آنچل حوا تار تار، ذمہ دار کون

تحریر: ثناء ناز رجانہ
بے شک اﷲ نے عورت کو اعلیٰ درجے پر فائز کیا ہے۔ یہ عظیم ہستی بیٹی کے روپ میں رحمت، بہن کے روپ میں بھائی کی سب سے بڑی خیر خواہ، بیوی کے روپ میں گھر بھر کا سکوں جبکہ ماں کے روپ میں جنت ہوتی ہے۔ اگر عورت یہ جان لے کہ آج وہ اپنے گھر کی رحمت ہے اور پھر ایک دن اس کے قدموں تلے جنت لکھ دی جائے گی، تو شاید کبھی کوئی لڑکی خود کو کسی سے کم تر نہیں سمجھے گی۔

جب تک عورت گھر کی چار دیواری میں رہتی ہے وہ ہر بری نظر سے محفوظ ہوتی ہے۔ ایسی عورتیں شریعت اسلامیہ کے نزدیک بھی بہت پسندیدہ ہوتی ہیں جو باپ کے بھروسے، بھائی کی غیرت اور شوہر کی عزت کا مان رکھتی ہیں۔ وہ کبھی بھولے سے بھی ان کی عزت پر حرف نہیں آنے دیتیں۔ ایسی عورتیں جب گھر سے باہر نکلتی ہیں تو خود کو حیاء کے پردے میں چھپائے رکھتی ہیں۔ حیا اور عزت عورت کا زیور ہیں۔ جب تک وہ خود کو حیا کی چادر میں ڈھک کر رکھتی ہیں، تب تک وہ سیپ میں بند انمول موتی کی ہوتی ہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جس قدر یہ نایاب موتی ہوتی ہیں اس قدر حساس بھی ہوتی ہیں۔ ایک ذرہ سی غلطی بھی اس موتی کو قیمتی کو آسمان سے گرا کر زمین تک لے جانے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ چوٹی سی چوک سب کچھ ملیا ملیٹ کر رکھ دیتی ہے۔

صنف نازک کو پھول سے تشبیہ دی جائے تو بلکل غلط نہیں ہو گا۔ عورت پھول ہے تو اس کی عزت خوشبو کی ماند۔ جب تک پھول خوشبو سے ڈھکا رہتا ہے، تب تک وہ سب کا پسندیدہ ہوتا ہے، مگر جیسے جیسے اسکی خوشبو ختم ہوتی جاتی ہے وہ اپنی قدر کھوتا جاتا ہے اور پھر کبھی لوگوں کے ہاتھوں مسلا جاتا ہے تو کبھی پیروں تلے آکر کچل دیا جاتا ہے۔ اگر عورت کی عزت ایک بار اڑ جائے تو کبھی لوٹ کر نہیں آتی۔ اﷲ نے عورت کو مرد کی پسلی سے پیدا کیا جو کہ ہمیشہ سے ہی کمزور ہے۔ پھر عورت کی نزاکت کی وجہ سے اسے گھر کی چار دیواری کے اندر کے کام سونپے ہیں۔ مرد فطرا سخت طبعیت کا ہوتا ہے جبھی اسے کما کر لانے اور گھر کی گاڑی چلانے کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ اس لئے عورت کو اپنی کمزوری کو مد نظر رکھتے ہوئے گھر میں رہتے ہوئے یا پردے کی اوڑھ میں اپنی تمام تر سرگرمیاں رکھنی چاہیں۔

ایک تلخ حقیقت جو کہ سب جانتے ہیں آجکل ہم جس زمانے میں رہ رہے ہیں وہ ’’کوالٹی جنریشن‘‘ کا زمانہ ہے۔ جہاں مغربی کلچر اور ثقافت ترجیح دے کر خود کو آزاد خیال کہلوانے والی ’’بولڈ‘‘ لڑکیاں ’’کوالٹی جنریشن‘‘ کا پورا پورا حق وصول کر رہی ہیں، وہیں ایسے کئی ایک روشن خیال مرد عورت ذات کو پاؤں کی جوتی اور ٹشو پیپر کی طرح اپنے اپنے مفادات کی خاطر استعمال کر کے پھینک رہے ہیں۔ لمحہ فکریہ ہے کہ ہم آنکھوں پر بے حسی کی پٹی باندھے اس معاشرے میں جی رہے ہیں۔ اس معاشرے کو دیکھ کر ایسا احساس ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس دن کے لئے فرمایا ہے کہ
ترجمہ: ﴿اور اپنے گھر میں ٹکی رہیں اور ایسے بناؤ، سنگھار (بے پردگی) کر کے گھر سے نہ نکلیں جس طرح قرون اولیٰ (اسلام سے پہلے کے دور) میں خواتین نکلا کرتی تھیں﴾ [القرآن]

