ایک دن حضرت فاروق اعظمؓ کا سادہ
دربار خلافت سر گرم انصاف عدل تھا۔اکابر صحابہ ؓ مو جود تھے۔اور مختلف
معاملات پیش ہو ہو کر طے ہو رہے تھے۔کہ اچانک ایک خوش ۔رو ۔نوجوان کو دو
نوجوان پکڑے ہوئے لائے اور فریاد کیــ؛یا امیر المومینین ؓ اس ظالم سے
ہمارا حق دلوائیے۔اس لیے کہ اس نے ہمارے باپ کو مار ڈالا؛حضرت عمر ؓ نے اس
نو جوان کی طرف دیکھ کر فرمایا؛ہاں دونوں کا جواب میں سُن چُکا اب بتا تیرا
کیا جواب ہے؟
اُس نے نہایت ہی فصاحت و بلاغت سے پورا واقعہ بیان کیا۔جس کا خلاصہ یہ
تھاکہ؛ہاں مجھ سے یہ جُرم ضرور ہوا ہے اور میں نے طیش آکر ایک پتھر کھینچ
مارا،جس کی ضرب سے وہ پیر ضعیف مر گیا۔
حضرت عمر ؓ نے فرمایا تو تجھے اعتراف ہے تو اب قصاب کا عمل لازم ہوگیا اور
اس کے عوض تجھے اپنی جان دینی ہوگی۔جوان نے سر جھکاکر عرض کیا۔مجھے امام کے
حکم اور شریعت کا فتویٰ ماننے میں کوئی عذر نہیں لیکن ایک درخواست ہے۔ارشاد
ہوا ؛وہ کیا۔؟عرض کیا:میرا ایک چھوٹا نا بالغ بھائی ہے۔جس کے لیئے والد
مرحوم نے کچھ سونا میرے سُپرد کیا تھا کہ وہ بالغ ہو؛تو اس کے سپرد
کروں۔میں نے اس سونے کو ایک جگہ دفن کر دیا اور اس کا اتنا چاہتا ہوں کہ
تین دن ضمانت پر چھوڑ دیا جائے۔جناب عمر ؓ نے اس بارے میں سر جھکاکر ذرا
غور فرمایا اور پھر سر اُٹھاکر ارشاد کیا؛اچھا کون ضمانت کرتا ہے کہ تو تین
دن کے بعد قصاص کے لیئے چلا آئے گا۔
فاروق اعظم ؓ کے اس ارشاد پر اس نوجوان نے چاروں طرف دیکھا اور حاظرین کے
چہروں پر ایک نظر ڈال کر ابوذرغفاری ؓ کی طرف اشارہ کر کے عرض کیا؛یہ میری
ضمانت دے گے۔حضرت عمر ؓ نے پوچھا ؛ابوذرؓ؛کیا تم اس کی ضمانت کرتے ہو؛انہوں
نے فرمایا؛بے شک میں ضمانت کرتا ہوں کہ یہ نوجوان تین دن بعد حاضر ہوجائے
گا۔یہ ایسے جلیل القدر صحابی ؓ کی ضمانت تھی کہ حضرت عمر ؓ بھی راضی
ہوگئے۔ان دونوں مدعی نوجوانوں نے اپنی رضامندی ظاہر کی اور وہ شخص چھوڑ دیا
گیا۔
اب تیسرا دن تھاــ:حضرت عمر ؓ کا دربار بدستور قائم ہوا۔تمام جلیل القدر
صحابہ ؓ جمع ہوئے۔وہ دونوں نو عمر مدعی بھی آئے۔ابوذر ؓ بھی تشریف لائے اور
وقت مقرر پر مجرم کا انتظار ہونے لگا۔اب وقت گزرتا جارہا تھا۔اور اس مجرم
کا کوئی پتا نہیں۔صحابہ ؓ میں ابوذرؓ کی نسبت تشویش پیدا ہوگئی۔دونوں
نوجوانوں نے بڑھ کر کہا؛اے ابوذر ؓ ہمارا مجرم کہا ہے؟؛انہوں نے کمال اور
استقلال اور ثابت قدمی سے جواب دیا کہ؛اگر تیسرے دن کا وقت مقرر گزر گیا
اور وہ نہ آیا خدا کی قسم؛میں اپنی ضمانت پوری کرو گا۔عدالت فاروقی بھی جوش
میں آئی۔حضرت عمر فاروق ؓ سنبھل بیٹھے اور فرمایا؛اگر وہ نہ آیا تو ابوذر ؓ
کی نسبت وہی کاروائی کی جائے گی؛جو شریعت اسلامی کا تقاضا ہے۔
یہ سُنتے ہی صحابہ ؓ میں تشویش پیدا ہوگئی۔بعض آبدیدہ اور بعض کی آنکھوں سے
بے اختیار آنسو جاری ہوگئے۔لوگوں نے مدعی سے کہنا شروع کیا کہ؛تم خون بہا
قبول کرلو۔انہوں نے قطعی انکار کیا کہ ہم خون کے بدلے خون ہی چاہتے ہے۔لوگ
اس پریشانی میں تھے کہ ناگہاں وہ مجرم نمودار ہوا۔حالت یہ کہ پسینے میں
ڈوبا ہوا اور سانس پھولی ہوئی تھی۔وہ آتے ہی حضرت عمر ؓ کے سامنے آیا۔خندا
جینی سے سلام کیااور عرض کیا؛میں اس بچے کو اس کے ماموں کے سپرد کر آیا ہوں
اور اس کی جائداد اس کو بتادی۔اب آپ اﷲ تعالیٰ اور رسولؐ کا حکم بجا لائیں۔
حضرت ابوذرؓ نے فرمایا؛امیر المومنین اﷲ کی قسم میں جانتا بھی نہ تھاکہ یہ
کون اور کہاں کا رہنے والا ہے؟نہ اس روز سے پہلے کبھی اِس کی ُصورت
دیکھی؛مگر سب کچھ چھوڑ کر مجھے اس نے ضامن بنایا؛تو مجھے انکار مروت کے
خلاف معلوم ہوا اور اس کے بشرے نے یقین دلایا کہ یہ شخص عہد میں سچا ثابت
ہوگا۔اس لیئے ضمانت کرلی؛۔
اس کے آ پہنچنے سے حاضرین میں ایسا غیر معمولی جوش پیدا ہوگیا تھا کہ دونوں
مدعی نوجوانوں نے خوشی میں آکر عرض کیا؛امیر المومنین!ہم نے اپنے باپ کا
خون معاف کردیا۔
سب نے ایک نعرہ مسرت بلند کیا اور حضرت عمرؓ کا چہرہ مسرت سے چمکنے لگااور
فرمایا؛مدعی نوجوانوں تمارے باپ کا خون بہا میں بیت المال سے ادا کرو
گا۔اور تم اپنی اِسی نیک نفسی کے ساتھ فائدہ اُٹھاؤ گے۔
انہوں نے عرض کیا؛امیر المومنین !ہم اس حق کو خالص اﷲ کی خوشنودی کے لیئے
معاف کر چکے۔لہذا اب ہمیں کچھ لینے کا حق نہیں ہے اور نہ لیں گے۔ |