تعلیم اور ترقی کا ساتھ بہت گہرا اور پرانا
ہے یعنی چولی دامن کا ساتھ ہے۔تعلیم سرمایہ کاری کی ایک قسم ہے جو حکومتیں
اپنی قوم کے افراد پر کرتی ہیں اور اس کا منافع ملکی ترقی کی صورت میں ملتا
ہے۔ افلاطون کا قول ہے علم حاصل کرنے کا آخری مقصد انسانی ذہن کو جلا بخشنا
اور مسرت کا حصول ہے۔علم کا حصول مردوعورت دونوں کے لیے ضروری ہے کیونکے
دونوں ہی معاشرے کی ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں مرد اور
عورت کا کوئی مقابلہ نہیں۔دونوں ہی اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔بلکہ
خواتین اپنی گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ معاشی ذمہ داریاں بھی بڑی خوش
اسلوبی سے نبھا رہی ہیں۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے عورت کو معاشی ذمی
داریاں کیوں نبھانی پڑ رہی ہیں۔جبکہ یہ مرد کی ذمہ داری ہے۔یہ حقیقت ہے کہ
خواتین کو باہر نکل کر خاصی کوفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن نا مساعد حا
لات کے باوجود خواتین بردباری کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی
کوشش کر رہی ہیں تاکہ وہ خود کو معاشی طور پر مضبوط کر سکیں۔
دراصل ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ معاشی بحران ہے جس کا شکار غریب اور
متوسط طبقہ ہے پیٹ بھرنے کے لیے اس طبقہ کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں یہ
کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔مہنگائی کی صورتحال یہ ہے گھر کا ہر فرد کمائے
تو دو وقت کی روٹی میسر آتی ہے۔اس صورتحال نے عوقت کو بھی معاچی دوڑ میں
مردوں کے ساتھ چلنے پر مجبور کر دیا ہے۔بعض خواتین اپنی صلاحیتوں کو منوانے
کے لیے باہر نکلیں جبکہ اکثر خواتین مجبورا گھر سے باہر نکلیں اور معاشی
ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا رہی ہیں۔
مشرق اور مغربی معاشرتی ماحول میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ان حالات کی روشنی
میں عورت کی بڑھی ہوئی آزادی مشرقی ماحول کو کس طرح بہترطریقے سے ادا کیا
جا سکتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مغربی معاشرے میں عورت کا اصل مقام کیا
ہے دہکھا گیا ہے کے اگر عورت اور مرد دونوں کام کرتے ہیں تو گھر کا کام بھی
برابر بانٹا جاتا ہے۔مرد بھی امور خانہ داری میں عورتوں کا برابر ہاتھ
بٹاتے ہیں جبکہ مشرقی معاشرے میں عورت امور خانہ داری کے ساتھ ساتھ معیشت
میں بھی مرد کے شانہ بشانہ اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہے اور اس دہری محنت
کے نتیجے میں جو عزت اسے ملنی چاہیے وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔جس کے نتیجے
میں یہاں کی عورت حد درجہ فرسٹریشن اور مایوسی کا شکار ہے اور جس کی وجہ سے
خانگی ماحول میں ابتری پھیلنا شروع ہوئی اور مردوعورت دونوں سکون کی تلاش
میں بے سکون ہو گئے ہیں آج دنیا میں خواتین میں بڑھتاہوا تعلیمی رحجان اپنے
حقوق کی بالادستی کے لیے آواز بلند کر رہا ہے۔
بہر حال یہ بات ثابت ہے کہ اب عورتوں کی بالادستی اس طرح قبول کی جائے
کیونکہ عورت پورے گھریلو امور نمٹاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے گھر
کی معیشت اور ملک کی ترقی میں معاونت کرتی ہے تو بلاشبہ وہ مردوں سے زیادہ
کام کرتی ہے۔اور مردوں سے زیادہ کام کرتی ہے اور مردوں سے زیادہ قربانی
دیتی ہے تو کم از کم اسے معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔
جب تک ہم سوچنے کا انداز نہیں بدلیں گے تب تک معاشرے میں ابتری قائم رہے
گی۔ مسائل سماجی،معاشی یا سیاسی ہوں ان سب کو حل کرنے کے لیے مثبت سوچ کی
ضرورت ہے انسانی خوشی کا دارومدار ایک پر سکون گھر اور آپس میں پیارومحبت
اور اعتماد میں پوشیدہ ہے۔جو صرف اور صرف حقوق و فرائض کی ایمانداری کے
ساتھ ادائیگی سے ہی ممکن ہے۔عورت کا اصل مقام اس کا گھر ہے۔جسے وہ اپنی
توجہ اور محبت سے جنت بنا دیتی ہے۔ |