لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے دو
نوجوان ۲۴سالہ عدیل اور ۲۳ سالہ رضوان کی لاشیں کراچی سے ان کے آبائی گاﺅں
پہنچ گئی ہیں۔ یہ دونوں نوجوان کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔
دونوں دوست کراچی مزدوری کرنے آئے تھے۔ وہ ناصر کالونی کورنگی میں مزدوری
کرتے تھے۔ دونوں دوستوں کو گزشتہ دنوں کراچی میں اس وقت گولی ماردی گئی جب
وہ ایک دکان سے ناشتہ خرید رہے تھے۔ عدیل اپنے خاندان کا واحد کفیل تھا۔ اس
کا باپ اس ذہنی صدمے سے ہوش وحواس کھو بیٹھا ہے۔ رضوان یتیم تھا۔ اس کا صرف
ایک چھوٹا بھائی ہے۔ یہ دو بدقسمت نوجوان کراچی میں قسمت آزمانے آئے تھے۔
لیکن شہر میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ میں مارے گئے۔
کراچی میں گزشتہ ایک سال کے دوران ٹارگٹ کلنگ کے دو سو سے زائد واقعات میں
221 افراد مارے گئے ہیں سیاسی جماعتوں کی طرف سے کئے گئے دعوﺅں کے مطابق ان
واقعات میں ایم کیو ایم کے 69 ایم کیو ایم حقیقی کے 60 پیپلز پارٹی کے 28،
اے این پی کے 23 اور دیگر جماعتوں و تنظیموں کے 41 کارکن ہلاک کئے گئے،
ٹارگٹ کلنگ کے سبب سے زیادہ واقعات تھانہ شاہ فیصل کی حدود میں ہوئے جن کی
تعداد 27 بتائی جاتی ہے بہت سے پولیس سٹیشنوں کے علاقہ میں ہونیوالی
ہلاکتوں کی صحیح تعداد واضح نہیں ہے بلکہ اس قسم کی درجنوں وارداتوں کو
میڈیا سے پوشیدہ رکھا گیا ہے۔ اس ٹارگٹ کلنگ میں بہت سے لوگ تو ایسے مارے
جاتے ہیں۔ جیسے وہ چڑیا کے بچے ہوں جنہیں شکاریوں نے محض تعداد بڑھانے کے
لئے مار دیا ہو۔ یہ بے وسیلہ لوگ یوں بھی سڑکوں پر مارے مارے پھرتے ہیں۔
ان کے قتل کا نہ کوئی مقدمہ ہوتا ہے، نہ شہادت، یہ تو خون خاک نشیاں ہوتا
ہے جو زمین پر گر کر خاک ہوجاتا ہے۔ اس کا نہ کوئی مدعی ہوتا ہے۔ نہ کوئی
گواہ، یوں بھی جن کے گواہ ہیں۔ شہادتیں ہیں، مقدمات ہیں ان کا کیا فیصلہ
ہوا ہے۔ جو ان بیچاروں کا ہوگا۔ دو تین ماہ قبل جو ٹارگٹ کلنگ کی لہر آئی
تھی۔ اس میں ہوٹل والے، تندور والے، موچی، بھیک مانگنے والے ۰۵ سے زائد
افراد تین چار دن میں ہلاک کردئے گئے تھے۔ ان کے بھی نہ مقدمے ہیں نہ کوئی
گواہ، اور نہ ہی کوئی انصاف مانگنے والا۔ کراچی کی زمین پر بے گناہوں کا
اتنا خون گرا ہے کہ یہ خون بار بار انصاف کی دہائی دیتا ہے۔ دو ہفتہ گزرنے
کے باوجود کراچی کے حالات قابو میں نہیں آرہے۔ جو اس پر قابو پا سکتے تھے
وہ بدامنی پر سنجیدگی سے قابو پانے کے بجائے جلتی پر تیل چھڑک رہے ہیں۔ اور
الزامات کی تجارت ہورہی ہے۔ شہر میں روزانہ لاشیں گر رہی ہیں۔ بار بار کہا
جاتا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کی ہرگز اجازت نہ دی جائے گی لیکن یہ سب کرنے والے
کس سے اجازت مانگتے ہیں۔ اس کے جواب میں روزانہ ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے۔
رینجرز کی تعداد میں تین گنا اضافہ کردیا گیا ہے مگر بے سود۔ گزشتہ اتوار
کو بھی مزید 10افراد قاتلوں کا ہدف بن گئے اور کوئی ایک بھی پکڑا نہ جاسکا۔
غارت گری لیاری سے نکل کر شہر کے کئی علاقوں میں پھیل چکی ہے۔ کہنے والے
کہتے ہیں کہ یہ اردو بولنے والوں کا قتل ہے۔ کوئی اسے بلوچوں کا قتل قرار
دیتا ہے۔ سب نے اپنے ہاتھوں اور زبانوں پر مصلحتوں کے قفل چڑھا رکھے ہیں۔
سب کی اپنی اپنی مصلحتیں ہیں۔ اور اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ۔ کوئی
کہہ رہا ہے کہ کراچی کے واقعات وفاقی اور صوبائی حکومت کو غیرمستحکم کرنے
کی سازش ہے۔ کسی کو یہ لینڈ مافیا٬ ڈرگ مافیا اور اسلحہ مافیا کی کاروائی
لگتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کراچی کے عوام کا خون بہہ رہا ہے۔ یہ
پاکستان کا خون بہہ رہا ہے۔ یہ بے گناہوں کا خون بہہ رہا ہے۔ جس کا وبال ہم
سب پر ہے۔ |