حلقہ نمبر ایک کے عوام کو لازمی جاگنا ہوگا

رسول خداﷺ،اماموں اور صحابہ کرام کے دور میں ان کے ہاتھوں بیعت ہوا کرتی تھی اور تا مرتے دم تک وہ اپنی بیعت کو نہیں توڑا کرتے تھے۔خدا نخواستہ اگر کوئی بیعت کو توڑدے تو اسے فاسق،منافق اور مکار کہا جاتا تھا۔بیعت کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے بیعت کر نے والا شخص اس نبی ،امام، صحابی کے نقش قدم پر چلنے کا حلف لیتا ہے۔کہ آج کے بعد میں وہی کچھ کروں گا یا مانوں گا جو آپ ہمیں حکم دیں گے۔یعنی اپنی دنیا اور آخرت سنوارنے کے لئے وہ بیعت کرتا ہے۔جبکہ اسلام میں کسی،بے نمازی، شرابی،رشوت خور،دروغ گو،بے ایمان شخص کی بیعت کرنا نہ صرف منع فرمایا ہے بلکہ اس کوحرام قرار دیا ہے۔بیعت اپنے سے افضل بندے کی کیجاتی ہے اور کی جانی چاہئے، جیسا کہ مریض کوڈاکٹر کا کہا ماننا ضروری ہوتا ہے،سائل کو وکیل کے مشورے پر عمل کرنا ہوتا ہے ،طالب علم کو اپنے استاد کی بیعت ہر بات پر عمل کرنا لازمی ہوتا ہے،احترام اور بیعت اہلیت کی بناء پر کی جاتی ہے نہ کی روابط کی بنیاد پر۔چونکہ اس مسلمان معاشرے میں، گو کہ یہ معاشرہ مسلمانوں کا تو نہیں رہا، مگر ہمارے بنیادی عقائد سے ہماری پہچان ایک مسلمان کی طرح ہوگئی ہے، جبکہ ہمار کردار کس حد تک اسلامی ہے اس بات سے تو ہم سب آگاہ ہیں۔آج تک ہم نے جن جن کی بیعت کر کے انہیں کامیابی سے ہمکنار کردیا ہے، یعنی ووٹ دے کر انہیں مالا مال ہو نے میں مدد کی ہے۔ ہم نے خود یہ دیکھنا ہے کہ اسلامی لحاظ سے ہم نے صحیح کام کیا یا غلط؟مانا کہ آج کے دور میں اُس سطح کے لوگ بہت نایاب ہیں ۔یقینا آپ کے ذہن عالیہ میں یہ سوال ضرور اُٹھے گا کہ ہم کہاں سے اماموں اور صحابہ کی طرح کے عظیم کردار والے بندے تلاش کریں گے۔تو اس سوال کا جواب یہ ہے ٹھیک اب نہ کوئی تابعین موجود ہیں نہ ان کے قریبی پیروکار،مگر موجودہ سیاست جو کہ انتہائی آلودہ ہوچکی ہے پھر بھی معاشرے میں ایسے افراد ہیں جو ایمانداری کے ساتھ قومی خدمت کر سکتے ہیں، ایسے افراد اب بھی موجود ہیں جو غیر جانبدار ہیں،جو سچ کے علاوہ کچھ نہیں بولتے ہیں،جو عوام کا ایک روپیہ کھانا بھی اپنے اوپر حرام قرار دیتے ہیں۔جو رشوت،لوٹ مار،مسلکی منافرت کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔اور ایسا انسان دولت مند نہیں ہوتا ہے وہ آپ کو فٹ پاتھ پر ہی نظر آئے گا۔ایسے افراد سے آپ بھی بخوبی واقف ہیں، اگر ان کی طرف توجہ مرکوز نہیں ہورہی ہے تو وہ اس انسان کی غربت ہے اس کے پاس مال زر نہیں وہ غریب ہے مگر ذہنی طور پر ہم سے بہت امیر ہے۔دیکھا جائے تو ہماری ذہنی غربت کی وجہ سے ہم ایسے ایماندار افراد کو خدمت کے مواقع فراہم نہیں کرتے ہیں۔