پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا
کا چھٹابڑاملک ہے۔ملک کی آبادی کاساٹھ فیصد یعنی کم وبیش 110ملین لوگ مختلف
پیشوں سے وابستہ ہیں۔ انیس کروڑ‘اکسٹھ لاکھ پاکستانی آبادی میں سے ایسے لوگ
آپ کو بہت کم ملیں گے ‘جو اپنی معاشی مشکلات کی وجہ اپنے کسی پروگرام یا
فضول خرچی کو قراردیں گے۔ارضِ وطن کے پانچ کروڑ اور 40لاکھ افراد خطِ غربت
سے نیچے زندگی گزاررہے ہیں ‘سات کروڑ 60لاکھ افراد کو لیٹرین کی سہولت میسر
نہیں لیکن اس سب کی وجہ فقط حکومت نہیں ‘ہمیں اپنی شاہ خرچیوں پربھی نظر
ثانی کرناہوگی‘ہم آلائشوں سے پاک معاشرتی زندگی کاتصورتب ہی کرسکتے ہیں‘ جب
ہم اضافی اخراجات کاحُجم کم کرکے اپنے مستحق بھائیوں کی معاشی محرومیوں
کوختم کرنے میں ریاست کا ساتھ دیں۔ہم میں سے بیشتر لوگ صبح شام گورنمنٹ کو
کوسنے دیتے ہوئے سنائی دیتے ہیں ‘ مہنگائی عروج پر پہنچ گئی‘کمرتوڑ
مہنگائی‘غریب کا جیناحرام ہوگیا وغیرہ وغیرہ۔مجال ہے جو ہم لوگ اپنی حالت
زار کوسنوارنے کیلئے اپنی ذات کی خوشہ چینی کی ہمت کریں ۔ایک حدیث شریف کے
مفہوم میں ہے ۔’’مبارک ہے ایسے شخص کیلئے جسے اپنی کوتاہیاں دوسروں کی عیب
جوئی سے روک دیں۔‘‘لیکن اس حدیث پر مجھ سمیت بیشترلوگ شاذونادر ہی عمل کرتے
دکھائی دیتے ہیں ۔ممکن ہے اس کی وجہ ہماری کمزورنظریا پُرانی عینک کے نئے
شیشے ہوں مگر دال میں کچھ کالاضرورہے ‘چاہے وہ دال ہی کی صورت میں ہو۔
میں نے جب سے ہوش سنبھالاہے شادی بیاہ سے لے کر کفن دفن تک ایک ہی جملے کو
موجبِ مہنگائی پایاہے۔ہماری سوچ ‘نظریہ ‘خیالات سب کے سب موقع کی مناسبت سے
اسی جملے کے تابع نظر آتے ہیں۔ہم گھر سے باہر نکل رہے ہوں اور کپڑے ذرا
ہمارے معیار سے کم ہوں تو اول تو ہمارے اندر بیٹھا کوئی توہم پرست
یااناپرست پُکار اٹھتاہے ’’یار کپڑے بدل‘ لوگ کیاکہیں گے‘‘۔اگر اندر سے
ایسی آواز برآمدنہ ہوتو گھرہی کاکوئی فرد کہہ دیتا ہے ‘باہرجارہے ہوکپڑے
تواچھے پہن لو(یادرہے یہاں اچھے سے مراد وہ کپڑے ہیں جو ہم عام حالات میں
نہیں پہنتے یا جن کی مالیت ہماری حیثیت سے بڑھ کرہوتی ہے)۔پھر اگرہمارے پاس
موجود نہیں ہیں تو ہم ہمسائے سے مانگتے ہیں یاپھر اپنااورسب گھر والوں
کاپیٹ کاٹ کر دوچار قیمتی جوڑے بنالیتے ہیں تاکہ ’’نام نہادعزت ‘‘بنی
رہے‘اکثر سفید پوشوں کو اپنی عزت محفوظ رکھنے کیلئے میں نے لنڈابازارکارُخ
کرتے بھی دیکھاہے ۔جس کے پاس اچھے کپڑے اور بائیک ہے وہ دو قدم آگے بڑھ کر
