عامر محبوب ،جموں کشمیر اور قلم قبیلہ

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول ؐ امر بالمعروف ونہی عناالمنکرکب چھوڑا جائے گا آپ ؐ نے فرمایا جب تم میں وہ باتیں ظاہر ہو جائیں گی جو تم سے پہلے بنی اسرائیل میں ظاہر ہوئی تھیں میں نے پوچھا یارسول ؐ وہ باتیں کیا ہیں ؟آپ ؐ نے فرمایا جب تمہاری نیک اور بہترین آدمیوں میں سستی اور تمہارے بُرے لوگوں میں بے حیائی ظاہر ہو جائے گی اور بادشاہت تمہارے چھوٹوں میں اور دینی علم تمہار ے کمینوں میں منتقل ہو جائے گا ۔

حضرت ابو امیہ بن جمحی ؓ فرماتے ہیں حضورؐ سے قیامت کی نشانیوں کے بارے میں پوچھا گیا آپؐ نے فرمایا قیامت کی ایک نشانی یہ ہے کہ علم چھوٹوں کے پاس تلاش کیا جانے لگے گا ۔

قارئین انتہائی افسردگی اور غم کے ماحول میں جب خوشی کا کوئی موقع آئے تو بالکل ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے بقول فیض
رات یوں دل میں تیری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرا ر آجائے

یہ اشعار در حقیقت ہماری اس قلبی کیفیت کو ظاہر کر رہے ہیں جو صحافت میں پہلی مرتبہ ہماری انگلی تھامنے والے استاد ِ بے مثل شیرکشمیر و شاہین صحافت عامر محبوب کے تراشے ہوئے اس حسین کرشمے کی دسویں سالگرہ کے موقع پر اس تحریر کی صورت میں آپ کے سامنے آ رہی ہے عامر محبوب کو ہم بالکل نہیں جانتے تھے اور نہ ہی ہمیں اس بات کا علم تھا کہ صحافت کس چڑیا کا نام ہے ہم نے چند دوستو ں کے اکسانے پر صحافت کے میدان میں قدم رکھا اور قدم رکھنے کے مرحلے میں پہلی ملاقات عامر محبوب سے ہوئی ۔انگریزی زبان کا ایک محاورہ ہے کہ
He came, he saw and he conqueredتو اسے اردو میں یوں ترجمہ کر لیجئے کہ ’’’ عامر محبوب ہماری زندگی میں آئے ،انہوں نے چمکتی ہوئی شرارتی آنکھوں سے ہمیں دیکھا اور ہمیں فتح کر لیا ‘‘ د رحقیقت کچھ ایساہی ہوا بلکہ یو ں کہیے کہ اس سے بھی بڑھ کر ہوا جموں کشمیر ہماری اولین محبت رہی اور انشاء اﷲ ہماری اولین محبت رہے گی آج دسویں سالگرہ کے موقع پر جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو روز نامہ جموں کشمیر کا صحافتی سفر ایک خواب کی مانند دکھائی دیتا ہے اس خواب میں ڈراؤنے مناظر بھی ہیں کہ جن میں بہت سے سیاستدان ڈریکولا کا چولہ پہنے غریب عوام کا خون چوستے دکھائی دیتے ہیں ،بہت سے بیوروکریٹ اپنے ہاتھوں میں خنجر پکڑے زندہ لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرتے دکھائی دیتے ہیں ،بہت سے مافیاز رقصِ بے ہودگی کرتے نظر آتے ہیں ،بہت سے مظلوم اپنے پیاروں کی لاشوں پر بین کرتے نظر آتے ہیں اور بہت سی ایسی تصویریں ہیں کہ جن کا تصور بھی ایک مہذب معاشر ے میں نہیں کیا جا سکتا جی ہاں یہ تمام تصویریں ہمارے سماج کی ہیں جو روزنامہ جموں کشمیر عامر محبوب کی سربراہی میں لاکھوں کشمیری عوام کے سامنے پیش کرتا رہا اور اس کی ایک ہی لگن رہی کہ اپنے قلم کو تلوار اور نشتر بنا کر مردہ ضمیروں کی زندگی بخشی جائے اور یقین جانیے دس سالہ اس سفر میں جموں کشمیر اور عامر محبو ب پر بہت سے کڑے وقت بھی آئے ایسے ایسے کڑے وقت کہ جن میں بڑے بڑے مسندوں والے ایمان کی بازی ہار جاتے ہیں اور مصلحت کوشی ہی کو غنیمت جانتے ہیں بار ہا ایسے مراحل آئے کہ روزنامہ جموں کشمیر کا ڈیکلریشن سرکاری سطح پر کینسل کرنے کی دھمکیاں دی گئیں ،اشتہارات بند کر دیئے گئے اور ناطقہ بند کرنے کا ہر حربہ آزما گیا لیکن اﷲ تعالیٰ کی مہربانی سے نہ عامر محبوب حق کے راستے سے ہٹا اور نہ روزنامہ جموں کشمیر رسم سرفروشی و رسم شبیری ادا کرنے سے باز آیا ۔ہر امتحان میں یہ دونوں سرخرو ٹھہرے ۔صحافت بلاشبہ ایک مشکل پیشہ ہے اور ہماری عزیز دوست سابق سیکرٹری حکومت شوکت مجید ملک جو آج کل ایڈووکیٹ کہلاتے ہیں اور اچھی خاصی وکالت کر رہے ہیں ان کے بقول اگر کہا جائے ایک ’’ کھرک ‘‘ کا نام ہے ایک ایسی بیماری جو اپنے مریض کو زندگی بھر تڑپتے رہنے پر مجبور رکھتی ہے بلا شبہ سچی صحافت حمید نظامی مرحوم سے لیکر عامر محبوب تک سب نے کی اور حصہ بقدر جثہ ہر کسی نے اہل ہوس اور اہل اقتدار کے ظلم برداشت کیے یہاں بقول عوامی شاعر حبیب جالب کہتے چلیں
اور سب بھول گئے حرف ِ صداقت لکھنا
رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا
ہم نے جو بھول کے بھی شاہ کا قصیدہ نہ لکھا
شاید آیا اسی خوبی کی بدولت لکھنا
دہر کے غم سے ہوا ربط تو ہم بھول گئے
سرو قامت کو جوانی کو قیامت لکھنا
لاکھ کہتے رہو ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا
ہم نے سیکھا نہیں پیارے با اجازت لکھنا

