سابق صدر پرویز مشرف پر 2003 میں قاتلانہ حملے کی کوشش
کرنے والے مجرم اخلاق احمد عرف روسی کو 21 دسمبر کو پھانسی پر لٹکا کر
پاکستان میں دفن کیا گیا تھا مگر اس کی لاش " دو روز کے لیے غائب" ہوکر 26
دسمبر کو روس میں ظاہر ہوئی۔
اس بات کا انکشاف ہونے کے بعد شرمندہ پاکستانی حکام نے اسلام آباد کے دو
پولیس افسران کو معطل کرتے ہوئے اس کی جلد تحقیقات کا حکم دیا۔
|
|
اسلام آباد پولیس نے ریکارڈ تک رسائی کے لیے ڈان نیوز کی جانب سے دی گئی
درخواست پر فوری جواب نہیں دیا تاہم انسپکٹر جنرل طاہر عالم خان نے ای میل
پر کہا کہ " ان کا نائب تیموری اس معاملے پر بریفننگ دے گا"۔
تاہم روسی سفارتخانے کی بائیس دسمبر کی پریس ریلیز اور پولیس، وزارت داخلہ
اور اسلام آباد انتظامیہ کے ذرائع نے اس ڈرامے میں انسانی جذبات کی کہانی
کا انکشاف کیا ہے۔
اپنے بیان میں روسی سفارتخانے نے اس بات پر افسوس ظاہر کیا تھا کہ اسلام
آباد نے نہ صرف روسی شہریت رکھنے والے اخلاق احمد کی سزائے موت کو مؤخر
کرنے کی درخواستوں پر ردعمل ظاہر نہیں کیا بلکہ سزائے موت کے فیصلے کے بارے
میں آگاہ بھی نہیں کیا گیا۔
اخلاق احمد ماضی میں آزاد کشمیر کے علاقے راولاکوٹ میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر
تھا۔
اس کے پاکستانی والد اخلاص نے 21 دسمبر کو فیصل آباد میں پھانسی دیئے جانے
کے بعد نعش وصول کر کے اسی روز اپنے آبائی قصبے ہیجرہ میں اس کی تدفین کردی
تھی۔
سرکاری ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ اخلاق کی روسی والدہ اپنے بیٹے کی لاش
لینے کے لیے روسی سفارتخانے کی مدد سے اسلام آباد پہنچیں۔
ذرائع کے مطابق " کوئی ردعمل سامنے نہ آنے پر ماں اور روسی سفارتکاروں نے
ہیجرہ کا رخ کیا اور دو روز کے اندر کسی نہ کسی طرح لاش کو قبر سے نکالا
اور 23 دسمبر کو رات گئے اسلام آباد واپس پہنچے"۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ جب وہ لوگ پمز پہنچے تاکہ میت کو مردہ خانہ میں
رکھا جاسکے " کچھ انٹیلی جنس افسران نے پولیس اور انتظامیہ کو الرٹ کرتے
ہوئے لاش کو ضبط کرنے کی ہدایت دی"۔
پولیس اور وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ کے عہدیداران ہسپتال پہنچے اور
وہاں سفارتکاروں کو ڈیتھ سرٹیفکیٹ اور دیگر دستاویزات نہ ہونے پر ہسپتال کے
عملے کی جانب سے میت کو مردہ خانے میں نہ رکھنے پر بحث کرتے ہوئے پایا۔
ذرائع بتاتے ہیں "پولیس کے سینئر حکام اور متعلقہ عہدیداران نے سفارتکاروں
کو میت ایک نجی ہسپتال لے کر جانے اور مزید احکامات تک وہاں رکھنے کا مشورہ
دیا"۔
تاہم روسی سفارتکاروں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ لاش کو راولپنڈی کے
کڈنی سینٹر میں رکھیں گے۔
اس کے بعد لاش کو ایک ایمبولینس میں رکھ دیا گیا، جس کے ساتھ ماں اور کچھ
روسی سفارتکار تھے تاہم ذرائع کے مطابق ایمبولینس نے راستے کے دوران اپنی
سمت بدلی اور راولپنڈی کی بجائے تیز رفتاری سے سفارتی انکلیو کی جانب چلی
گئی۔
پولیس نے ایمبولینس کا تعاقب کیا مگر جب وہ ایمبولینس روسی سفارتخانے میں
داخل ہوگئی تو اسے رکنا پڑا۔
ذرائع کے مطابق تمام " متعلقہ اعلیٰ عہدیداران" کو اس بارے میں آگاہ کیا
گیا اور ان کی جانب سے ایلیٹ پولیس کو روسی سفارتخانے کو گھیرے میں لینے کے
احکامات دیئے گئے جس پر عملدرآمد بھی ہوا۔
مگر پھر انہیں اس وقت واپس بلالیا گیا جب ماسکو کی جانب سے اسلام آباد کو
پیغام بھیجا گیا کہ لاش کو واپس نہیں کیا جائے گا اور روس کی جانب سے فوری
طور پر پولیس کا گھیرا اٹھانے کا مطالبہ کیا گیا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ دو روز کی بات چیت کے بعد سفارتخانے نے لاش کو مقامی
حکام کے حوالے اس یقین دہانی کے بعد کیا گیا کہ اسے واپس کر کے روس بھجوایا
جائے گا اور اس یقین دہانی پر عملدرآمد بھی ہوا۔
اور اس طرح 26 دسمبر کو یہ کہانی اختتام کو پہنچی مگر صرف روس کے لیے۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ ایک انٹیلی جنس ادارے نے وزیر داخلہ کو پمز سے لاش کی "
گمشدگی اور چھیننے" کی شکات کی گئی۔
|
|
اس کے بعد وزیر کی جانب سے اسلام آباد کے چیف کمشنر کو ایک تحقیقات اور ذمہ
داران کا تعین کرنے کا حکم دیا گیا۔ قائم مقام ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ
نعمان یوسف اور ایس پی انویسٹی گیشن محمد بلال سے واقعے کی تحقیقات کا کہا
گیا جنھوں نے ایس ایچ او مرگلہ محمد باقر اور ڈیوٹی آفیسر جبار کو ذمہ دار
قرار دیا۔
ان کی جانب سے ان عہدیداران کے خلاف محکمہ جاتی ایکشن کی سفارش کی گئی۔
ذرائع کے مطابق پولیس کے ساتھ ساتھ ایک اسسٹنٹ کمشنر اور ایک مجسٹریٹ بھی
لاش کو تحویل میں لینے اور سفارتکاروں کو اسے لے کر جانے سے روکنے میں
ناکام رہے تھے، اس کے علاوہ انہوں نے سینئر حکام اور گشتی عملے کو بھی الرٹ
نہیں کیا۔
تاہم ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ رات گئے پیش آیا تھا اور سینئر حکام کی
بڑی اکثریت اس وقت دستیاب نہیں تھی " تو ایس ایچ او اس وقت سینئر افسر بن
گئے تھے مگر وہ مناسب فیصلہ کرنے میں ناکام رہے"۔
چیف کمشنر ذوالفقار حیدر اس معاملے پر بات کے لیے دستیاب نہیں ہوسکے جبکہ
ایس پی سٹی رضوان گوندل نے ایس پی الیاس سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا جن کے
دائرہ اختیار میں پمز واقع ہے۔
ایس پی الیاس نے اپنے جواب میں بتایا " میں نے اس معاملے میں کچھ نہیں کیا
کیونکہ مجھ سے مشورہ یا اس بارے میں کچھ کہا ہی نہیں گیا"۔ |