’’کار ‘‘خرید لیتاہے تاکہ ’’عزت ‘‘بن جائے۔شادی یا جنازہ ہوہمارے ہاں پھر
گھر میں سرگوشیاں ہونے لگتی ہیں اب کیا کیا جائے؟میری طرح کا کوئی
سرپھراکہہ دے کہ جو گنجائش ہے ‘اسی کے مطابق چلو تو اُس کوسب نادان
وناعاقبت اندیش قراردیتے ہوئے کہتے ہیں’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘سچ پوچھیئے تو
ہم نے اس ایک جملے’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘پر اتناخرچ کیاہے کہ اپنی جان تک کی
پروانہیں کی‘بچوں کی نہیں ‘ماں باپ کی نہیں ‘۔
آپ معاشرے میں گھوم کر دیکھ لیجئے ‘آپ کو کئی ایسے گھر نظر آئیں گے ‘جہاں
مریض موجود ہوں گے لیکن اُن کی دوایاعلاج کا پیسہ نہیں ہوگا۔بیشتر ایسے
گھرانے ملیں گے‘ جن کے چولہے میں دووقت کی آگ بمشکل جلتی ہوگی۔ان تمام
گھرانوں کی شادی یا جنازے کے بعد کی صورتحال پر آپ نظر ڈالیں تو حیرانی
وپریشانی کی نئی دنیامیں کھوجائیں گے ۔جس گھر میں مریض کے علاج کیلئے ہزار
پندرہ سو دستیاب نہیں تھے‘ اب اسی گھر میں اُسی مریض کی وفات پر پلاؤ
اورزردے کی دیگوں کی لائن لگی ہو گی۔جس گھر میں دووقت کو چولہانہیں
جلتاتھااورگھرکا نگہبان کم پیسوں کی وجہ سے کھانستارہتاتھا‘اُس گھرمیں
ہزارہاروپے کی ہوائی فائرنگ ہوگی‘شادیانوں پر ہزاروں روپے اُڑیں گے ‘جو
رشتے دار پھوپھایاتایاجی کی قدیم کھانسی کی آوازسن کر بھی ٹس سے مس نہیں
ہوتے تھے اوردوائی کیلئے اُدھاررقم بھی نہیں دیتے تھے‘ وہ میراثیوں پر پیسہ
لٹائیں گے اورپھوپھاشادی کی رات خوشی میں ایک گھنٹہ زیادہ کھانسے گا۔میں تو
اکثر اپنے قرب وجوار کے لوگوں کوکہتاہوں کہ تم لوگ نیامہمان لاتے ہولیکن
اسکے کھانے کیلئے گھرمیں کچھ نہیں چھوڑتے ۔اکثرلوگ دعوت ولیمہ کو سنت
مبارکہ کہہ کر دامن چھڑا لیتے ہیں۔بھائی اگر سنت ہے توسادگی سے کیجئے ۔اگر
دل میں نیکی ہی کاجذبہ ہے توباہر گداگر وغریب لوگ کیوں برہنہ پاکھڑے زرق
برق لباس والوں کو حسرت سے دیکھ رہے ہیں؟پھر معیشت کے ستائے چیتھڑوں میں
ملبوس اِن اہل اسلام کو کیوں بچاکھچاکھانااندازِبے نیازی میں بانٹاجاتاہے؟
ایساہرگزنہیں کہ مریض کے فوت ہونے کے بعد یا شادی والے دن روپیہ درختوں پر
لگ جاتاہے یاچھپرپھاڑ کر اشرفیاں برسنے لگتی ہیں بلکہ ہم ان شاہ خرچیوں
کیلئے اُدھار کی گھٹڑیاں سرپراُٹھالیتے ہیں اورعمربھردہاتی دیتے رہتے
ہیں۔میں کہتاہوں جو لوگ اُدھاراُٹھاکر شاہ خرچیاں کرتے ہیں ‘ انکے پاس محلے