اس کی اصل وجہ ایک یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہم خود اصولوں کے پابند نہیں جہاں سے جیسا بھی ملے ،مال ملے چونکہ لقمہ حرام کے ہم کچھ زیادہ ہی عادی ہوئے ہیں اس لئے ہمارا چناؤ بھی اسی سطح کا ہوتا ہے۔اب حلقہ نمبر ایک کے برائے نام مذہبی ذہنیت رکھنے والے بھی غور فرمائیں۔اس حلقے میں کبھی بھی سیاسی بنیاد پر الیکشن ہوئے ہی نہیں۔اگر بظاہر نام کسی سیاسی پارٹی کا تو چل رہا ہوتا ہے بگر، ووٹ مسلکی تفرقہ پر ہی دیا اور لیا جارہا ہے۔خدا کو حاضر و ناظر جان کر یہ بتایا جائے آیا اتنے طویل عرصے میں کوئی خاطر خواہ تعمیراتی کام ہوا،کیا اس حلقے کے عوام کو خوشحال بنایا گیا ہے؟ کیا اب تک کسی لیڈر نے ایمانداری سے سرکار کا دیا ہوا فنڈ استعمال کیا ہے؟ یہاں غریب اور پست طبقے کے لوگوں کی حالت تبدیل ہوئی ہے؟ کیا فرقہ وارانہ طرز فکر میں کمی آئی ہے؟ جواب میں ہر کوئی یہی کہے گا ہرگز نہیں۔اگر کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے تو اس کی وجہ بھی ہم خود ہیں یعنی ہم خود تبدیلی نہیں چاہتے ہیں۔یہاں دونوں مکاتب فکر کے لوگوں کی نفسیات کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں اپنے مقاصد کے لیئے استعمال کیا جاتا ہے۔آخر ہم کب تک کسی کے لئے استعمال ہوتے رہیں گے؟ کیا ہمیں ترقی اور خوشحالی بری لگتی ہے؟ ہمیں اپنے ہی بھائیوں کے ساتھ نفرت،دشمنی رکھ کر ہم خود نفرت کی پہچان بن چکے ہیں۔کیا یہ ایک پر امن مسلمان کو زیب دیتا ہے ان حرکتوں سے ہم کونسے اسلام کی خدمت کررہے ہیں۔؟سوال یہ ہے کہ اب تک ہم نے کیا کچھ حاصل کیا ہے؟ فائدہ عوام کو ملا یا سیاستدان کو؟کک پتی لوگ آپ کی وجہ سے کروڑ پتی بن بیٹھے ہیں نہ عوام پوچھتی ہے اور نہ کوئی اور پوچھنے والا۔خدا کے لئے اپنے آپ پر رحم کھائیں اس مرتبہ گزشتہ گناہوں سے توبہ کرتے ہوئے بیدار ہوجائیں ، تبدیلی لائیں۔آپ ایک مرتبہ عزم کر کے سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں پھر دیکھیں یہ حلقہ کتنی تیزی سے ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوتا ہے۔اب تک تو ہماری بیعت یعنی ہمارا ووٹ روابط کی بناء پر ڈالا گیا ہے۔جس میں مسلکی رابط، اندرونی قومی، برادری اور دولت کی چمک دمک دیکھ کربڑی بڑی گاڑیوں کی لمبی قطاریں اور ریلیاں فلک شگاف نعروں سے بھی ہم متاثر ہوتے ہیں۔یا درکھیں تاریخ گواہ ہے جس قوم نے بھی چناؤ میں غلطی کی ہے وہ ہمیشہ تنزلی کا شکار ہوکر ایک بھکاری کی مانندذلت و رسوائی اس قوم کا مقدر بنا ہے۔جب کہ ہمارا یہ حلقہ فرقہ واریت میں بھی اپنی مثال آپ ہے۔ عوام میں یہ حوصلہ پیدا ہونا چاہئے کہ برے کو برا کہیں۔