پاکستان کو کون سی چیز ابھی تک
سلامت رکھے ہوئے ہے؟ بظاہر سیاسی بقا کی خراب صورتحال اور انتہائی سیاست
زدہ ذرائع ابلاغ کی پھیلائی ہوئی سوگوار اور خزنیہ فضا، ہر طرف بم دھماکوں
کے واقعات، ان سب کے باوجود یہ مُلک اپنے وجود کو قائم رکھنے میں کامیاب
کیسے ہے؟
یہاں کے لوگوں کے اندر دھچکا برداشت کرنے کی بے انتہا صلاحیت ہے۔ اس حوالے
سے پہلی صف میں وہ لوگ ہیں جو ان کی قیادت کر رہے ہیں۔ یہ قائدین وزرا یا
منتخب نمائندے نہیں ہیں جن میں بد قسمتی سے خود اس مادے کی کمی ہے جو قیادت
کی ساخت میں کام آتا ہے۔ ہمارے اصلی قائد ہمارے درمیان موجود وہ ہزاروں
کمیونٹی ایکٹوسٹ ہیں جن میں سے اکثر کے بارے میں شاید بہت سے لوگوں کو علم
بھی نہ ہو۔
یہ لوگ تعداد میں اتنے زیادہ ہیں کہ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے ذرائع
ابلاغ نے ان لوگوں کو منظرِ عام سے ہٹائے رکھنے کی مُلک گیر سازش کر رکھی
ہے۔ کیا آپ نے کبھی طاہرہ علی کا نام سنا ہے جو کراچی کے ماہی گیروں کے
حقوق کی خاطر کام کر رہی ہے؟ یا کیا آپ صوبہ سندھ کے سب سے بڑے اضلاع میں
سے ایک ضلع سانگھڑ کے مجید منگھیرو سے واقف ہیں جو چھوٹیاری ڈیم کے تنازعہ
پر جاگیرداروں کے خلاف جد وجہد میں اپنی کمیونٹی کی قیادت کر رہے ہیں؟ ایسا
ہی ایک اور نام صوبہ سرحد کے امیر محمد کا ہے جو اپنے صوبے کے جنگلات کو
بچانے کے لئے مہم کی قیادت کر رہے ہیں۔ کراچی کے چھوٹے سے علاقے لیاری کے
اُس تھیٹر گروپ کے بارے میں کیا خیال ہے جو اپنے فساد زدہ مُحلّے میں امن
وآشتی اور ہم آہنگی قائم رکھنے کے لئے گلیوں مُحلّوں میں سٹیج ڈرامے کرتا
ہے؟
ان ایکٹوِسٹوں اور ان جیسے بہت سے دیگر لوگوں کی کاوِشوں کو ضرور سراہنا
چاہیے۔ یہ سب تخیل پرست ہیں۔ کچھ کم ہیں تو کچھ زیادہ۔ لیکن ان سب کے مَن
میں ایک یوٹوپیائی خواہش چھپی ہے کہ، ڈاکٹر اختر حمید خان مرحوم کے الفاظ
میں، " کسی طرح دوسروں کی خدمت کی جائے، حقیقی مسائل حل کیے جائیں اور ایک
ایسی دنیا تخلیق کی جائے جو زیادہ مہربان، زیادہ انصاف پسند اور زیادہ
خوشحال ہو۔"
ڈاکٹر خان ایک باکمال ایکٹوِسٹ تھے لیکن انہیں خود کو سماجی سائنسدان
کہلانا زیادہ پسند تھا۔ ان کا ایک خواب تھا اور ان میں وہ تمام صلاحیتیں
موجود تھیں جو کامیاب لیڈروں میں ہوتی ہیں یعنی تخیل پرستی، تبدیلی پر اثر
انداز ہونے کا حوصلہ، بے لوث پن اور انسانیت سے محبّت۔
یہ ڈاکٹر خان کے لئے ایک انتہائی موزوں خراجِ تحسین ہے کہ ان کا چھوڑا ہوا
ترکہ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ (او پی پی)، جو ایک جدّت آمیز پروگرام ہے جس کا
مقصد کراچی کے ضلع اورنگی میں قائم کچّی بستیوں کے مکینوں کو اپنے نکاسیِ
آب اور رہائش کے مسائل خود حل کرنے میں مدد دینا ہے، ہر سال دسمبر میں ان
کی برسی منانے کے لئے اجلاس منعقد کیا کرتا ہے۔
اس دانشورانہ معمول کا مقصد اس عظیم آدمی کی یاد کا احترام کرنا اور سارے
پاکستان میں موجود ایکٹِوسٹوں کی ایک دوسرے کے ساتھ نیٹ ورکنگ کی حوصلہ
افزائی کر کے ڈاکٹر خان کے پیغام پر عمل کرنا ہے۔ یہ اس طرح کا 10 واں فورم
تھا جہاں محترمہ زیبدہ مصطفٰے جو اس تحریر و تحقیق کی خالق ہیں کی ملاقات
مذکورہ ایکٹوسٹوں سے ہوئی اور وہ ان کے اچھے کاموں کے بارے میں آگاہ ہوئیں
۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ وکلاء مہم کے برخلاف ایکٹِو ازم حکومت یا ریاستی
ادارے کی طرف سے کارروائی کا انتظار کیے بغیر سماجی اور مقامی حالات کو
تبدیل کرنے کے لئے نکل کھڑا ہوتا ہے۔ عام آدمی کی سطح پر موجود اس
ایکٹوازم نے پاکستان کو قائم رکھنے میں مدد دی ہے۔
ڈاکٹر خان کے نزدیک "میں سب سے بہتر جانتا ہوں" والے رویّے سے بڑا گناہ
