بسم اللہ الرحمن الرحیم،
کہا جاتا ہے کہ جس دور میں آج ہم زندگی گزار رہے ہیں، وہ تاریخ کا سب سے
متمدن ، مہذب اور ثقافت یافتہ ترین دور ہے۔ جہاں حقوق بشر کا پرچم عالمی
سطح پر لہرا رہا ہے، جس دور میں انسان کی انسانیت ، اور اس کی آراء کا
احترام کیا جاتا ہے۔ یہ وہ دور ہے جہاں انسان کو آزادی رائے کا حق حاصل ہے۔
اس دور میں جمہوریت ، آزادی اور حقوق نسوان کے علمبرداروں کے ہاتھ میں
طاقت،اقتدار، مال و دولت ، غرض سب وسائل فراہم ہیں۔
اسی دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ اسی مغرب زمین کے اندر مسلمانوں کی سب سے
مقدس، سب سے پیاری اور سب سے عظیم ہستی کے خلاف توہین آمیز خاکوں کی اشاعت
کومایہ افتخار سمجھا جاتا ہےاور دنیا کے بڑے بڑے حکمران انہیں آزادی بیان
کا نامقدس لباس اوڑھا کر اس کا دفاع کرکے اپنی وحشی گری اور بے تہذیبی کا
ثبوت دیتے ہیں۔ اک ایسی ہستی جسے اس دنیا کی ڈیڑھ ارب آبادی ، وجہ تخلیق
کائنات سمجھتی ہے، کے خلاف اپنے مکروہ خیالات کو پوری بے شرمی سے تصویر کے
قالب میں لا کر اہل اسلام کے دلوں کو مجروح کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔ اک
ایسی ہستی جس نے نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کی تاریخ کو ایک نیا
راستہ دیا۔ ان سب سے ہٹ کر بھی ،میرے ذہن میں ایک سوال آتا ہے کہ کیا حقوق
بشر کی تعریف میں انسان فقط موجودہ دور میں زندگی گزارنے والوں کو ہی کہا
جاتا ہے؟ کیا گذشتہ لوگوں پر انسانیت کا اطلاق نہیں ہوتا؟ اور اگر جواب ہاں
میں ہے تو پھر ان کے بھی تو حقوق ہونگے؟ اگر ہیں تو پھر کیسے کسی انسان کو
حق پہنچتا ہے کہ وہ دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالے اور اس کی شخصیت کا مذاق
اڑائے؟ ان سب سوالوں کا جواب اگر آپ کو کہیں سے مل جائے تو مجھے بھی بتا
دیجیے گا۔
تاہم خاکسار کے ناقص خیال میں ، اگر غور سے دیکھا جائے تو جدید الحادی طرز
فکر [ پوسٹ مڈرن ازم ] نے جدت کے نام پر انتہا پسندی کو رواج دے کر سرزمین
مغرب میں ، ایک نیا طبقاتی نظام سامنے لایا ہے، جو قرون وسطی یا اس سے قبل
کے تمام طبقاتی نظاموں سے بہت مختلف اور نہایت پیچیدہ ہے۔ سابق ادوار میں
انسانوں کو مال اور ثروت کی بنیاد پر تقسیم کیا جاتا تھا، یا پھر ذات پات
اور نسل یا پھر اس کے مشغلہ زندگی کے تحت ۔ ان سب کی قباحت اپنی جگہ ، لیکن
آج کے بظاہر مہذب دور میں انسانوں کے اجتماعات کو ان کی افکار کی بنیاد پر
تقسیم کیا گیا ہے، جس میں سب سے واضح تقسیم ، الہی اور الحادی طرز فکر
رکھنے والوں کے مابین ہے، آج کی دنیا میں الہی طرز فکر رکھنے والے معاشروں
، خصوصا اہل اسلام کے لیے جدید مغربی نظام میں کوئی جگہ نہیں ہے، کیونکہ وہ
اسے فرسودہ اور دقیانوسی نظام کہہ کر نہ صرف ٹھکرا دیتے ہیں بلکہ اسے
انسانیت دشمنی پر مبنی نظام بھی کہتے ہیں ، دلیل ان کی یہ ہے کہ یہ نظام
ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے، سوائے ایک صورت کے اور وہ یہ کہ آپ اسلام کی
تعبیر اور تفسیر فقط اسی طرح کریں جس طرح وہ آپ سے چاہتے ہیں، اور یہ بھی
اسی فکری طبقاتی نظام کا ایک اور شاخسانہ ہے۔
میں پورے یقین اور اطمینان خاطرسے ببانگ دھل اس بات کا اظہار کر سکتا ہوں
کہ موجودہ دور اہل اسلام کے لیے ، ماضی میں گذرے تمام ادوار کی نسبت، تاریک
ترین دور ہے۔ اس کے لیے ایک چھوٹی سی دلیل بھی عرض کرتا چلوں ، کہ آج تک
ساتویں صدی میں منگولوں کے دور کو -جنہوں نے عالم اسلام کو تاراج کیا اور
اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، بڑوں سے لے کر بچوں اور عورتوں تک سب کا قتل
عام کیا اور جانوروں پر بھی رحم نہ کھایا- اس دور کو اسلامی تاریخ کا سب سے
