1996 سے قبل ترکی ہر طرح کی برائی میں لتھڑا ہوا تھا اور
وہاں فحاشی٬ عریانی٬ چوری ڈکیتی٬ لوٹ مار٬ فراڈ اور منشیات عام تھی- اور
یہی صورتحال ترکی کے
شہر استنبول کی بھی تھی جہاں کلبوں میں شراب
اور رقص عروج پر تھے- اس کے علاوہ استنبول میں انسانی اسمگلنگ بھی بڑے
پیمانے پر جاری تھی جبکہ شہر میں ہر قسم کا نشہ کھلے عام دستیاب تھا- صرف
یہی نہیں بلکہ شہر کی تعمیری حالت بھی انتہائی خراب تھی٬ ہر طرف کچرے کے
ڈھیر موجود ہوتے تھے اور سڑکیں گندگی سے بھری ہوتی تھی- غرض کہ شاید ہی
کوئی ایسی برائی باقی رہ گئی جو ترکی یا استنبول سے اپنا رشتہ نہ جوڑ پائی
ہو- لیکن پھر جون 1996 میں جب نجم الدین اربکان کے ترکی وزیراعظم نامزد
ہوئے تو دنیا نے دیکھا کہ ترکی کا اسلامی تشخص ایک مرتبہ پھر بحال ہونا
شروع ہوگیا- مساجد کھول دی گئیں٬ مدارس میں دینی تعلیم کی شروعات ہوئی٬
حجاب پر سے پابندی اٹھا لی گئی- نجم الدین اربکان نے استنبول میں اسلامی
تشخص کی بحالی کے لیے اسے اپنے کارکن رجب طیب اردگان کے حوالے کردیا جو اس
وقت وہاں کے مئیر تھے-
|
|
طیب اردگان اس وقت ترکی کے موجودہ صدر ہیں اور تین مرتبہ ترکی کے وزیراعظم
بھی رہ چکے ہیں- طیب اردگان 26 فروری 1954 کو پیدا ہوئے اور ان کا بچپن
غربت میں گزرا جبکہ یہ اپنے تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے استنبول
میں ٹافیاں فروخت کیا کرتے تھے-
طیب اردگان 1994 سے لے کر 1998 تک استنبول کے مئیر رہے اور انہیں اپنے اس
دور میں اپنے وزیراعظم نجم الدین اربکان کی بھرپور حمایت اور مدد حاصل رہی-
اپنے چار سالہ دور میں انہوں نے شہر کو ہر طرح کی برائی سے پاک کر دیا- طیب
اردگان نے تمام شراب خانوں کو بند کروادیا٬ ہر قسم کی مافیا کا خاتمہ کیا٬
عصمت فروشی اور جوئے کے اڈے بند کردیے گئے٬ منشیات فروشوں کے خلاف کاروائی
کی گئی٬ بلا تفریق مجرموں کو پکڑ کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا
اور انہیں سزائیں دلوائی گئیں-
معاشرتی برائیوں کے خاتمے کے بعد طیب اردگان نے استنبول شہر کو ایک مثالی
خوبصورتی دینے کا تہیہ کیا- ابتدائی طور پر استنبول کو ماحولیاتی آلودگی سے
پاک کیا گیا٬ ٹریفک کے نظام میں بہتری لائی گئی٬ سڑکوں اور گلیوں کو پکا
کروایا گیا اور ساتھ ہی سیوریج کے نظام کو بھی بحال کیا گیا- پانی و بجلی
کے نظام کے ساتھ ہوٹلوں کو بھی بہتر بنایا گیا- اس کے ساتھ ساتھ نںی صنعتیں
بھی قائم کی جاتی رہیں جس سے معیشت میں بھی بہتری آئی- طیب اردگان کی یہ
کاوشیں استنبول میں سیاحت کو فروغ دینے کا باعث بنی-
|
|
اس جزیرے کو 6ویں صدی میں Slavic حملہ آوروں سے اپنی جان بچانے والے قدیم
Laconia کے باشندوں نے آباد کیا- ان حملہ آوروں نے 500 سے 700 عیسوی کے
درمیان یونان کے بیشتر حصے پر قبصہ کرلیا تھا-
یہ چٹانی جزیرہ 375 عیسوی میں آنے والے ایک شدید زلزلے کے باعث مرکزی زمین
سے منقطع ہوگیا تھا-
اگلی کئی صدیوں تک اس جزیرے پر Venetians اور ترکوں کی حکمرانی رہی٬ اور ان
صدیوں کے دوران یہ جزیرہ بار بار انہی دونوں کے زیرِ سرپرستی آتا رہا- اور
