ایک شام صحافت کے نام
(Imtiaz Ali Shakir, Lahore)
قلم کی طاقت کو دنیا کا ہر معاشرہ
تسلیم کرتاہے ۔قلم اور اہل قلم ہمیشہ معتبر رہے ہیں ۔معذرت کے ساتھ کہ ایسے
لوگ جو مختلف ذرائع سے کاپی ،پیسٹ کرکے اپنی تشہیر کا اہتمام کرتے ہیں راقم
اُن کو اہل قلم میں شمار نہیں کرتا۔قلم ایک ایسا ہتھیار ہے جو اہل قلم کے
خیالات کو تحریر میں ڈھال کر معاشرے میں اہم کردار ادا
کرتاہے۔تیر،تلوار،توپ،میزائل ، ایٹم بم اور ان جیسے کئی مختلف جان
لیواہتھیار صرف اور صرف تباہی پھیلانے کے کام آتے ہیں جبکہ قلم کسی معاشرے
کو تباہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور تباہی سے نکال کر کامیابی و
کامرانی کی منازل تک بھی لے جاتا ہے ،فرق اس بات سے پڑھتا ہے کہ قلم ہے کس
فرد کے ہاتھ میں ۔دنیا میں لسانیت،فرقہ پرستی اورنفرت جیسی لعنتیں بھی قلم
کے ذریعہ پھیلائی جاتی ہیں جبکہ مساوات و بھائی چارے،اتحاد ویگانت اور
انسانیت کے اصول بھی قلم ہی تحریر کرتاہے۔قلم ،اتنا طویل موضع ہے کہ اس پر
سالوں بات کی جاسکتی ہے پر آج میں ذکر کرنے بیٹھا ہوں اہل قلم کے اعزاز میں
ہونے والی ایک تقریب کا۔ایک ایسی شام جسے بہت سے صحافتی ستاروں نے دیگر
سماجی شخصیات کے ساتھ مل کر سجایا۔ایک شام صحافت کے نام کی شاندار تقریب
میں مہمان خصوصی ایڈیٹر روزنامہ سماء،جناب عاطف سعید فاروقی اورچیف ایڈیٹر
روزنامہ سرزمین ،جناب صفدر علی خان نے دوران تقریب سے خطاب کرتے بہت
خوبصورت بات کی کہ ہمیں مثبت سوچ کی عکاسی کرتے ہوئے شکوے،شکایات سے نکل کر
آگے بڑھنا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ انسانی اصولوں پر عمل پیرا ہوکر اور
وسائل کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے ہی دنیا میں امن قائم کیا جاسکتاہے۔ اس
موقع پرجناب ایم اے تبسم ،مرکزی صدر کالمسٹ کونسل آف پاکستان نے کہا کہ
کالم نگاروں کی حوصلہ افزائی کیلئے ایسی تقاریب آئندہ بھی منعقد کرتے رہیں
گے اور (ccp)کے ممبران ملک وقوم کی خیر خواہی کیلئے اپنا بھر پورقلمی کردار
ادا کرتے رہیں گے۔جناب محترم ایم اے جوزف فرانسس نے خطاب کرتے ہوئے مسیح
برادری کی مشکلات اور حکومتوں کی بے حسی پر روشنی ڈالنے کیساتھ ساتھ جدوجہد
آزادی میں کرسچن رہنماؤں کے اہم کردار اور پاکستان کے ساتھ محبت کے اصولی
موقف پر بھی توجہ دلائی۔اُنہوں نے مطالبہ پیش کرتے کہا کہ وہ مسیح ہیں
عیسائی نہیں اس لئے اُنہیں عیسائی نہ پکارا جائے۔ تقریب میں اکثریت اور
اقلیت کے موضوع پر اضافی گفتگوہوئی۔اکثریت اور اقلیت کے بارے میں اپنی رائے
کا اظہار کرنے سے قبل تقریب کی مزید کارروائی پر ایک نظرڈالتاچلوں۔ایم اے
تبسم(مرکزی صدرکالمسٹ کونسل آف پاکستان(ccp)،ایم اے جوزف،(ممبر برٹش
ایمپائر،ڈائریکٹرCLAAS اور چیرمین پاکستان کرسچن نیشنل پارٹی)مارٹن
جاویدمائیکل (سنیئر وائس چیرمین سی این پی ،سرپرست اعلیٰ مائیکل ویلفیئر
فاؤنڈیشن )اور اقبال کھوکھر(چیف ایگزیکٹوعوامی محبت گروپ آف پبلیکیشنز)کے
زیر انتظام کالمسٹ کونسل آف پاکستان کے ممبران کے عزاز میں ایک شاندار
تقریب منعقد ہوئی۔جس میں مہمان خصوصی صفدر علی خان،چیف ایڈیٹر روزنامہ
