بلیک ہول کا راز پالینے کا دعویٰ

سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے بلیک ہولوں کے بارے میں کئی سربستہ رازوں کو حاصل کر لیا ہے۔

بلیک ہول وہ تجاذبی میدان ہیں جو کائنات سے روشنی اور ستاروں کو اپنے اندر کھینچ لیتے ہیں۔

سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے یہ معلوم کر لیا ہے کہ بلیک ہول کیسے تقریباً روشنی کی رفتار سے ذرات کو سلسلہ وار باہر پھینکتے ہیں۔

بوسٹن یونیورسٹی کی ٹیم کا کہنا ہے کہ ذرات کی یہ لڑیاں بلیک ہول کے سرے کے قریب واقع مقناطیسی میدان سے جاری ہوتی ہیں۔

ٹیم کے ارکان کا کہنا ہے کہ اسی علاقے میں ذرات کی یہ لڑیاں رفتار پکڑتی ہیں اور ایک سمت میں مرتکز ہوتی ہیں۔

باوجود اس کے کہ ممکنہ طور پر ایک بلیک ہول کہکشاں کے مرکز میں حرکت کرتا رہتا ہے، خلابازوں کو ان کے بارے میں بہت کم معلومات تھیں۔

بوسٹن یونیورسٹی کے ڈاکٹر ایلن مارشر اور ان کی ٹیم نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ بلیک ہول کے معاملے میں اس گہرائی تک پہنچ گئے ہیں جہاں تک پہلے کوئی سائنسدان نہیں پہنچ سکا۔

اب تک ایجاد ہونے والی تمام قسم کی دور بینوں کو استعمال کرنے کے بعد پروفیسر مارشر نے یہ معلوم کیا ہے کہ ذرات کی لڑیاں کہاں اور کیسے بنتی ہیں۔

اس پروجیکٹ میں کام کرنے والے مشیگن یونیورسٹی کے پروفیسر ہیو آلر نے برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کو بتایا ہے کہ ذرات کا رفتار پکڑنے کا عمل اسی نوعیت کا ہے جیسا کہ ایک جیٹ انجن میں ہوتا ہے۔

تاہم بی بی سی کے سائنسی امور کے نامہ نگار نیل باؤڈلر کا کہنا ہے کہ اس اہم کامیابی کے باوجود سائنسدان یہ نہیں جان سکے کہ بلیک ہول کے اندر کیا ہوتا ہے۔

نامہ نگار کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ اگر نظری ماہرین طبیعات ٹھیک ہیں تو ہم بلیک ہولوں کے اندر کبھی بھی نہیں جھانک سکیں گے۔
 

YOU MAY ALSO LIKE: