بچے کسی بھی ملک اور قوم کا
سرمایہ ہوتے ہیں۔ قوم کا مستقبل کہے جاتے ہیں۔ ساری خوشیوں کے رنگ بچوں ہی
سے جگمکاتے ہیں۔ لیکن میاں چنوں میں جو ریلوے حادثہ ہوا ہے۔ اس نے ہماری
خوشیوں کو گہنا دیا ہے۔ یہ ایسا داغ ہے جو کسی طرح نہ دھویا جاسکے گا۔
ہونہار اور معصوم بچے جو اپنے اسکول جانے کے لئے نکلے تھے۔ انھیں محکمہ
ریلوے کی غفلت نے مار دیا۔ اونچی کرسیوں پر بیٹھنے والے اور بڑی بڑی تنخواہ
لینے والے پاکستان ریلوے کے حکام کو تو اس بات کی کوئی پروا ہی نہیں ہے کہ
اس ملک کے ہ۲ ہزار سے زائد ایسی ریلوے کراسنگ ہیں جہاں نہ کوئی پھاٹک ہے
اور نہ ہی کوئی چوکیدار۔ ہندوستان میں ریل کے محکمے نے بے انتہا ترقی کی ہے۔
جبکہ ہمارے ریلوے اتنی ہی پستی میں جاگری ہے۔ ریلوے کے وزیر یوں تو چاند
دیکھنے سے لے کر کراچی کی ترقی پر کوئی تبصرے کا موقع ضائع نہیں کرتے لیکن
اس محکمے کے سدھار کے لئے ان کے پاس کوئی وقت نہیں ہے۔ کراچی ریلوے کی
زمینیں سب سے قیمتی ہیں۔ لیکن اس کی بدعنوانیاں ایسی ہیں کہ یہ محکمہ
دیوالیہ ہوچکا ہے۔ اس کا نظام تلچھٹ ہوچکا ہے۔ اور آئے دن ہونے والے حادثات
نے دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کردیا ہے۔ وفاقی وزیر نے اس بارے میں
تبصرہ کیا ہے کہ ریل اپنے ٹریک پر تھی۔ وہ حادثہ کرنے سڑک پر نہیں گئی تھی۔
اس میں ڈرائیور کی غلطی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن کیا ریلوے
کراسنگ پر گیٹ نصب کرنا، پل بنانا، چوکیدار متعین کرنا کیا ریلوے کی ذمہ
داری نہیں ہے۔ کیا حادثے کے متاثرہ خاندانوں کو لاکھ، دو لاکھ کا معاوضہ
دینے سے معاملہ حل ہوجائے گا۔ افسوس کہ ہم نے انسانی جانوں کو روپے کے مول
تول میں بدل دیا ہے۔ ہر حادثے کے بعد چیک دینے، امداد کرنے کے اعلانات ہوتے
ہیں۔ لیکن ہم ان حادثوں کے ہونے سے پہلے احتیاط اور پلاننگ نہیں کرتے۔
ریلوے میں کیسے کیسے حادثے ہوئے ہیں۔ ہر باراس بارے میں چھان بین شروع ہوتی
ہے۔ اعلیٰ حکام بچ جاتے ہیں۔ اور غفلت کے الزام میں بعض ادنیٰ اہلکاروں کو
سزا دے دی جاتی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان ریلوے کے ساتھ
محیرالعقول حادثات، واقعات ہوئے ہیں۔
ایک بار کراچی کینٹ ریلوے سٹیشن سے فیصل آباد جانے والی سپر ایکسپریس بغیر
انجن کے کیسے چل پڑی تھی۔ کئی برس پہلے ایک فاتر العقل شخص کراچی کے ایک
ذیلی سٹیشن پر کھڑی ٹرین کے انجن پر چڑھ گیا اور ٹرین کو تقریباً پچاس کلو
میٹر تک دوڑاتا لے گیا، راولپنڈی کے قریب ایک انجن بے قابو ہو کر مسجد میں
جا گھسا اور سن ستر کی دھائی میں ایک سالم ریلوے انجن غائب ہوگیا اور آج تک
پتہ نہ چل سکا کہ وہ کہاں گیا۔ آپ نے یہ تو سنا ہوگا کہ دو ٹرینیں آپس میں
ٹکرا گئیں۔ لیکن کیا آپ نے کبھی یہ سنا کہ تین ٹرینیں ایک دوسرے سے ٹکرا
گئی ہوں۔ یہ حیرتناک واقعہ جولائی دو ہزار پانچ میں سندھ کے شہر گھوٹکی کے
قریب ہو چکا ہے جس کے سبب ایک سو بیس سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ اسی جگہ سے
