے کرتے ہیں۔پھر فائیو سٹار ہوٹلوں میں انہیں لے جاکر رات رات بھر انسانیت کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں اس نے مزید بتایا کہ جنسی طاقت پیدا کرنے والی ادویات بھی ہم امریکہ سے خود منگواتے ہیں جن کی قیمت ہزاروں میں ہوتی ہے جتنا وقت لوگ جنسی تسکین حاصل کرناچاہتے ہیں وہ ہم سے ادویات خریدلیتے ہیں۔ گویا اس دور میں واقعی نیکی کرنا بہت مشکل اور گناہ کرنابہت آسان ہوتا جارہاہے ۔پہلے لڑکے اور لڑکی کوملنے کے لیے بہت مشکل راستوں سے گزرتا پڑتاتھا پکڑے جانے کا ڈر ہوتا تھا لیکن فیس بک نے نوجوان نسل کی یہ مشکل اس حد تک آسان کردی ہے کہ لڑکیاں خود کہتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں کہ کون ہمیں لائق کرے گا ۔ اگر میں آپ کے پاس ہوں تو آپ مجھے بہن بنائیں گے بیوی بنائیں گے یا محبوبہ ۔ شرم و حیا کا تو جنازہ ہی نکل چکا ہے اس قدر بے باکی پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی ۔ایک لڑکی کو میں نے فیس بک پر دیکھا جو پکار پکار کر کہہ رہی تھی کہ میں گھر میں اکیلی ہوں کون میرے پاس آئے گا ۔ اور کمنٹس کرنے والوں کی قطار لگی ہوئی تھی کہ میں بھی آرہاہوں ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نوجوان نسل کسی بھی ملک کا سرمایہ قرار پاتی ہے کیونکہ اس نے آگے چل کرملک کی بھاگ ڈور سنبھالنی ہوتی ہے اگر ہماری نوجوان نسل ہی جنسی تسکین اور جنسی جرائم میں ملوث ہوکر تباہ ہوگئی تو پاکستان کو کون بچائے گا۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784877 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.