تاریک دور تصور کیاجاتا ہے، لیکن آپ دیکھتے ہیں کہ نہایت ہی مختصر عرصے میں
منگول حکمرانوں نے اسلامی ثقافت کی برتری کے سامنے سرتسلیم خم کرکے خود
مسلمان ہو گئے اور اہل اسلام کے زمرے میں شامل ہو گئے، جبکہ آج مکمل طور پر
تصویر الٹی ہو چکی ہے، دنیا ہمارے علاقوں کو فتح کیے بغیر ہی ہمیں اپنے
اندر ہضم کر دینا چاہتی ہے، انسان تو افکار کے بل بوتے پر جیتے ہیں، جب
افکار دوسروں کی گروی رکھ دیے جائیں تو غلامی حتمی مقدر ٹھہرتی ہے، پس
ماننا پڑے گا کہ اس دور کی تاریکی سب سے زیادہ ہے، جس طرح تاریکی میں انسان
کو کچھ دکھائی سجھائی نہیں دیتا ، اور اگر کوئی چیز گم کر بیٹھے تو اسے
ڈھونڈنے میں دقت محسوس ہوتی ہے، مسلمانوں کو آج کچھ سجھائی نہیں دے رہا، وہ
ہمارے پیغمبر[ص] کی توہین کرتے ہیں، تو ہم جا کر اپنے ہی گھروں، دکانوں اور
عمارتوں کو آگ لگا دیتے ہیں۔ وہ ہم پر حملہ آور ہوتے ہیں، تو ہم ان سے لڑنے
اور ان کے سامنے اپنا دفاع کرنے کے بجائے ، اپنے ہی لوگوں کے گلے کاٹ کر سب
کے سامنے اپنے خبث باطن کا برملا اظہا ر کرتے ہیں۔ ہم مسلمانوں کے پاس ایک
ہی طاقت تھی جس سے ہم کب کے ہاتھ دھو بیٹھے، آج فقط اس کا نام ہماری زبانوں
تک ہے، وہ طاقت ایمان کی طاقت تھی، ایمان طاقت بھی ہے اور نور و روشنی بھی
، ایمان ایک ایسی معنوی طاقت ہے جس کے سامنے مادی دنیا کی ساری اشیاء سجدہ
ریز اور سر نگوں ہیں، کیا وجہ ہے کہ ہمیں اپنے آئیڈیل حضرات اور مثالی
معاشرے تلاش کرنے کے لیے ہزار یا اس سے بھی زیادہ سالوں کا تاریخی سفر طے
کرنا پڑتا ہے؟ کیوں ہمارے دور میں اخوت ، بھائی چارے ، ایثار و محبت، اور
دیگر اسلامی اقدار کی زندہ مثالیں موجود نہیں ؟ ہمارے مفادات ہماری ذات تک
محدود ہیں، شہوتوں کی جس دلدل میں ہم پھنس چکے ہیں، اس سے نکلنا اتنا آسان
نہیں ہے، اس کے لیے ہمیں اپنے عزائم اور ارادوں کے ساتھ ساتھ اہداف زندگی
میں بھی بنیادی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ دوسری صورت میں ہم ایک
ایسی قوم کی طرف دیکھتے رہ جائیں گے، جس کے دل میں ہمارا احترام تو کیا ،
انسان ہونا بھی ثابت نہیں ہے، کیونکہ ہم [اگوسٹ کنٹ کے اختراع کردہ ] فلسفہ
تاریخ کے تحت ابھی تک بارہویں تیرہویں یا شاید اس سے بھی قبل کی قرون وسطی
میں رہ رہے ہیں۔
پس اگر مسلمان اپنی طاقت بحال کرنا چاہتے ہیں، تو مغرب کے سائے میں رہ کر ،
اس کے پالتو جانوروں کی شکل میں کبھی بھی ہاتھ نہیں آئے گی، بلکہ اس کے لیے
ایک تفکراتی استقلال جس میں فکری روشنی بھی ہو، عرفانی رنگ بھی، قرآن کی
آیات کا الہی سر چشمہ بھی ہو، اور احادیث کی ذرہ بینی بھی، وقت کی اہم
ضرورت ہے ۔ تب جا کر ایک نیا معاشرہ سامنے آئے گا۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں
الحاد کی بجائے توحید، مادیات کی بجائے معنوی اقدار، شہوت کے بجائے عفت و
عصمت، خود غرضی اور خود بینی کی بجائے ایثار اور انفاق، سود کے بجائے زکات
اور صدقات ، غرض انسانی اغراض و تمایلات کی بجائے الہی اہداف و مقاصد حکم
فرما ہونگے۔
ان مقاصد کے حصول کے لیے، پہلے مرحلےمیں ہم سب کو اپنی ذات سے شروع کرنا
ہوگا ، اپنے آپ کو اس یقین تک پہنچانا ہوگا کہ میں ایک سچا مسلمان ہوں ، جو
محمد مصطفی ص کی لائی ہوئی تمام تعلیمات کو جانتا بھی ہے اور مانتابھی اور
اس پر عمل بھی کرتا ہے۔ اس قسم کی تبدیلی جب اس قوم کے فرد فرد میں آ گئی
تب جا کر ہم طاقتور اور مقتدر قوم تو بنیں گے ہی ، ایک مثالی معاشرہ بھی
دنیا کے سامنے لا سکیں گےاور تبھی ہم میں وحدت آئے گی، کیونکہ وحدت کا سفر
ذات سے شروع ہو کر معاشرے تک پہنچتا ہے۔ اسی تفکر کو ایک مسلم دانشورنے یوں
بیان کیا تھا کہ اسلام کلمہ توحید سے شروع ہو کر وحدت کلمہ تک پہنچتا ہے۔ |