صاحب کی عظمت کو سلام(حصہ دوم)

کوئی بھی سرکاری افسر جب اپنے عہدے پر براجمان ہوتا ہے تو کرسی پر بیٹھ کر اختیار کی پیڑ اٹھنے کی وجہ سے اسکی گردن میں اکڑاؤ آجانا خلاف معمول نہیں اور یہ مرض عام ہے اسی سے اختیارات کے نا جا ئز استعمال کی راہیں کھلتی ہیں،اگلے روز ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے سینئر ممبران ا نہیں’’ خراج تحسین‘‘ پیش کر رہے تھے کہ موصوف پہلے ڈی سی او ہیں جنہوں نے ایک طرف توتجاوزات ہٹانے کے لئے شہر میں کئی آپریشن کرائے ہیں اور دوسری جانب خود تجاوز کرتے ہوئے ڈی سی او ہاؤس کی دیواربرلب سڑک اٹھا دی ہے، جنرل بس سٹینڈ میں ایک مدت سے کرائے پر چڑھائی جانے والی دوکانوں کی نئے سرے سے بولی لگوانے اور دوکانداروں کو ہراساں اور بے روزگار کرنے کا سہرا بھی انہی کے سر ہے حالانکہ صاحب ضد کی بجائے چاہتے تو کرایوں کو با آسانی ری شیڈول کر کے ریونیو بڑھا سکتے تھے لیکن سرکا رکے ریونیو میں اضافے کے نام پر اسکی عوام میں مقبولیت کو تہس نہس کرنے کا فیصلہ کیوں ضروری تھا اسکی کسی کو سمجھ نہیں آئی اور تو اور لاری اڈے کے متاثرین جو تکنیکی بنیادوں پر ’’ناک آؤٹ‘‘ کئے جانے کے بعد داد رسی کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں یہ بھی کہتے ہیں کہ صاحب نے دوکانوں کی بولی کے دوران بڑی بڑی بولیاں لگانے کے لئے جعلی کرائے دار بھی کھڑے کر دئیے اس نیک کام کا واحد مقصد پرانے دوکانداروں سے دوکانیں خالی کرانا تھاجو ان فرضی کرائے داروں کی ناقابل ادائیگی بولیاں سن کر ہونق ہو کررہ گئے،ہم سب دن رات بجلی غائب ہونے کا تماشہ دیکھتے اور سنتے رہتے ہیں مگر گوجرانوالہ میں فلائی اوور کے مثالی منصوبے کی تکمیل کے لئے اتاری گئی سولر لائیٹس ہی غائب کر لی گئیں اور کروڑوں روپے کی یہ لائیٹس افسران کی ملی بھگت کی نذر ہوگئیں اور کچھ پتا نہیں کہ اس معاملے پر ہونے والی انکوائری کا کیا بنا ، لائٹس برآمد ہوئیں یا نہیں لیکن ان کا یوں غائب ہی ہو جانا بھی فرض شناس انتظامیہ کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ سے کم نہیں، گوجرانوالہ کی انتظامیہ یوں تو بڑی پھرتیلی ہے خاص طور پرسیاسی جماعتوں کے بینرز اور ہورڈنگ اتروانے میں تو کمال رکھتی ہے ویسے بھی بھلا شہر میں ایک بڑے صاحب کے ہوتے ہوئے کسی اور کے لئے کہاں کوئی گنجائش بچتی ہے کئی سیاسی کارکن اپنے اپنے اشتہاری بورڈز کے ضبط کئے جانے کے غم میں اب تک بڑبڑاتے پھرتے ہیں حالانکہ ان معصوموں کی اگر یہ خواہش تھی کہ ان کے بورڈز نہ اتارے جائیں تو انہیں بڑے صاحب کی بڑی تصویر والے بورڈ ز تیار کرانے کے بار میں غور کرنا چا ہئے تھا اور تبرک کے طور پرساتھ ہی آر پی او اور سی پی او کی باوردی تصویر لگانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں تھا پھر کس کی مجال تھی کہ کوئی ان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ بھی سکتا، اسی پھرتیلی انتظامیہ کی کارکردگی کی حالت یہ ہے کہ گوجرانوالہ کی سڑکوں پر جہاں شہری دن رات لٹتے ہیں اور بغیر شکایت کئے خالی جیبیں لے کے چپ چاپ گھر چلے جاتے ہیں، اپنے لٹنے کی ایف آئی آر تک درج کرانا کار لاحاصل سمجھتے ہیں اورجو اندھیروں کو اپنا نصیب سمجھ کرمعمولات زندگی کے لئے روشنی کے بغیرہی ٹامک ٹوئیاں مارنے کے عادی ہو چکے ہیں انتظامیہ کے نزدیک سٹریٹ لائٹس کی تنصیب جیسی بنیادی اورمعمولی سہولت کے حقدار بھی نہیں ہیں کیونکہ ان افسران کے نزدیک عوام کی حیثیت بھیڑ بکریوں سے زیادہ نہیں اور ویسے بھی جب زیادہ تربھیڑ بکریاں سرکاری افسران کے گرد’’ میں میں‘‘ کرتی رہیں توباقی ماندہ کے لئے لائیٹنگ کا انتظام ضروری نہیں رہ جاتا۔(جاری ہے)
Faisal Farooq
About the Author: Faisal Farooq Read More Articles by Faisal Farooq: 107 Articles with 76433 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.