کچھ دور سانگی ریلوے سٹیشن پر انیس سو نواسی میں دو ٹرینوں کے ٹکراؤ سے چار
سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔اس تصادم کو جنوبی ایشیا کے ریل حادثوں میں سب
سے خوفناک قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ریلوے حادثات کی سالانہ اوسط سو
کے لگ بھگ ہے۔ صرف دو ہزار چھ میں ایک سو پچیس چھوٹے بڑے حادثات ہوئے جن
میں سے زیادہ تر کے اسباب میں سگنلنگ کا فرسودہ نظام، ریلوے ٹریک کی کہنہ
سالی اور انسانی غفلت شامل ہے۔ جب پاکستان بنا تو پاکستان ریلوے جو اس
زمانے میں نارتھ ویسٹرن ریلوے کہلاتی تھی، اس کی ریلوے لائنوں کی لمبائی
آٹھ ہزار ایک سو بائیس کلومیٹر تھی جبکہ آج ریلوے لائن کی طوالت آٹھ ہزار
ایک سو باسٹھ کلومیٹر ہے۔ گویا ساٹھ برس کے دوران ریلوے لائن میں چالیس
کلومیٹر کا اضافہ ہوا حالانکہ پاکستان بننے کے بعد مردان چار سدہ اور کوٹ
ادو کشمور ریلوے لائن بچھائی گئی لیکن ساتھ ہی ساتھ سندھ اور پنجاب میں کئی
ریلوے روٹ خسارے کے نتیجے میں بند کرنے پڑے اور اس کے نتیجے میں بہت سے
مقامات پر چور لائن ہی اکھاڑ کر لے گئے۔ اس وقت ستر فیصد ریلوے ٹریک، نوے
فیصد ریلوے پل اور پینتالیس فیصد ریلوے انجن اپنی تکنیکی معیاد پوری کرچکے
ہیں لیکن ان کا استعمال اس لیے جاری ہے کیونکہ تعمیر و مرمت کا بجٹ نہیں ہے
اور اس مد میں ریلوے کو کم ازکم تیس ارب روپے درکار ہیں جبکہ ریلوے کا
سالانہ اوسط خسارہ تین ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ حکومت
ٹرانسپورٹ کی مد میں جتنا بجٹ بناتی تھی اس کا ستر فیصد ریلوے کو ملتا تھا
لیکن جب مختلف حکومتوں نے ریلوے کے بجائے شاہراہوں پر توجہ دینی شروع کی تو
حال یہ ہوا کہ اب ریلوے کو ٹرانسپورٹ بجٹ کا محض پانچ فیصد مل پاتا ہے۔ اس
وقت پورے ملک میں ریلوے کی زمین جس کی مالیت کھربوں روپے بنتی ہے لینڈ
مافیا کے قبضے میں ہے۔ فوج سمیت متعدد سرکاری ادارے ٹرانسپورٹیشن کی مد میں
ریلوے کے کروڑوں روپے کے مقروض ہیں۔ اگر ان مدوں میں سے نصف رقم ہی ریلوے
کو مل جائے تو اس کے درد دور ہو سکتے ہیں۔ لیکن چونکہ ہر ایک کا مفاد دوسرے
سے وابستہ ہے اس لیے ایسا ہونا مستقبلِ قریب میں ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ اس
کا نتیجہ سڑکوں اور ریلوے کے حادثات کی صورت میں نکل رہا ہے۔ ستر فیصد
ٹرانسپورٹیشن ریلوے ٹریک کی بجائے سڑک کے راستے ہو رہی ہے۔ ٹرینوں کی کمی،
ناقص سروس اور انتظامی کنفیوژن کے سبب مسافروں کی بڑی تعداد بھی ٹرین کے
بجائے روڈ ٹرانسپورٹ کو ترجیح دینے لگی ہے۔ کئی حلقے تو یہاں تک کہتے ہیں
کہ ٹرین سروس اور نظام الاوقات میں روڈ مافیا کا عمل دخل حیرتناک طور پر
بڑھ گیا ہے۔ ایسا نہیں کہ پاکستان ریلوے کا ہمیشہ سے یہ حال تھا۔ سن ستر کی
دھائی تک ریلوے کا انتظام بڑی حد تک ان اہلکاروں کے ہاتھ میں تھا جو برٹش
دور میں بھرتی ہوئے تھے اور ان میں پیشہ ورانہ جذبہ اور ڈسپلن ختم نہیں ہوا
تھا۔ اور ریلوے کا محکمہ پیشے بنانے کے لئے نہیں بلکہ عوام کی خدمت کے لئے
تھا۔کاش اب بھی کسی کو عوام کی خدمت کا خیال آجائے۔ |