کے چوک ‘تھڑے یا دیہاتوں کے ماچوں (بڑی چارپائی ) پر بیٹھ کر حکومت کو آئی
ایم ایف سے قرضہ لینے پر ملامت کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں رہتالہذااُن
کے خلاف کوئی بائیسویں یاتیئسویں آئینی ترمیم کرکے سزامقررکی جانی
چاہیئے۔لیکن انکے خلاف اتنی سرعت کے ساتھ کاروائی نہیں کی جانی چاہیئے جتنی
ہماری سیاسی اشرافیہ دہشت گردوں کے خلاف کررہی ہے۔آن کی آن میں سب مک
گئے۔۔۔
ہماراالمیہ یہ ہے کہ ہم نے ’’عزت‘‘کے معیار بدل لیئے ہیں۔روپے پیسے ‘گاڑی
‘بنگلہ نے علم وحلم کی جگہ لے لی ہے۔ہم لاعلمی کے ایسے قعرِمذلت میں جاگرے
ہیں جہاں سے ہمیں پاک کتاب ہی نکال سکتی ہے ۔مگر ہم تو تحقیق ‘جستجو‘علم
کووہ رُتبہ ہی دینے کو تیارنہیں جو ہم روپے کودیتے ہیں‘جھوٹی اناوفضول
رسومات کو دیتے ہیں۔ہم فقط اس جملے پر اپنے گھر‘صحت‘معیشت‘سب کے سب کو
نذرِآتش کردیتے ہیں کہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘۔میرا یقین کیجئے جس دن آپ اس
جملے سے باہر نکل آئے پرسکون ہوجائیں گے‘پھر بیٹیوں کی سرمیں چاندی نہیں
آئے گی ‘میت بننے سے پہلے اپنے عزیزِجاں مریض پرخرچ بھی کرسکیں گے‘پچیس
تاریخ کے بعد اُدھار بھی نہیں مانگناپڑے گا۔ بوعلی سینا کہتے ہیں
۔ادھارکادوسرامطلب ذلت ہے۔ پھر ہمارے معاشرے میں شادی ہویاغم کا موقع‘
اضطراب کاوہ ناسور ختم ہوجائے گاجوہماری معیشت کو چاٹ جاتاہے۔کیا حکومت
ہمیں کہتی ہے کہ اپنے اخراجات سے بڑھ کرخرچ کریں؟پھر جب ہم خود ایساکرتے
ہیں تو لاچار سی حکومت کو کیوں کوسنے دیتے ہیں جو بیچاری اپنی ہی جان
کوروتی رہتی ہے‘مافیازکے زیرعتاب رہتی ہے۔کل تک جو سائیکل پر تھاوہ آج
موٹرسائیکل کامالک ہے ‘بائیک والے کو اﷲ نے کار دی ہے ۔پھر ہم ہروقت کیوں
محض شکوہ ہی کو لب پر تخت نشین ہونے کاموقع دیتے رہتے ہیں۔پٹرول وڈیزل کی
قیمتیں آسمان سے زمین پر آگئی ہیں ‘پانچ سوکے پٹرول سے بائیک پورے شہر میں
گھمائیے مگر شکرادانہ کیجئے گاکہ پورے خطے میں سب سے زیادہ تیل ہمارے ہاں
سستاہوا۔بھارت میں اب بھی اکسٹھ کروڑ لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزاررہے
ہیں۔ یو۔این ۔ڈی پی کی 2011کی رپورٹ کے مطابق غریب افراد رکھنے والے ممالک
میں چین 100‘بھارت134جبکہ پاکستان 145ویں نمبرپرہے۔لہذا ہمیں اپنی ذات پر
توجہ دینا ہوگی۔اپنے آپ کو بدلیئے ‘اخراجات کو حدود میں رکھیئے ‘سادگی
اپنائیے ‘نیاپاکستان خود بخود بن جائے گا۔اُس کیلئے آپ کو دم گھٹ
کریاپیاسانہیں مرناپڑے گا۔ |