سانحہ پشاور! جس دن یہ سانحہ پیش آیا اس دن پوری قوم کی
آنکھوں میں آنسو دیکھ کر نہ جانے کیوں ایسا لگا کہ شاید اب یہ قوم ایک
ہوجائے۔ شاید یہ قوم اپنے دوست اور دشمن کا فرق جان جائے، شاید ایسا ہوجائے
کہ ان بچوں کی شہادت اس ملک کو بے حسی کی نیند سے جھنجھوڑ کرجگادے۔ مجھ سے
جڑا ہر شخص اداس تھا میں خود بھی کچھ لمحے کے لئے اپنے جذبات کو کنٹرول نہ
کرسکا اور شاید رودیا۔ ہماری حکومت نے ہمیشہ کی طرح بڑے بڑے دعوے کرنا شروع
کردیئے۔ پوری قوم کی نگاہ ہماری پاک فوج پر تھی، عمران خان نے دھرنا ختم
کرنے کا اعلان کیا اور بھی کچھ بڑے فیصلے کئے گئے۔ دہشت گردوں کو پھانسی پر
لٹکایا گیا میں نے اپنی زندگی میں بہت سے ایسے سانحے دیکھے ہیں اس ملک میں
کہ ہر سانحہ کے بعد لگتا تھا کہ بس! اب کچھ نہ کچھ تبدیلی آجائے گی۔ لیکن
سانحہ کے دوسرے دن جب گھر سے نکلو تو ہماری قوم روز مرہ کی طرح اپنی زندگی
میں مگن نظر آتی ہے کوئی کاروباری سرگرمیوں میں مصروف تو کوئی گھر کی شادی
میں مصروف تو کوئی بچوں کی خوشیوں کے لئے انہیں سیر سپاٹے کرانے میں مصروف
لیکن سانحہ پشاور ایک ایسا سانحہ ہے جو شاید کبھی بھلایا نہیں جاسکتا اس
سانحہ کے بعد کچھ نہ کچھ تو بہتری آئے گی اب بڑے فیصلے ہوں گے یہ سب میری
سوچ تھی۔ اور ایسا ہوا بھی لیکن ہمیشہ کی طرح صرف باتوں میں ہی بڑے فیصلے
کئے گئے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا ہمارے اندر انسانیت نہیں؟ کیا ہم انسان
نہیں؟ اگر ایسے ہی چلتا رہا تو آج یہ کسی اور کے بچے تھے کل ہم یا ہمارے
بچے بھی ہوسکتے ہیں۔
ہماری آنکھوں کے سامنے ہم ظلم ہوتا ہوا دیکھتے ہیں لیکن پھر بھی آواز نہیں
اتھاتے کسی ظالم کے آگے بولتے نہیں، کسی مظلوم کا ساتھ دینے سے کتراتے ہیں۔
تھر کے بارے میں ہمارے سائیں وزیراعلیٰ سندھ فرماتے ہیں کہ تھر میں لوگ
بھوک سے نہیں غربت سے مررہے ہیں مجھے تو بھوک اور غربت میں کوئی فرق نظر
نہیں آتا لیکن شاید سائیں صاحب کو نظرآتا ہوگا۔ قائم علی شاہ کی اس بات کو
مذات بناکر میڈیا نے بار بار دکھایا لیکن ہم میں سے کوئی یہ نہیں بولا کہ
آخراس کا حل کیا ہے؟ اس مسئلے کو حل کیسے کرنا چاہئے؟ آج بھی بچے بھوک سے
مررہے ہیں اور ہمیں کوئی فکر نہیں۔ کراچی میں دہشت گردی کا راج ہے آئے دن
لوگ ماردیئے جاتے ہیں دہشت گرد بھی بے قصور لوگوں کو مارتے ہیں اور پھر
پولیس بھی بے قصور لوگوں کو ہی اٹھا کر لے جاتی ہے اور رشوت خوری کرتی ہے
لیکن پھر بھی ہم میں سے کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔ پارلیمنٹ میں ہمارے پیسوں
سے عیاشیاں کرنے والے سیاست دان ہمارے مسئلے حل کرنے کے بجائے اپنے آپس کے
مسئلے حل کرتے ہیں ایک دوسرے کو گالیاں تک دیتے ہیں کیا ہم میں سے کوئی
بولا؟ کسی نے بھی آواز اٹھائی؟ لیاری میں ظلم کی انتہاءہوچکی ہے بے قصور
لوگوں کو گھروں سے نکال نکال کر قتل کیاجاتا ہے بھتہ نہ دینے پر بھی جان سے
