آج کل بچوں میں ضد اور ہٹ دھرمی
کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ والدین کی بات کو نہ ماننا ایک روّیہ بن گیا ہے۔
غصّے کی حالت میں فوراً گھر چھوڑنا کر چلے جانا تو معمول بنتا جا رہا ہے۔یہ
بچوں میں منفی رویے کب اور کیوں پیدا ہوتے ہیں؟؟ہمارے ہاں بچوں کی ذہنی،
جسمانی و جذباتی صحت کو بری طرح سے نظرانداز کیا جاتا ہے۔ بچوں کی تعلیم و
تربیت، شخصیت کی مثبت و متوازن تعمیر و تشکیل اور کردار سازی کی ضرورت و
اہمیت گھر، اسکول اور معاشرے میں کہیں بھی ہرگز محسوس نہیں کی جاتی۔آج
مائیں بچوں میں اخلاقی بگاڑ اور بڑھتے ہوئے منفی رجحان و رویوں سے پریشان
نظر آتی ہیں، حالانکہ یہ سب توارث، ماحول اور اندازِ پرورش و تربیت کا
نتیجہ ہے۔ بچوں میں منفی رویّے خودبخود یا اچانک پیدا نہیں ہوتی، ان کے
پیچھے طویل عرصے تک بچے کے جذبات و احساسات، عزت ِنفس اور ذہن و دل کو
متاثر کرنے والے منفی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔اپنے بچوں کی ذات کو اہمیت
دیں، انہیں پوری توجہ، شفقت و محبت اور خوش دلی کے ساتھ پروان چڑھاکر مثبت
و متوازن اور پسندیدہ شخصیت کا حامل انسان بنائیں۔ یہ آپ کی ذمہ داری بھی
ہے اور وقت کی ضرورت بھی۔بچّہ عمرِ طفولیت سے بلوغت تک نشونما کے مختلف
منازل سے گزرتا ہے۔ ہر منزل کی اپنی خصوصیات ہیں۔ ماہرین کی رائے کے مطابق
مثبت طرزِعمل اختیار کرکے رویّوں میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔قربِ بلوغت کا
عرصہ تیرہ سے سترہ سال کا ہوتا ہے۔ یہ ذہنی پختگی کا دور ہے اس میں بچے بہت
جذباتی ہوتے ہیں۔ معمولی نوعیت کی گھریلو بے اعتدالیاں ، نا انصافیاں شدید
ردِعمل پیدا کردیتی ہیں۔ اس عمر میں خاص طور پر بچے کی عزت نفس کو مجروح
کرنے سے گریز کیا جائے۔ اس دور میں بچوں کو خاص طور پر رہنمائی کی ضرورت
ہوتی ہے تاکہ وہ پریشان نہ ہوں اور منفی سوچوں سے بچے رہیں۔ ان کی تخلیقی
قوتوں کودینی مدرسوں، سائنس ، مصوّری اور جیسے وسیع میدانوں میں مصروف کر
دینا چاہیے تاکہ خلافِ معاشرہ حرکات کے لئے ذہن بے کار نہ رہے۔ یاد رکھیے
بلوغت کا وقت بہت حساس ہوتا ہے۔ اس میں بچوں کی خاص طور پر باپ سے دوستی
اور رہنمائی بہت ضروری ہے۔ تاکہ اس دوستی کی بنیاد پر بچے والدین کی باتوں
کو رَد نہ کریں۔بچے چاہے جس عمر سے تعلق رکھتے ہوں چند عمومی اقدامات ایسے
ہیں جن کا مشترکہ طور پر اپنا یا جانا ضروری ہے۔ معمولی باتوں میں بچے کو
انتخاب کی آزادی اور فیصلے کا شعور دینا چاہیے۔ رہنمائی کرنے والوں کا یہ
کام نہیں کہ وہ اپنا فیصلہ بچے پر مسلط کریں۔ فیصلوں اور نتائج کے بارے میں
احساس ذمہ داری پیدا کرنا پہلا قدم ہے تاکہ خود اعتمادی پیدا کی جا سکے۔ جب
روزِ اوّل سے بچوں میں صحیح اور غلط کا شعور پیدا کر دیا جائیگا تو اپنے
غلط اقدام پر ان میں شرمندگی بھی پیدا ہوگی۔ بچوں کو بتایا جائے کہ معاشرتی
اقدار کیا ہیں تربیت سے اْسے اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنے ارد گرد کے
ماحول اور اپنے کردار کا تجزیہ کرنے کے قابل ہو جائیں۔مثبت سرگرمیوں کی
تلاش، منفی سرگرمیوں سے با خبر رہنا اور منفی سرگرمیوں کی مْذّمت کرنا
والدین کا فرض ہے بچے کی جذباتی تعلیم و تربیت اور فرمانبرداری کا جذبہ
پیدا کرنے کا ایک سنہری اصول یہ بھی ہے کہ والدین اور اساتذہ خود اپنی
جذباتی زندگی میں صحت اور توازن کا ہمہ وقت خیا ل رکھیں۔ اگر رہنمائی کرنے
والوں کی اپنی زندگی خلش ، اضطراب ، محرومیت ، تلخ کلامی ، لڑائی جھگڑوں
،گالی گلوچ اور بد مزگیوں سے پاک ہوگی تو بچے کی جذباتی زندگی میں بھی صحت
اور توازن کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔بچوں کے رویوں میں تبدیلی سے غفلت برتنا
ایک سنگین معاشرتی جرم ہے اگر ان پر بر وقت توجہ نہ دی جائے تو وہ بڑے ہو
کر اپنی ذات ، اپنے خاندان ، سارے معاشرے بلکہ بسا اوقات پوری دنیا کے لیے
باعثِ زحمت بن جاتے ہیں۔والدین ہی بچے کی پرورش، تربیت اور حفاظت کے ذمہ
دار ہوتے ہیں۔ اپنے بچے کے ساتھ ان کا صرف جسمانی ہی نہیں روحانی و جذباتی
تعلق بھی ہوتا ہی، مگر بدقسمتی سے بہت سے والدین اپنی ذمہ داریوں اور فرائض
سے پہلوتہی کرتے ہوئے بچوں میں کئی طرح کے منفی رویّے پیدا کرنے کا باعث
بھی بنتے ہیں۔ وہ بدقسمت بچہ جسے بچپن میں ماں کی ممتا اور باپ کی پدرانہ
شفقت و محبت کے ساتھ بھرپور توجہ اور احساسِ تحفظ نہ ملی، آئندہ زندگی میں
کبھی مثبت رویوں اور متوازن شخصیت کا حامل نہیں بن سکتا۔ |