قارئین روزنامہ جموں کشمیر کی صحافت یہی تھی اور ہمارے گروگھنٹال عامر محبوب نے ہمیں بھی ایسی ہی صحافت کرنے کی نصیحت کی اور کسی سے بھی ڈرنے سے منع کیا ہم نے چار سو کے قریب کالمز لکھے اور اﷲ کی مہربانی سے کوشش کی کہ جو بات ہم اپنے تئیں سچ سمجھتے ہیں وہ من وعن عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں اور ہمارے اوپر بھی مختلف کڑے امتحانات آتے رہے جو اﷲ کی مہربانی سے ہماری طبع نازک کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچائے بغیر گزر جاتے رہے آج قلم قبیلے کو دیکھتے ہیں تو افسوس ہوتا ہے کہ ضمیر کی سودے بازی کرتے ہوئے چند حقیر سے سکوں کے لیے لوگ کس طریقے سے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا کر منشی گیری کا بے غیرتی پر مبنی کام گھٹیا کام ڈنکے کی چوٹ پر کر رہے ہیں لیکن ضمیر فروشوں کے اس ہجوم میں آج بھی حمید نظامی مرحوم کے شاگرد بھی زندہ ہیں اور ہماری شکل میں عامر محبوب کے شاگرد بھی زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں حبیب جالب کے چند اور شاعر ہم
ضمیر فروش گروہ کی نذر کرتے ہیں
بے ضمیری کا اور کیا ہو مآل
تیرا پرچم ہے تیرا دست سوال
قوم کی بہتری کا چھوڑ خیال
اب قلم سے ازار بند ہی ڈال
نام سے پیشتر لگا کے امیر
ہر مسلمان کو بنا کے فقیر
جا کے ممبر پہ ہو قیام پذیر
اور خطبوں میں دے عمر ؓکی مثال