شاید ہم اب قرون ثانیہ میں جی رہی ہیں۔ کیا عجیب بات ہے کہ ہمارا دل کرے یا نہ کرے، ہمارا ضمیر اجازت دے یا پھر نہ دے، ہمیں اسی معاشرے میں جینا ہے۔ گناہوں سے آلودہ اسی فضا میں سانس لینا ہے۔ اگر سوچا جائے تو بحثیت ایک مسلمان ہم اس معاشرے کو کیسے پسند کر سکتے ہیں جو ہمیں مغربی غلامانہ آزادی تو دیتا ہے مگر عزت نہیں۔ اسی آزادی کی آڑ میں نہ جانے کون کون ہماری مجبوریوں کا فائدہ اٹھارہا ہے، ہمیں سر بازار نیلام کیا جارہا ہے۔ سمجھ بوجھ رکھتے ہوئے بھی ہم اسی معاشرے کی پیروی کرتے ہے۔

کیا عجب ترجیحات بن چکی ہیں ہماری کہ ہمارے بیوروکریٹس سے لے کر عوامی نمائندے تک سب کے دامن بے داغ ہیں مگر پیسے اور روپے کی چمک نے ہمیں ان کے آگے جھکایا ہوا ہے۔ دولت اور عزت کا رکھوالا خود ہوس کا بھوکا ہوتا ہے۔ جس کے پنجے، ناخن اور دانتوں سے عزتوں کے نوچے جانے کے اثرات ابھی باقی ہوتے ہیں وہیں ہماری گلی کوچوں میں با عزت بنا پھرتا ہے۔

ایک طرف تو ہماری مائیں، بہنیں اور بیٹیوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ مغربی ثقافت کا پرچار کرتی دیکھائی دیتی ہیں حالانکہ وہ جانتی ہیں آج جس قدر مجبور و مقہور عورت ذات مغرب میں ہے کہیں اور نہیں۔ اس لئے اس معاشرے کی نظروں سے خود کو محفوظ رکھنے کے لئے ہمیں گھروں کو قلعہ سمجھنا ہوگا، ہمیں حیا و عفت کی چادر اوڑھنی ہوگی۔ دوسری طرف ہمیں اس باپ، بھائی اور بیٹے سے یہ پوچھنا ہوگا کہ کیا وہ بھی اس معاشرے کو پسند کرتے ہیں جہاں نوجوان نسل، کیفوں اور کلبوں میں اپنی راتیں بتاتی ہے۔ کیا وہ بھی اس معاشرے کو سپورٹ کرتے ہیں جہاں شب و روز درندگی کا تماشا ہوتا ہے، جہاں سرِعام عصمتوں کی بولی لگائی جاتی ہے۔

جس عورت کو گھر سے بے وجہ باہر نکلنے سے منع فرمایا گیا، عورت کو حیا کے پردے کا نام دیا گیا، تیز خوشبو لگانے سے منع کیا گیا، اونچا بولنے سے منع کیا گیا تھا آج وہیں عورت وہ سب بڑی خوشی سے کرتی پھر رہی۔ ٹی وی چینلز کی صبح اس عورت کے کھلے بال، اتراتی چال اور لچک دار گفتگو سے ہوتی ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ’’جو عورتیں اپنے گھروں سے بناؤ سنگھار کرکے نکلتی ہیں، اور اپنے بالوں کی ذینت سے مردوں کا بہکاتی ہیں اور خود بھی بہکی ہوئی ہوتی ہیں تو وہ جہنمی‘‘۔

عورت کی سب سے عظیم ترین اس کی حیا ہوتی ہے۔ اگر وہ حیا ہی نہ رہے تو پھر کھونے کو باقی کچھ نہیں بچتا۔ ذرا سوچیے! اگر ہم اس معاشرے کا حصہ ہیں تو ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہوگا۔ ہمیں بلا تفریق مرد و عورت خود کو بدلنا ہوگا۔ اگر ہم خود کو بدلنے میں کامیاب ہوگئے تو یقینا ہمارا معاشرہ بھی راہ راست پر آجائے گا۔ عورت کو اپنا کھویا ہوا وقار واپس لانا ہوگا۔ خود کو پردہ میں چھپا کر اپنی عزت کا تحفظ کرنا ہوگا۔ اور ساتھ میں ایک بھائی کو بہن، ایک بیٹے کو ماں، ایک باپ کو بیٹی اور ایک شوہر کو دوسروں کی بیویوں پر غلط نگاہ سے روکنا ہوگا۔

اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو پھر عین ممکن ہے کہ حالات اس سے بھی بد تر ہوتے چلیں جائیں اور اﷲ نہ کرے بے وجہ آزادی کی بدولت پھر گھروں سے عزتوں کے جنازے نہ اٹھانے پڑھ جائیں۔
خواب میں دیکھا آنچل حوا کی بیٹی کے سر پر نہ تھا
تعبیر بتاتی ہے غیرت مسلم اب زندہ نہ رہی
Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142002 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.