دل مسلا جاتا ہے۔ دل پھٹتا ہے۔ درد انتہا
کو پہنچ جاتا ہے۔ بے بسی برداشت نہیں ہوتی۔ جب۔۔۔
جب کسی بچے کو بھیک مانگتے دیکھتی ہوں۔
جب کسی بچے کو کسی اجنبی کے ہاتھوں مار کھاتے اور بےعزت ہوتے دیکھتی ہوں۔
جب کسی سائیکل والے کو ٹریفک پولیس کے ہاتھوں ذلیل ہوتے دیکھتی ہوں۔
جب کسی نوجوان کے ہاتھ میں ہتھکڑی دیکھتی ہوں۔
جب صبح گھر سے نکلے کڑیل جوان کا لاشہ گھر میں داخل ہوتے دیکھتی ہوں۔
جب کسی بچے کی ماں کو اپنے بچے کا قصور پوچھتے دیکھتی ہوں۔
جب کسی عدالت کے باہر ایسے نوجوان کو دیکھتی ہوں جو ضمانت کے بعد کسی اپنے
کے آنے کے انتظار میں کھڑا ہوتا ہے۔
جب کسی خطا وار کو گناہ گار بن کر جیل سے باہر آتا دیکھتی ہوں۔
جب راہ میں چلتے کسی لڑکے کو آوازیں کستے دیکھتی ہوں۔
جب کسی معصوم بچے کو وقت سے پہلے بڑا ہوتے دیکھتی ہوں۔
جب کسی معصوم کے کندھوں پر روزگار کا بوجھ اور ہتھیلیوں پر وقت کے ستم
دیکھتی ہوں۔
جب کالج کے لڑکوں کو بسوں اور وین میں ڈرائیور اور کنڈکٹر سے ہاتھا پائی
کرتے دیکھتی ہوں۔
جب قلم پکڑنے والے ہاتھوں میں کڑے تیوروں کے ساتھ ہاکی اور بیٹ پکڑے دیکھتی
ہوں۔
جب نماز کے وقت کسی مسلمان بچے کو کھیل کے میدان میں یا گلی کے نکڑ میں
کھڑا دیکھتی ہوں۔
جب گلی میں کھیلتے بچوں کو آپس میں ایک دوسرے کو گالی دے کر بلاتے دیکھتی
ہوں۔
میرے بچے ایسے ہی روز قتل ہوتے ہیں۔ ہر طریقے سے قتل ہو رہے ہیں۔
کوئی میرا درد سمجھ سکتا ہے کیا؟
میں کس کو ملزم نامزد کروں؟ کس کو قصور وار ٹھہراؤں؟
کیا ان کی ماؤں کو جن کے لاڈ پیار نے انہیں بگاڑ دیا ، یا ان ماؤں کو جنہوں
نے انہیں اپنایا ہی نہیں، یا ان کے باپوں کو جن کی بےجا سختی نے انہیں باغی
کر دیا۔ یا ان باپوں کو جنہوں نے انہیں حرام کھلایا اور حرام سکھایا، یا ان
کے استادوں کو جن کو تربیت کرنا بھول گئ، جو عمارت بنانا بھول گئے۔ یا اس
نظام کو جو کندن کی بجاۓ سونے کو راکھ کر دیتا ہے۔ یا معاشرے کے ان بیمار
حیوانوں کو جو کسی ایسے ہی ظلم کا انتقام لے رہے ہیں، یا پھر اپنے نفس کے
غلام بن گئے ہیں۔
یا پھر ان بچوں کے پیٹوں میں گئ حرام کی کمائی کو، یا پھر قدرت کے بازی
پلٹنے کو۔
بولو! میں کس کو دوش دوں۔ یہ درد اب ناقابل برداشت ہے۔ مجھے اس بیماری کی
جڑ اکھاڑنی ہے۔ بتاؤں کس کس کو اکھاڑوں۔ |