سرزمین اورعاطف سعیدفاروقی،ایڈیٹر روزنامہ سماء تھے۔دیگر مہمانوں میں میاں
محمودنواز،سینئرکالم نگار ع۔م بدرسرحدی شامل تھے۔اس موقع پر جن دوستوں کو
تعریفی اسناد سے نواز کران کی حوصلہ افزائی کی گئی اُن میں
میرافسرامان(کراچی)،محمدجاویداقبال صدیقی (کراچی)،فرحین ریاض (کراچی)،عروبہ
عدنان(کراچی)،صالحہ عزیز(کراچی)،عقیلہ حق(کراچی)،ملیحہ سید(لاہور)،راقم
امتیازعلی شاکر(لاہور)،ساحرقریشی(شیخوپورہ)،وسیم نذر(پتوکی)،سجادعلی
شاکر(لاہور)،حامدقاضی(شیخوپورہ)،احسان احمدگھمن(سانگلہ ہل)،تجمل محمود
جنجوعہ (ملکوال)،عبدالرؤف چوہان(لاہور)،ظاہرمیرزئی(کوئٹہ)،عقیل خان (پتوکی)،ڈاکٹرایم
ایچ بابر(شیخوپورہ)،حکیم محمدہارون (لاہور)،محمدعمران سلفی(مصطفی
آباد،للیانی)،ایم اے ایوب (لاہور)،ایس ایم صابر،سعیداحمدبھٹی ،اور محترم
ع۔م بدرسرحدی(سینئرکالم نگار) کے نام نمایاں تھے ان خوبصورت لوگوں کے ساتھ
وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا اور تقریب اہتمام پزیرہوگئی۔میں سمجھتاہوں کہ
اکثریت اور اقلیت ایک وسیع موضوع ہے ۔آج ہر کوئی اپنے آپ کو بہترجبکہ
دوسروں کو کمتر سمجھے بیٹھاہے پرحقیقت مختلف ہے ،ہمارے مسائل کا حل اس بات
میں ہے کہ ہم دوسروں کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں اور کسی کے حقوق سلب کرنے کی
بجائے ، اپنے فرائض ادا کرتے رہیں۔میں اﷲ تعالیٰ اور رسول اﷲﷺ کے فضل سے
مسلمان ہوں اور میرا یہ ایمان ہے کہ اسلام پوری انسانیت کیلئے بہترین ضابطہ
حیات ہے۔آج چاروں طرف شکایات کی بھرمارہے۔ہرکوئی پریشان حال ہے ۔کسی کو بھی
حقوق نہیں مل رہے۔ہم بات کرتے ہیں اکثریت اور اقلیت کی۔انسان خود کو تقسیم
کرتا ہے مذہب ،فرقے،قبیلے،رنگ ونسل،زبان ،تہذیب و تمدن اور ریاستی بنیادوں
پرجبکہ اصل میں تقسیم تو طاقتور اور کمزور کی ہے،دولت منداور غریب کی
ہے۔حکمران اور عوام کی ہے۔اکثریت کی رائے کو تسلیم کرنا جمہوریت ہے تو
پھراقلیت کیوں دنیاپر حکمران ہے؟بلا تقریق دیکھا جائے تواکثریت کے توحقوق
پامال ہیں جبکہ اقلیت دنیا کے وسائل پر قابض ہے۔راقم نے اکثریت اور اقلیت
کوکبھی مذہب ،فرقہ یاکسی دوسری بنیاد پر تقسیم نہیں کیا۔میں سمجھتا ہوں کہ
وسائل پر قابض چند خاندان اقلیت جبکہ کمزور ،نادار،مزدور،غریب طبقہ اکثریت
ہونے کے باوجود جمہوریت کے ثمرات کی تلاش میں صدیوں سے در بدر کی خاک چھان
رہاہے۔میں اس اکثریت میں تمام مذاہب اورتمام انسانوں کو شمار کرتاہوں ۔وہ
چاہے کوئی زبان بولتے ہوں، کسی رنگ ونسل سے تعلق رکھتے ہوں۔کسی مذہب کے
پیروکار ہوں ۔وہ چاہے دنیا کے کسی خطے کے باسی ہوں ۔انسان ہر حال اور
ہرمقام پر معتبرہے۔ماضی میں جب بھی مخلوق گمراہی اور جہالت کے اندھیروں میں
بھٹک کر حقیقت سے دور ہوکر دکھ و درد میں مبتلاہواکرتی تھی تو اﷲ تعالیٰ
اپنے رسول رہنمائی اور مسیحائی کیلئے بھیج دیا کرتا تھا۔ہم جانتے ہیں کہ
نبی کریمﷺ اﷲ تعالیٰ کے آخری رسول ہیں اور اُن کے بعد کوئی رسول آیا نہ آئے
گا۔پھر بھی ہم کسی مسیحا کی تلاش میں ہیں تو یہ ہماری کم عقلی نہیں تو اور
کیا ہے ؟نبی کریمﷺکو اﷲ پاک نے رحمتہ اللعالمین بنایا نہ کہ کسی گرو،فرقے