ہاتھ دھونے پڑتے ہیں کیا ہم میں سے کسی نے آواز اٹھائی؟
کسی جماعت کا کوئی دہشت گرد ہی کیوں نہ ماردیا جائے تو شہر کے شہر بند
کردیئے جاتے ہیں لیکن جب کوئی بے قصور مرتا ہے تو کوئی سنوائی تک نہیں
ہوتی۔ چیف صاحب فرماتے ہیں کہ اس قوم کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ میں
پوچھتا ہوں کہ کس قوم کو؟ جو 68 سالوں بعد بھی ایک قوم نہیں ہے۔ پنجابی،
سندھی، بلوچی، پٹھان، مہاجر آخر کس قوم کا ذکر کررہے ہیں آپ؟۔
جس ملک میں انصاف بکتا ہے، قاتل خریدے جاتے ہیں، بے قصور کی جان کی کوئی
اہمیت نہیں اور دہشت گرد کو بچانے کے لئے سب جمع ہوجاتے ہیں ایسے ملک میں
انسان تو ہوسکتے ہیں لیکن ان کے اندر انسانیت نہیں ہوتی، ہم لوگ کس طرح کی
زندگی جیتے جارہے ہیں۔ ہماری آنکھوں کے سامنے دھوکا بازی، رشوت خوری، قتل
عام، فحاشی اور بہت کچھ ہورہا ہے کیا ہم میں سے کسی نے آواز اٹھائی؟۔
بہرحال! میری تحریر کا عنوان ” انسانیت اور پاکستانی قوم“ اس لئے ہے کہ میں
نے بہت سوچنے سمجھنے کے بعد یہ اندازہ لگایا کہ شاید ہمارے اندر انسانیت اب
صرف گفتگو کی حد تک رہ گئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ میں غلط ہوں لیکن! سانحہ پشاور
میں معصوم بچوں کی شہادت کے بعد علاوہ اپنی سیاست چمکانے کے یا علاوہ اپنی
کسی تنظیم کی نمائش کے کسی نے کچھ کیا؟ کوئی ہوٹل بند ہوا؟ کوئی تقریب
ملتوی ہوئی؟ کہیں ایسا ہوا کہ اس دن کسی کی شادی تھی وہ نہ ہوئی ہو؟ پھر
دکھ کس بات کا؟ چلو مان لیا کہ زندگی کسی کے آنے جانے سے نہ رکتی ہے نہ
چلتی ہے اور سب نے ایک لمحے کے لئے دکھ کا اظہار بھی کیا یہ بھی کافی تھا
لیکن میرے ہم وطنو! یہ کیسا دکھ ہے کہ جس کا اظہار صرف 100 یا 500 کی موم
بتیاں جلاکر کیاجارہا ہے۔اس چیز کا اسلام میں تو کہیں ذکر نہیں ہے۔ میرا
اپنا کوئی بچھڑجاتا ہے تو میں روکر یا خاموش رہ کر دکھ کا اظہار کروں گا
پھر قرآن پڑھوں گا اور اپنے اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا کہ میرے عزیز کی
مغفرت کرنا۔ مجھ سے جڑا ہر وہ شخص جسے میری تکلیف کا احساس ہوگا وہ میرے غم
میں شریک ہوکر فاتحہ کرے گا نہ کہ موم بتیاں جلا کر اپنے دکھ کا اظہار کرے
گا۔
بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم لوگ اس قدر بے حس ہوچکے ہیں کہ بڑے
سے بڑے حادثات اور سانحات سے چند لمحوں کے لئے تو ہماری انسانیت بیدارہوتی
ہے اور کنویں کے مینڈک کی طرح ہم دہانے پر بیٹھ کر خوب ٹرٹراتے ہیں لیکن
ہمیں بے حسی کی دنیا میں لوٹ جانے میں زیادہ وقت نہیں لگتا جس طرح مینڈک
ٹرٹرٹرٹر کرکے واپس کنویں میں چھلانگ لگادیتا ہے بالکل اسی طرح ہم لوگ بھی
ریلیاں نکالتے ہیں، درندگی کیخلاف نعرے بلند کرتے ہیں، مطالبات کئے جاتے
ہیں، شمعیں اور دیئے روشن کرتے ہیں لیکن ان تمام کاوشوں کا نتیجہ حاصل کئے
بغیر دوبارہ بے حسی کی چادر اوڑھ کر انتظار کرتے ہیں کہ اب ٹرٹرانے کا وقت
کب آئے گا۔ |