آخرکار 19ویں صدی کی ابتدا میں یونان میں ہونے والی جنگ میں یہ جزیرہ مکمل
آزاد ہوگیا-
Monemvasia نامی اس جزیرے کا نام دو یونانی دو لفظوں سے حاصل کیا گیا ہے-
جس میں سے ایک لفظ mone اور دوسرا emvasia ہیں- اس کے معنی "single
entrance" کے ہیں-
|
|
طیب اردگان نے اپنی انہی کامیابیوں کے بنیاد پر ایک سیاسی جماعت قائم کی
اور سال 2002 کے الیکشن میں حصہ لیا- اس الیکشن میں طیب اردگان کو 34 فیصد
ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل ہوئی اور وہ ترکی کے وزیراعظم منتخب ہوگئے-
وزیراعظم بننے کے بعد طیب اردگان نے استنبول کو دی جانے والی ترقی کا سلسلہ
اب پورے ملک میں پھیلا دیا اور طیب اردگان کے انہی کارناموں کی وجہ سے
انہیں 2007 کے الیکشن 47 فیصد ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل ہوئی اور دوسری
بار وزیراعظم منتخب ہوگئے- جس کے ساتھ ملک بھی مسلسل ترقی کی جانب گامزن
رہا اور ملکی پیداوار کی شرح 9 فیصد تک جا پہنچی جو کہ دنیا کے کسی بھی ملک
کی دوسری بڑی شرح تھی- طیب اردگان نے ملک میں بسنے والے ہر طبقے کو ترقی دی-
اور انہی اسباب کی بدولت وہ 2011 کے الیکشن میں تیسری مرتبہ پھر وزیراعظم
منتخب ہوگئے-
طیب اردگان نے اپنے تینوں ادوار میں مجموعی طور پر تعلیمی بجٹ کو 7.5 بلین
لیرا سے بڑھا کر 34 بلین لیرا تک پہنچا دیا٬ ترکی میں موجود ائیرپورٹس کی
تعداد 26 سے بڑھ کر 50 تک جاپہنچی٬ یورپی یونین کے ساتھ ایسے معاہدے کی گئی
جس سے ملک کی جی ڈی پی میں 43 فیصد اضافہ ہوا٬ صحت کی سہولیات کو عام اور
کسی حد تک مفت کیا گیا- لوگوں کی سہولیات کے لیے سینکڑوں میل طویل کئی
ایکسپریس وے اور سڑکیں تعمیر کی گئیں- ریلوے سسٹم کو ترکی کے دیگر شہروں تک
پھیلا گیا اور 1076 کلومیٹر کے رقبے پر پھیلی ریلوے 5449 کلومیٹر کے رقبے
تک پھیل گئی-
طیب اردگان نے کئی مقامی کمپنیوں کو بین الاقوامی سطح پر لاکھڑا کیا جس سے
ملک مزید تیزی کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہوگیا- اور یہی سبب ہے کہ ترکی
میں آج امن و سکون کے ساتھ ساتھ خوشحالی اور اور ترقی بھی ہے-
|
|
31 مئی بروز 2010 ء کو محصور غزہ پٹی کے لئے امدادی سامان لے کر جانے والے
آزادی بیڑے پر اسرائیل کے حملے اور حملے میں 9 ترک شہریوں کی ہلاکت کے
معاملے پر بھی اردگان مسلم دنیا بالخصوص عالم عرب میں ہیرو بن کر ابھرے اور
عوام سے لے کر حکومتوں اور ذرائع ابلاغ نے رجب طیب اردگان کے فلسطینی مسئلے
خاص طور پر غزہ پٹی کے حصار کے خاتمے کے لئے ٹھوس موقف کو سراہا۔
طیب اردگان کا طرزِ سیاست انتہائی عوامی اور منفرد ہے وہ عام لوگوں سے مل
کر ان کی تکالیف اور ملکی حالات کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں- بچوں کے ساتھ
محبت رکھتے ہیں اور اکثر بچوں میں ٹافیاں تقسیم کرتے دکھائی دیتے ہیں- بغیر
کسی پروٹوکول کے عوامی مقامات پر گھومتے پھرتے ہیں- ٹیکسی ڈرائیوروں کے
ساتھ عام بات چیت کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ طیب اردگان کا ماننا ہے کہ شہر
کے حالات کی درست معلومات ٹیکسی ڈرائیور ہی دے سکتے ہیں کیونکہ یہ ہر جگہ
جاتے ہیں- |