کوئی اور نہیں ہے، خاص طور پر جب بات اس کمیونٹی کی ہو جس کے ساتھ وہ کام
کر رہے تھے۔ ان کے تحقیق اور اطلاق کے فلسفے کی بنیاد کمیونٹی کے مسائل کا
جائزہ لینے اور اس کے ارکان سے یہ سیکھنے پر تھی کہ وہ ان سے کیسے نبرد
آزما ہوتے ہیں۔ اس علم کی بنیاد پر وہ کچھ تیکنیکی رہنما اصول مرتب کرکے
متعلقہ کمیونٹی کو اعانت کے طور پر پیش کرتے تھے۔ ان کے اخذ کردہ بنیادی
نتائج اور مشاہدات انتہائی دلچسپ تھے۔
اوّل، جب حکومت ناکام ہوجاتی ہے تو مقامی کمیونٹیز اُٹھ کھڑی ہوتی ہیں اور
اپنی مدد آپ کے اصول کے تحت کام کرتی ہیں۔
دوم، اگر لوگوں کو سماجی اور تیکنیکی رہنمائی حاصل ہو تو وہ اپنے مالی
وسائل اور افرادی قوت کو حرکت میں لے آتے ہیں۔
تیسری بات یہ کہ لوگوں کے سب سے اہم تحفظّات رہائش ونکاسیِ آب، حفظانِ
صحت، تعلیم اور روزگار سے متعلق ہیں۔
اورنگی پراجیکٹ کے تجربے اور ڈاکٹر خان کے کام کا جائزہ لینے سے اس بات کی
تصدیق ہوتی ہے کہ کامیاب ایکٹوازم دوہرا عمل ہے۔ پہلی سطح پر کمیونٹی کے
عام رہنما شامل ہوتے ہیں جو لوگوں کی فِکری ضروریات اور عزائم سے واقفیت
رکھتے ہیں۔
دوسری سطح پُر عزم افراد پر مشتمل ہے جن میں زیادہ تر پیشہ وارانہ مہارت
رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کا اس کمیونٹی سے تعلق رکھنا ضروری نہیں
لیکن ان سب کو اس کمیونٹی سے گہری ہمدردی ہوتی ہے۔
ان افراد کا کردار وہی ہے جو ڈاکٹر خان نے اپنے لئے چُنا تھا یعنی "دادی
امّاں" والا کردار جو ہر فرد کو تشفی اور رہنمائی دے کر خاندان کو اکٹھا
رکھتی ہیں۔ یہ دوسری سطح اعتماد قائم کرنے اور سماجی تحریک کے لئے مسلسل
حمایت فراہم کرنے کے لئے انتہائی ضروری ہے۔
پیشہ وارانہ مہارتوں والے ان افراد کی جن کا اس کمیونٹی سے براہِ راست تعلق
نہیں ہوتا، ضرورت اس وقت تک ہوتی ہے جب تک کمیونٹی تعلیم وتربیت کے ذریعے
اس درجے کو چھو نہیں لیتی جہاں وہ اپنے پروفیشنل خود پیدا کرنے کے قابل
ہوجاتی ہے۔ تاہم مقامی ایکٹوسٹوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ
دوسری سطح پر موجود افراد کے کمیونٹی کے ساتھ مضبوط روابط ہوں اور وہ ان
لوگوں کے ساتھ پہچانے جاتے ہوں۔
ترقیاتی منصوبے چاہے رہائشی ہوں، تعلیمی یا بنیادی صحِت عامہ کے، انہیں
کامیاب بنانے کے لئے ایکٹوازم کی باہم اچھی طرح مربوط ان دو پرتوں کا ہونا
بہت ضروری ہے۔ عوام کی سطح پر لوگوں کی شمولیت کے بغیر کوئی ترقیاتی حکمتِ
عملی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی اور لوگوں کو متحرک صرف مقامی قیادت
ہی کرتی ہے۔
یہی وہ راز ہے جس نے اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کو قابلِ عمل اور دوسری جگہوں پر
بھی نافذ کیے جانے کے قابل بنایا ہے۔ اس کا ثبوت غیر سرکاری اداروں اور
کمیونٹی کی بنیاد پر بننے والی تنظیموں کے پھیلتے ہوئے نیٹ ورک سے ملتا ہے
جس کے او پی پی کے ساتھ روابط ہیں اور جو ڈاکٹر خان کے فلسفے کی تائید کرتے
ہوئے مسلسل پھیلتا جا رہا ہے۔
قارئین زیبدہ صاحبہ نے جس انداز میں وطن عزیز کے ان خاموش مگر مثبت کردار
کے حامل سول سوسائٹی کی شخصیات کو ہم سے متعارف کرایا وہ نہ صرف قابل تحسین
ہے بلکہ اس ضمن میں ہم سب پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے اپنے
علاقے میں ایسے پوشیدہ کرداروں سے وطن عزیز کے عوام کو نہ صر ف متعارف
کرائیں بلکہ اپنی زندگیوں اور معاشرے کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے ان کے
زیادہ سے زیادہ ہاتھ مضبوط بنانے میں اپنا حصہ ڈالیں تاکہ ارض پاک کو درپیش
مشکلات کا خاتمہ ہو سکے اور دشمنوں کی طرف سے ارض پاک کو ناکام بنانے کا
دیکھا جانے والا خواب ہمیشہ ہمیشہ کےلئے چکنا چور ہو جائے ۔ |