عاصمہ عزیز، روالپنڈی
جب لنکا کے ڈاکوؤں نے مسلمانوں کے جہاز کو اغواکر لیا تو ایک قیدی لڑکی نے
حجاز بن یوسف کو مدد کے لئے خط لکھا ۔ حجاج بن یوسف نے اس خط کے اثر سے
وہاں کے راجا داہر سے مسلمان قیدیوں کو چھڑوانے کو کہا، لیکن اس نے بھی ان
کی مدد سے انکار کر دیا۔ پھر حجاج نے اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کو قیدیوں
کو آزادی دلانے کا ذمہ سونپا۔ اس وقت اس کی عمر 17 سال تھی۔ صرف اس مسلمان
بیٹی کی فریاد تھی اور محمد بن قاسم کاجذبہ تھا کہ نہ صرف ڈاکووں کو سزا
ملی بلکہ راجا داہر کو بھی شکست ہوئی اور سارا سندھ باب الاسلام بن گیا۔
ستراسالہ نوجوان محمد بن قاسم ایک بیٹی اور ایک بہن کے تحفظ اور اس کے
آنسوں پونچنے کے لئے ایک جابر قوم سے ٹکرانے کے لئے تیار ہوا اور پھر فتح
پائی توتاریخ رقم کر ڈالی۔ یہاں پر اگر ہم آج کے نوجوان کا موازنہ کریں تو
غیروں سے بیٹیوں کو تحفظ دینے کی بجائے خود اپنے ہی گھروں میں ان کو ان کو
روند ڈالتے ہیں۔ کچھ واقعات کا تذکرہ کرنا ضروری ہے جس سے اندازہ لگایا
جاسکتا ہے کہ ایک وہ نوجوان ہے جو بیٹی اور بہن کے آنسووں اتنی قدر کرتا ہے
کہ آج اس کے نام سے ہی عورت ذات کو تحفظ ک احساس ہوتا ہے اور ایک آج کا
نوجوان ہے کہ جس کا سنتے ہی اپنوں کے کلیجے پھٹنے لگتے ہیں۔
جانے کیوں ایسا ہوتا ہے کہ نکاح جیسے پاکیزہ رشتے کے نام پہ دوسروں کی
زندگیوں کو جہنم بنا دیا جاتا ہے اور پھر ستم یہ کہ نہ تو کسی عالم دین کو
نیا فتویٰ دینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، نہ ہی پارلیمنٹ اور سینٹ میں کوئی
ترمیم لائی جاتی ہے۔ ویمن رائٹس کے نام پر ہر وقت لائم لائٹ میں رہنے
والیوں کو سوائے اپنے لیڈر کی تعریفوں اور پارٹی مشن کے علاوہ کوئی دوسری
بات نہیں آتی۔
شہر میں رہنے والے ایک معزز ڈاکٹر اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی اپنے بھائی کے
بیٹے سے کردیتے ہیں تاہم سسرالیوں کا رویہ ایسا کہ کچھ ہی برسوں میں بیٹی
طلاق کے کاغذات لے بابل کی دہلیز پر آنچ پہنچتی ہے اور پھر کانچ کی بیٹی کے
ٹوٹنے کا غم اس قدر والد پر اثر کرتا انداز ہوتا ہے کہ وہی ٹکڑے چند دن بعد
انکی موت کا سبب بن جاتے ہیں۔
اسی طرح فارن ایمبیسی میں کام کرنے والی ایک طلاق یافتہ مگر ذہین بیٹی سے
ایک اجنبی نوجوان محبت کے نام پر شادی تو کر لیتا ہے مگر پھر اپنی بوڑھی
ماں کی خدمت کے لئے چھوڑ کے باہر ملک چلا جاتا ہے۔ وہ ذہین مگر دکھوں کی
ماری بیٹی دن رات بیمار ساس کی خدمت میں مشغول، اور ساس بھی اسے ایک لمحے
کے لئے بھی اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ کرتی کہ کہیں ملازمہ بہو اپنی خوشی کے
لئے ہی نہ کچھ سوچ لے، یعنی میکے جانے پر بھی پابندی۔ مگر اس ظالم ساس کو
یہ بات کسی طور بھی ہضم نہ ہو رہی تھی کہ پتہ نہیں یہ غیر لڑکی کون کہاں کی
اور اس کے بیٹے کی کمائی سے جی رہی ہے۔ ظالم عورت یہ بھی نہیں سوچتی کہ مفت
ملازمہ ہے، ورنہ فارن آفس میں کام کرنے والی کو پیسوں کی کمی نہ تھی پھر
بوڑھی ماں کی محبت جیت گئی، بیٹا اس دکھی کو چھوڑدیتا ہے۔ دوسری مرتبہ طلاق
کا داغ لگنے پر بوڑھا باپ دنیا سے رخصت ہوتاجاتا ہے۔
بظاہر ان واقعات میں اصل قاتل کا چہرہ واضح نہیں ہے، مگر ان لوگوں کو کیا
قصور ہے جو سنت نبوی ﷺپر عمل کرتے ہوئے ظالموں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں اور
بغیر کسی قصور کے زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ان کم بخت
نوجوانوں اور محمد بن قاسم میں فرق صرف اس قدر ہے کہ وہ ایک کم عمر نوجوان
ہے اور یہ اپنی مکمل نوجوان ہیں۔ وہاں پر غیروں کے ہاتھوں میں مجبور ایک
بیٹی ، ایک بہن ہوتی ہے اور وہ اس کی عزت اور تحفظ کے لئے ٹکرا جاتا ہے
جبکہ یہ خود ان بیٹیوں کو روند ڈالتے ہیں اور پھر اس سب کے بعد ہمارے قاتل
معاشرے میں کسی نوجوان کو ہمت نہیں ہوتی کہ وہ کچھ کر سکے۔
اس وقت ضرورت محمد بن قاسم جیسے نوجوانوں اور ایسے لوگوں ضرورت جو ایسے
ظالموں کو سبق سکھانے کے لئے قانون سازی کر سکے۔ حق مہر لالچ کے نہ ہونے کی
وجہ سے زیادہ نہیں رکھا جا سکتا۔ مگر ایسی قانون سازی تو کی جاسکتی ہے کہ
ظالم ساس کو اس بات کی سزا مل سکے جو وہ بہو کا گھر برباد کرتی ہے، ظالم
شوہر کو کڑی سزا مل سکے جب وہ کسی کی زندگی برباد کر دیتا ہے۔ قانون سازی
کرنے والے قانون دانوں ایسی قانون سازی کر یں بلکہ نکاح نامہ میں یہ شق
شامل کر دیں کہ جب بھی کوئی شوہر طلاق دے یا خلع کا واقعہ ہو سابق شوہر
بھاری ہرجانہ ادا کرے۔ ادا نہ کرنے کی صورت میں دس سال قید با مشقت دی
جائے، کیونکہ طلاق یافتہ بیٹیاں بھی تو ساری زندگی اس ظلم کی سزا کے ساتھ
جیتی ہیں۔ شاید اس طرح کسی بہن، بیٹی کو تحفظ میسر آجائے۔ |