شر پسند اور دہشت گردی کا ذہن رکھنے والے افراد کو بے نقاب کریں تاکہ آپ کا اور آپ کی نسل کا مستقبل روشن اور محفوظ ہوسکے۔اس مرتبہ الیکشن میں جتنے بھی افراد کھڑے ہوں بہتر ہے ،مگر فرقہ وارانہ رنگ دے کرکسی کو بھی بٹھانے کی کوشش نہ کی جائے۔سب کے سب الیکشن میں حصہ لیں ،کسی کوبھی مجبور نہ کیا جائے کہ تم بیٹھ جاؤ ورنا ہمارے ساتھ یہ ہوگا تو وہ ہوگا۔ اور نہ کسی کو خریدنے کی کوشش کی جائے اگر کوئی پیسہ لے کر بک جائے تو آئندہ ایسے افراد کو عوام مسترد کریں۔خاص طور پر ان افراد سے ہوشیار رہیں جو دوران الیکشن زیادہ پیسہ خرچ کرے ،چونکہ بعد میں آپ ہی سے وہی پیسہ بیس گنا اضافے کے ساتھ وصول کیا جاتا ہے اور ایسا تا حال ہوتا آیا ہے۔اگر یہ سیاسی لوگ ہمارے غریب عوام کے اتنے ہمدرد ہوتے تو کسی ہسپتال میں خیراتی فنڈ دیتے ،کسی غریب بچی کی جہیز میں مدد کرتے، کسی غریب قابل بچے کی فیس ادا کرتے ،در حقیقت یہ عوام کو بیوہ قوف بنا رہے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ بچاری عوام ووٹ دینے کے بعد بے بس ہوجاتی ہے ،ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہتا کہ ان کا لیڈر جیسا بھی ان کے ساتھ سلوک کرے وہ کچھ نہیں کر پاتے، نہ ہی وہ اپنے لیڈر کو لوٹ مار سے روک سکتے ہیں اور نہ ہی ان کا محاسبہ کر سکتے ہیں یہاں تک کہ وہ اپنی ضرورت کے لیے اپنے لیڈر سے وقت پر آسانی سے ملاقات بھی نہیں کر سکتے ہیں۔اس حوالے سے میری اک تجویز ہے ۔وہ اس طرح کہ جب کوئی بھی سیاستدان الیکشن لڑنے کے لئے میدان میں اترے ، اگر وہ واقعی ایماندار ہے تو اسے اپنی ایمانداری کے ثبوت کے لئے ایک کا م کرنا چاہئے وہ اس طرح کہ وہ قبل از وقت ہی ایک اسٹام پیپر تیار کرے اور اس میں یہ تحریر کیا جائے کہ اگر میں نے کوئی کرپشن کی ،عوامی فنڈ کو اپنے ذاتی مفاد میں استعمال کیا تو عوام کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ ثبوت کے ساتھ الیکشن کمیشن یا عدالت جا کر مجھے ممبری یا وزارت کے اس عہدے سے ہٹا سکتی ہے۔ چونکہ اس اسٹام کی کاپی عدلیہ ، الیکشن کمشنر، متعلقہ پولیس اسٹیشن ، و دیگر اداروں تک پہنچائی جائے ۔یعنی سادہ الفاظ میں وہ عوام کو پاور آف اٹارنی قبل از وقت ہاتھ میں دے ۔اگر اس طرح کی یہ نئی روایت کی ابتدا ہوجائے تو یقین سے کہا جاسکتا ہے گلگت بلتستان چوروں کو داخل ہونے کے راستے کافی حد تک مشکل ہوجائیں گے اور ووٹ دینے کے بعد بھی سیاستدانوں کے اوپر عوامی گرفت برقرار رہے گی پورے، گلگت بلتستان کے عوام کو اس نئی تجویز پر غور کرنے کی ضرورت ہے ، تاکہ سیاستدانوں کو عوامی طاقت اور اہمیت کا بھی اندازہ ہوجائے کہ واقعی طاقت کا سر چشمہ عوام ہی ہیں ۔