اورنہ صرف انسانوں کیلئے بلکہ گزرے ہونے زمانوں سے لے کر ہر آنے والے دور
کی تمام مخلوقات کیلئے آپﷺ رحمت بن کر آئے ۔ایسی رحمت جو پوری کائنات پر
برستی ہے پر کم نہیں ہوتی ۔ہم کیوں اپنے گرد دائرہ بنا کر یہ سمجھ بیٹھے
ہیں کہ ہمارا مذہب،عقیدہ،زبان،نسل اور ہمارے خیالات افضل جبکہ باقی تمام
کمترہیں؟میں سمجھتاہوں کہ آج مذہب،فرقہ،قبیلہ ،رنگ ونسل اور علاقائی
بنیادوں پر اقلیت اکثریت کو دبوچے ہوئے ہے۔غریب کو مذہب ،عقیدہ اور قبیلے
یہاں تک کہ ر یاست کی فکر ڈال کر امیر طبقہ وسائل پر قبضہ جمائے ہوئے ہے۔آپ
غور کریں غریب پاکستانی کہتاہے کہ میرا جینامرنا پاکستان ہے جبکہ امیر کا
عمل آپ کے سامنے ہے کہ اُس کا پاکستان پر حکومت کرنا وسائل کو بے دردی کے
ساتھ خرد برد کرنا اور اپنے جائزو ناجائر وسائل کو بیرون ملک محفوظ
کرنااورنعرہ لگانا کہ اصل طاقت عوام(یعنی اکثریت) ہیں ۔آخر وجہ کیا ہے کہ
اکثریت حقوق سے محروم اور اقلیت تمام تر وسائل پر قابض ہے ؟کیا ایسا تو
نہیں کہ اکثریت اقلیت سے اپنے حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد کی بجائے شکایات
اورمحرومیوں کو دامن میں سجائے کسی مسیحا کے انتظار میں ہے ؟کیا ایسا تو
نہیں کہ ہم ظالموں سے رحم کی اُمید لگائے اپنے مطابات پیش کئے جارہے ہیں ؟پاکستان
کا قومی مذہب اسلام جبکہ دیگر مذاہب اور عقائد کے لوگ اقلیت جانے جاتے ہیں
جن میں مسیح برادری بھی شامل ہے۔مسیح برادری اقلیتوں کیلئے برابری کے حقوق
تسلیم کروانے کی خواں ہے جبکہ راقم کے خیال میں اصل مسئلہ مذہب یا ذات
برادری نہیں بلکہ کمزور اور طاقتور کا ہے۔آج طاقتور کا کوئی مذہب ہے اور نا
فرقہ ۔مثال کے طور آئین پاکستان کے مطابق حق حکمرانی صرف مسلمانوں کو حاصل
ہے جبکہ آزادی پاکستان سے لے کر آج تک پاکستان میں سودی نظام رائج ہے ۔پاکستان
کے حکمران مسلمان ہیں تو پھر سودی نظام کون چلا رہا ہے۔مسلمان اﷲ تعالیٰ کے
حکم سے روح گردانی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔بھلا کیسے ممکن ہے کہ اﷲ
تعالیٰ سودی لین دین کو سخت ناپسند فرمائے اور مسلمان بذریعہ سودی نظام
ریاست کو چلانے کی کوشش کریں؟اسلام پر تنقید کرنے والوں کو میں صرف اتنا
کہنا چاہتاہوں کہ اسلام صرف مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ بلا امتیازتمام
انسانوں کے حقوق کی نہ صرف بات کرتا ہے بلکہ حق دار کا حق اُس کی دہلیز پر
فراہم کرنے کا درس دیتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں انسانیت کی بنیادوں پر
حقوق کی تقسیم کرنا چاہئے نہ کہ مذہب ،فرقہ،رنگ ونسل یا علاقائی بنیادوں
پر۔جہاں جس کاجو حق بنتا ہے اُسے حاصل رہے ۔کوئی کسی کے حق پر ڈاکہ نہ ڈالے
توتب ہی ایک متوازن معاشرہ قیام میں آسکتاہے ۔کسی کومیری رائے سے اختلاف
ہوسکتاہے پر انسانیت سب کیلئے برابر ہے۔آخر میں ،میں شکریہ ادا کرنا چاہتا
ہوں تمام دوستوں کا جنہوں آج کے مصروف ترین دور میں قلمکاروں کی حوصلہ
افزائی کیلئے اپنا وقت اور پیسہ خرچ کیااور ایک شام صحافت کے نام کی۔اﷲ
تعالیٰ میرااور آپ کا حامی و ناصرہو ۔ |
|