قارئین اگر ہم مہذب ممالک کو غور سے دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ واقعی ایک تدریجی عمل سے گزرتے ہوئے زندگی کے ہر شعبے میں اوجے کمال تک جا پہنچے ہیں سائنس ،آرٹ ،معیشت ،معاشرت سے لیکر زندگی کے ہر شعبے کو اگر دیکھتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتاہے کہ ہماری زندگیوں کے برعکس یہ معاشرے منافقت اور جھوٹ سے دور ہو چکے ہیں اور ہم اپنے اصلی سبق کو بھلا کر سچ کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھے ہیں روزنامہ جموں کشمیر اور عامر محبوب نے جب بھی سچ لکھتے ہوئے عوامی خزانے پر شب خون مارنے والے ’’ قزاق نما ‘‘ حکمرانوں کی لوٹ مار بے نقاب کی تو سیاستدانوں نے اسے ’’ پیلی صحافت ‘‘ یعنی ییلو جرنلزم کے الزام کی گالی دی اگر سرکاری افسروں کی عیاشیوں اور عوام کے ساتھ روارکھے جانے والے بد معاشی پر مبنی سلوک کو اخبار میں چھاپا تو تب بھی اسے’’ بلیک میلنگ ‘‘ کا ایوارڈ دیا گیا اگر تحریک آزادی کشمیر میں جان دینے والے لاکھوں شہیدوں کے خون کو بیچنے والے ’’ ٹریک ٹو ڈپلومیسی ‘‘ کے غداروں کو بے نقاب کیا تو اسے ’’ سفید جھوٹ ‘‘ کی کالک قرار دیا گیا اگر لینٹ آفیسران اور وفاقی حکومت سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے وزیروں اور بیوروکریٹس کی ’’ شبانہ و روزانہ سرگرمیوں ‘‘ کو آشکار کیا تو تب بھی مختلف الزامات کے پتھر روزنامہ جموں کشمیر اور عامر محبوب کی طرف پھینکے گئے لیکن جس طرح یہ ضرب المثل مشہور ہے کہ ’’چاند کا تھوکا منہ پر آتا ہے ‘‘ اسی طرح تمام سیاسی ڈاکو بھی ذلت سے دوچار ہوئے اور بڑے بڑے افسر بھی اپنے انجام تک پہنچے ۔روزنامہ جموں کشمیر کی دسویں سالگرہ پر ہم یقین رکھتے ہیں کہ عامر محبوب اور ان کی پوری ٹیم اپنے ماضی کے تابناک ریکارڈ کو مزید بہتربناتے ہوئے مظلوم لوگوں کی آواز بنتے رہیں گے اور تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے نئی نسل کو فکری بنیادوں پر درس حریت دیتے رہیں گے رہی بات ان لوگوں کی کہ جو ظلمت کے پجاری ہیں اور کالادھن ہی ان کا مقدر ہے تو ایسے لوگوں کی طاقت شیطان کی طاقت ہوتی ہے جو مکڑی کے جالے سے زیادہ طاقت نہیں رکھتی ۔اﷲ عامر محبوب اور روزنامہ جموں کشمیر کو نظر بد سے بچائے اور دن دگنی رات چوگنی ترقی دے ۔آمین یہاں بقول چچا غالب کہتے چلیں
دیوانگی سے دوش پ زنا ربھی نہیں
یعنی ہماری جیب میں اک تار بھی نہیں
دل کونیاز حسرت دیدار کر چکے
دیکھا تو ہم میں طاقت دیدار بھی نہیں
ملنا را اگر نہیں آسان تو سہل ہے
دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں
بے عشق عُمر کٹ نہیں سکتی ہے اوریاں
طاقت بہ قدرِ لذت آزار بھی نہیں
شورید گی کے ہاتھ سے سر ہے بالِ دوش
صحرا میں اے خُدا کوئی دیوار بھی نہیں
گنجائشِ عداوت اغیار اک طرف
یاں دل میں ضعف سے ہوسِ یار بھی نہیں
ڈر نالہ ہائے زار سے میرے خدا کو مان
آخر نوائے مرغِ گرفتار بھی نہیں
دل میں ہے یار کی صفِ مژگاں سے روکشی
حالانکہ طاقتِ خلشِ خار بھی نہیں
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا !
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

قارئین ہمیں یقین ہے اور ایمان کی حد تک یقین ہے کہ سچ کا راستہ مشکل اور لمبا ضرور ہے لیکن اس سفر کے آخر میں روشنی ہی روشنی ہے روزنامہ جموں کشمیر اور عامر محبوب بھی سچ کے راستے کے مسافر ہیں اور ہم بھی ان کے ہم سفر ہیں اﷲ اہل حق کی حفاظت فرمائے آمین ۔
آخر میں حسب ِ روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک اشاعتی ادارے کے مالک کو ایک عورت کا خط ملا جس میں لکھا تھا
’’ میری شادی کو دس ہو چکے ہیں اور میرے نو بچے ہیں میں بچوں کی پیدائش کے بارے میں ایک کتاب لکھنا چاہتی ہوں آپ کا کیا مشورہ ہے ؟‘‘
پبلشر نے جواب لکھا
’’ محترمہ میرا مشورہ ہے کہ آپ اس موضوع پر کچھ لکھنے کی بجائے کچھ پڑھنا شروع کر دیں ‘‘

قارئین سچی صحافت کرنے والوں کو گالیاں دینے والوں کو چاہیے کہ وہ بھی اپنے گریبان میں جھانک کر تھوڑا اپنے دل کو دیکھ لیں کہ اس کی ایمانی کیفیت کیا ہے ورنہ زندگی اچھی یا بُری گزرہی جاتی ہے اس عاقبت کا کیا ہوگا جہاں دائمی زندگی ہے ۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374466 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More