ہماری تو یہ خواہش ہوگی کہ دونوں مساجد سے یہ اعلان کیا جائے کہ جتنے بھی لوگ الیکشن لڑنے کے خواہاں ہیں وہ سب کے سب لڑیں اور اس حلقے کو مسلکی منافرت سے نجات دلا کر ایک سماجی اور سیاسی حلقہ بنایا جائے۔تاکہ ماضی کی طرح ہماری وہ بھائی چارگی بحال ہوجائے ہم ایک دوسرے کے دکھ درد میں بلا خوف خطر شریک ہوسکیں۔دیکھیں مسلمان، مومن ایک سوراخ سے دوسری بار ڈس نہیں کھاتا جب کہ ہم مسلسل زخمی ہوتے ہوئے بھی پھر اسی سوراخ کے اندر ململ میں لپٹے ہوئے کالے ناگ پر بھروسہ کرتے ہیں۔یہی تو سب سے بڑی خود کشی ہے جس سے نسلیں برباد ہوجاتی ہیں معاشی قتل عام ہوتا ہے۔کس کی خواہش نہیں کہ اس کا بچہ اچھے اسکول میں تعلیم حاصل کرے،اچھے ڈاکٹر سے علاج کروائے اور پر امن زندگی گزرے۔کون نہیں چاہتا ہے کہ ان کے بچے باہر جائیں تو سلامتی کے ساتھ اپنے گھر واپس لوٹ آئیں۔یہ سب تب ممکن ہے کہ علاقے سے فرقہ واریت اور غربت کا خاتمہ ہوجائے۔یہی صورت حال دیگر حلقوں کی بھی ہے ہم سب کو اس دفعہ اس فارمولے پر عمل کرنا چاہئے۔اکثر یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ جہاں ایک ہی فرقے کا حلقہ ہے وہاں پر اور طرح کے حیلوں اور بہانوں سے کام لیا جارہا ہے۔یہ بھی کوئی زندگی ہے ایک علاقے میں رہتے ہوئے نو گو ایراز بن جائیں ،کیا یہ بھی کوئی جینا جہاں مسلکی بنیادوں پر ہسپتال، جیل تقسیم ہوں۔یہاں تک کہ الیکشن کے دنوں میں بھی ایک فرقے کا سیاستدان دوسرے فرقے والوں کے پاس جا کر جلسہ بھی نہ کر سکے۔یہ تو سامراجی ایجنڈا ہے جس پر ہم من و عن مصروف عمل ہیں اور روز بہ روز بدتری کی جانب جارہے ہیں۔لہٰذا دل پر ہاتھ رکھ کر ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے اور ہر برائی کو روکنے کے لئے حصہ بقدر جسہ اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، تاکہ علاقے سے لوٹ مار، کرپشن، اقربا پروری اور دہشت گردی کا قلع قمع ہوسکے۔اس وقت پورے ملک کی مشینری ایک ہوکر دہشت گردی کے خلاف اقدامات میں مصروف عمل ہے۔ یہاں میں ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے یہ کہنا بھی چاہوں گا کہ ’’غربت اور جہالت کے گندھے جوہڑ‘‘ سے یہ سارا انتشار جنم لیتا ہے اس لئے ارباب اختیار کو بھی چاہئے قومی اور ملکی لٹیروں پر بھی کڑی نظر رکھیں اور میدان سیاست سے ایسے عناصر کو پاک کیا جائے تاکہ غریب عوام کو اپنی حالت بدلنے کا موقع میسر ہوسکے۔آئیں اس نئے سال میں ہم یہ عہد کریں کہ ہمارا ہر نیا سال گزشتہ سال سے کہیں بہتر اور پر امن گزرے اور دنیا ہمیں بھی عزت کی نگاہ سے دیکھے۔اب آنے والے الیکشن میں ہم سب نے اس فرسودہ لوٹ مار اور اقربا پروری والے نظام کو بدل ڈالنے کے لئے کمر کس کر میدان عمل میں آنا ہوگا،تاکہ یہ حلقہ ایک سیاسی حلقے کی شکل اختیار کرے اور ہمارے درمیان سے ہی اچھے ایماندار لیڈر پیدا ہوں۔