انسانی سوچ اور افکار و خیالات ہی انسان کی کامیابی کا
زینہ ہوتے ہیں، مثبت سوچ انسانی فلاح کو مہمیز کرتے ہے ، ناممکن کو ممکن
بنا سکتی ہے- منفی سوچ انسان کو سوچ کی تاریک اور اتھاہ گہرائیوں میں
دھکیلنا شروع کرتی ہے- لہذا جتنا ہوسکے ، مثبت سوچ اپنائیں اور منفی سوچ سے
چھٹکارا حاصل کریں ، کوشش کریں کہ منفی سوچ سے کوئی نہ کوئی مثبت پہلو
نکالیں ، یہ مثبت پہلو ایک معمولی سے تنکے کی مانند ہوتا ہے جس سے ڈوبتے کو
سہارا ملتا ہے ۔
مثبت سوچ ، ماضی ، حال اور مستقبل کی امین ہوتی ہے ۔
منفی سوچ بھی مثبت سوچ کی طرح ماضی ہی سے ، سوچ کا ذرہ لیتی ہے اُسے حال
میں لا کر یک دم تصورات سے بڑا کرتی ہوئی مستقل میں دھکیل دیتی ہے ۔ اور
پھراس کی مضبوطی میں مگن ہوجاتی ہے ، جبکہ منفی سوچ کو کبھی دوام حاصل نہیں
، اور منفی سوچ بیماری کا نام ہے جو بالکل دیکر جسمانی بیماریوں کی طرح
ہوتا ہے ، ہمارا دماغ(جسے ہم ہارڈ وئیر)بھی جسم کا حصہ ہے اِس میں بننے
والا ذہن (جو سافٹ وئیر ہے ) ، یہ بیماری اُس میں پیدا ہوتی ہے ۔ یہ بیماری
کم و بیش ہر اُس انسان میں ہوتی ہے ،جس میں خوف کا عنصر بڑھ گیا ہو ۔
خوشی ، خوف اور غم ، انسانی ذہن کی پیدا وار ہے ، دماغ کی نہیں ، جو حواس
خمسہ کی بدولت باہر کی دنیا سے انسان کی اندرونی دنیا ، یعنی دماغ کی دنیا
میں داخل ہوتے ہیں۔
بے خوابی اور بے چینی کی تحریک ، باہر کی دنیا سے اندرونی دنیا میں داخل
ہوتی ہے ، اندرونی دنیا دماغ کی دنیا کہلاتی ہے ہے ، جس میں لاکھوں سوچیں
ایک طوفان اٹھائے رکھتی ہیں ، کچھ سوچ بالکل چھوٹے چھوٹے بلبلوں کی طرح ،
بے اثر اور غیر محسوس ہوتی ہیں ، لیکن جو سوچیں بڑا بلبلہ بن کر انسانی ذہن
میں ارتعاش پیدا کرتی ہیں ، وہ اہمیت رکھتی ہیں اور ذہن کا حصہ بنتی ہیں ۔
مثلا ً پڑوس کی بچی نے سو میں سے 96 نمبر لئے ، تو اس سے آپ کے دماغ کی سوچ
میں ایک بلبلہ بنا ، لائق بچی ، لیکن آپ کی بیٹی 85نمبر لے کر کلاس میں
فرسٹ آئی ۔ تو بتائیے کہ
آپ کےدماغ میں سوچ کے کتنے بلبلے بنیں گے ؟
اور کس طرح کے بنیں گے ؟
اور کتنے آپ کے ذہن پر اثر انداز ہوں گے ؟
دوست کے بیٹے کا موٹر سائیکل پر کرتب دکھاتے ہوئے ، مین روڈ پر ایکسیڈنٹ ہو
گیا ، اُس کی ٹانگ ٹوٹ گئی ۔اِس خبر سے دماغ میں جو بلبلے پیدا ہوا ، زندگی
بچ گئی ، کرتب کیوں دکھایا ، شکر ہے جان بچ گئی ۔ اور یہ بلبلے جلد ہی
معدوم ہو گئے ۔ یعنی بنے ، ایک خاص جسامت اختیار کی اور واپس سکڑ کر ، دماغ
کے یاداشت کے خانے میں ذہن بن کر بیٹھ گئے ، اب یہ اُس وقت متحرک ہوں گے ۔
جب آپ سے کوئی دوست یا اُس کے بیٹے کا نام لے گا ، یا آپ کسی موٹر سائیکل
والے کو کرتب کرتا دیکھیں گے ۔ لیکن ان بلبلوں میں خوف و و ہراس کا کوئی
بلبلہ نہیں ہوگا ۔ غم کا شاید ایک چھوٹا سا بلبلہ ہو ۔
لیکن جلد بازی میں ننگے پیر جاتے وقت چارپائی کے پائے سے ٹکرا کر آپ کا
ناخن ٹوٹ گیا اور خون نکلنے لگا ۔ خوف ،و ہراس ، غم ، دکھ کے بلبلوں کی
یلغار آپ کے دماغ میں شروع ہوجائے گی ، جن میں سے کچھ تو بامعنی ہوں
(حقیقی) گے اور کچھ لا یعنی (تصوراتی)، جن کو آپ معنی دینا شروع کریں گے ۔
خوشی یا غم میں ، دماغ میں اٹھنے والی بامعنی سوچوں کو ہم مثبت اور وہ
سوچیں جوحقیقت کا روپ نہ دھار سکیں تصوراتی یا منفی کہلاتی ہیں ۔ اِس سے یہ
ہر گز نہ سمجھیں کہ ہر تصوراتی سوچ منفی ہوتی ہے کیوں کہ ہو سکتا ہے جو آج
تصور ہے کل حقیقت میں تبدیل ہوجائے ۔
دماغ میں اٹھنے والے ، سوچوں کے یہ تمام بلبلے ( بامعنی یا لایعنی ) مثبت و
منفی دونوں قدر رکھتے ہیں ۔ آپ یہ انسانی ذہن پر منحصر ہے کہ وہ کن بلبلوں
میں ہوا بھرے ؟ اور اِن بلبلوں میں بھری جانے والی ہوا ہی انسان کی خوشی یا
پریشانی میں اضافہ کرتے ہیں اور اِن دونوں کی وجہ سے اِنسانی نیند اُڑ جاتی
ہے ۔
کہتے ہیں کہ جس اِنسان کی نیند اُڑ جائے وہ بالآخر نفسیاتی مریض بن جاتا ہے
؟ |