اور ایسا ماحول پیدا ہو کہ الیکشن لڑنے کے لئے پیسے کی اس قدر ضرورت نہ پڑے۔اگر یہ حلقہ بدل گیا تو یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ گلگت بلتستان کے دیگر حلقوں میں پر بھی اچھے اثرات ضرور مرتب ہونگئے۔ اب الیکشن قریب ہیں فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔یہاں موجودہ زندہ مثال آپ کو بتاتا چلوں کہ غذر حلقہ ایک سے عوام نے خود اپنے خرچے پر نواز خان ناجی کو کھڑا کیا،عوام نے تن من دھن کی قربانی دے کر اسے کامیاب بھی کروایا۔ اور اس دفعہ جتنا تعمیراتی کام ان کے حلقے میں ہوا ہے وہ گلگت بلتستان میں کہیں نہیں ہوا ہے۔ جب کہ ایک روپیہ کا بھی کرپشن نہیں اسی گھر میں رہتا ہے جہاں وہ پہلے رہتے تھے۔جبکہ اس دفعہ ہونے والے انتخابات میں عوام خود اپنی مرضی سے کمپین کر رہی ہے۔اب میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں گا کہ ملک کے دشمن وہ حضرات ہیں جو قومی خزانے سے اپنے بنک آکاونٹس بھرتے ہیں،عوام کا حق غضب کرتے ہیں،ملک و قوم کو نقصان پہنچاتے ہیں وہ ملک کے دشمن ہیں یا نواز خان ناجی جو قومی امانت کو ایمانداری کے ساتھ ترقیاتی امور میں صرف کرتے ہیں؟یہاں پر یہ ذکر کرنے کا مقصد فقد اتنا ہے کہ ایک قوم پرست کو خدمت کا موقع ملا تو اس نے قومی جذبے کے ساتھ عملی طور پر کام کر کے ایک مثال قائم کردی۔بس اب ہم نے امیر، غریب کو نہیں دیکھنا ہے ،بلکہ کردار اور قومی جذبے کو دیکھنا ہوگا۔ہماری یہ بھرپور کوشش ہونی چاہئے کہ گلگت حلقہ نمبر1 جتنا بدنام ہوا تھا اس سے کہیں زیادہ نیک نام ہو کرتعمیر ترقی اور امن قائم کرنے میں اپنا مقام پیدا کرے ۔ ہمیں ؛ازمہ طور پر جاگنا ہوگا،تاکہ ہمارا شمار بھی باشعور زندہ لوگوں میں ہوسکے۔ہمیں انقلاب لانا ہے یعنی اپنی اندر تبدیلی لانی ہوگی۔ آزمائے ہوئے کھوٹے سکوں کو اب قریب نہیں آنے دیا جائے،اب ہم نے اس حلقے کو ہر صورت میں سیاسی حلقہ بنانا ہے،غلامانہ طرز فکر سے آگے نکل کر اپنے دل و دماغ میں وسعت پیدا کرکے علمی، معاشی میدان میں جدید دور کا مقابلہ کرنے کیلئے جدید ہم آہنگی وقر کی عین ضرورت ہے۔ جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی۔روح امم کی حیات کشمکش انقلاب۔آئیں مل کر دعا کریں کہ پروردگار علم ہم سب کو آپس میں شیرو شکر ہو کر مل بیٹھنے اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)

Yousuf Ali Nashad
About the Author: Yousuf Ali Nashad Read More Articles by Yousuf Ali Nashad: 18 Articles with 19125 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.