میرا قاتل کون․․․․

ہم سب عجیب کشمکش میں زندگی گزار رہے ہیں۔ 67سال آزادی حاصل کئے ہو گئے، مگر آج بھی غلامانہ رویے نے ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا۔ ہمیں آگے کی طرف دیکھنا تھا،ہم پیچھے کی طرف جارہے ہیں۔ ہم دوسروں کوراستہ دکھاتے تھے ،آج ہمیں راستہ دکھایا جارہا ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ اب بنگلہ دیش جیسا ملک ہمیں ترقی کے راستے پر چلنے کا سبق دیتا ہے۔ 1966ء میں ہمارے ملک کے ترقیاتی منصوبے کو لے کر جنوبی کوریا کہاں سے کہاں پہنچ گیا لیکن ہم اپنی غلطیوں کی وجہ سے آج اس دوراہے پر آکھڑے ہوئے ہیں، جہاں راستہ بنانا انتہائی مشکل ہے۔

ہم 1947ء میں پاکستان کے وجود میں آنے پر پن نہ ہونے کی وجہ سے کانٹوں سے کام لیتے ہوئے گاہے بگاہے آگے بڑھاتے رہے۔ بھارت ہمیں صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتا تھا۔ ہم نے اپنے خون پسینہ لگا کر دنیا میں مثالیں قائم کیں،لیکن ہمارے بڑوں کی چند سنگین غلطیوں کی وجہ سے آنے والے لوگوں کو نہ صرف دنیا کی غلامی کرنا پڑگئی ہے بلکہ ہماری غیرت اور وقار ختم ہوچکا ہے۔ ہم اپنی ثقافت،ادوار اور روایات سے بہت دور نکل چکے ہیں۔ ہمیں ہر شعبہ میں جو بھی ’’کیپٹن‘‘ملا، اس نے ذاتی مفاد کے لئے اپنے کردار کو غلاظت کے انتہائی گہرائی میں ڈال دیا۔ ادارے گندگی کا ڈھیر بن گئے۔

صحت کے شعبے کی مثال لے لیتے ہیں۔ نہ ڈاکٹرز ، نہ ہی نرسز موجود ہیں۔ پیرامیڈیکل سٹاف کے حالات انتہائی ناقص ہیں۔ ہسپتالوں کی کارکردگی دیکھ کر عام آدمی خون کے آنسو روتا ہے۔ انسان بیمار تو ہو گا، اسے اپنی صحت کو بحال کرنے کے لئے ڈاکٹر کی ضرورت اور ادویات کھانا ہوں گی،مگر کیا ہمارے ڈاکٹرز کے ذہینوں میں اپنے شعبہ کی اہمیت موجود ہے ،کہ وہ ایک مسیحا ہیں۔ اسے اﷲ تعالی نے انسانی جان بچانے کے لئے ایسے فن سے نوازا،جس سے انسانی جان بجائی جا سکتی ہے، لیکن وہ جلاد بنے ہوئے ہیں۔ایک تو ادویات انتہائی مہنگی ہیں ،دوسرا جعلی ادویات کی بھرمار ہے۔ زیادہ قیمت خرچ کرکے بھی اصل دوا حاصل نہیں ہوتی۔ایسا کیوں ہے؟

ڈاکٹرز کو ہسپتال میں دیکھیں تو وہ خودنفسیاتی مریض لگتے ہیں، کوئی اس کی وجہ جاننے کی کوشش نہیں کرتا،کیونکہ ہمارے ہاں ہر کسی پر تنقید کی جاتی ہے،لیکن ان کے حالات پر غور نہیں کیا جاتا۔ کسی بھی معاشرے میں ڈاکٹرز کو ایک اعلی مقام دیا جاتا ہے۔ ان کا شمار ذہین لوگوں میں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے ان کو بہترین تربیت دی جاتی ہے۔ پانچ سال تک یہ انتھک محنت کے بعد ایم بی بی ایس پاس کرتے ہیں۔ پھر ہاؤس جاب کا مرحلہ آتا ہے، جہاں ان کو ایک ماہ میں سات دن تک دن رات ہسپتال میں ڈیوٹی دینی پڑتی ہے ،پھر دوسرے دنوں میں بھی 24 اور36 گھنٹوں کی ڈیوٹی ہوتی ہے۔ اس کے بعد انہیں ایم بی بی ایس کی ڈگری دی جاتی ہے۔ آج یہ ڈگری کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی۔ اس لئے ڈاکٹرز سپیشلائز کے لئے ایف سی پی ایس کرتے ہیں اور چار سال کسی ہسپتال میں ٹریننگ کرنا ہوتی ہے۔ انہیں ٹریننگ کے دوران تنخواہ نہیں دی جاتی،حالانکہ اصولاً ان کا وظیفہ ہوتا ہے۔ کم ہی سہی مگر ہوتا ہے۔ آج تمام ہسپتالوں میں دیکھ لیں۔ پوسٹ گریجویٹ ڈاکٹرز کو کوئی وظیفہ نہیں مل رہا۔ اگر کوئی بہت سفارش ہو تو کسی کو مل جائے وہ بھی بہت کم۔

انہیں سفری نہ ہی کھانے کی سہولت ہے، پینے کے پانی کی سہولت تک میسر نہیں ۔اسی وجہ سے زیادہ تر ڈاکٹرز دوسرے ممالک جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان میں بہت سے ایسے بھی ہیں جو اپنے وطن اور لوگوں سے محبت کرتے ہیں۔ وہ پہلے دن سے یہ سوچ رکھتے ہیں کہ محنت لگن سے میڈیکل کی تعلیم وتربیت حاصل کرکے اپنی عوام اور ملک کو فائدہ دیں گے، مگر کیا ہے کہ ان کے احساسات اس وقت دم توڑ جاتے ہیں ،جب ان کو اپنی گزر اوقات کرنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔ زیادہ تر اپنا شعبہ ہی چھوڑ جاتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر کو بننے کیلئے جتنی محنت ڈاکٹر کی ہوتی ہے، وہاں عوامی ٹیکس سے حاصل شدہ فنڈ بھی کثیر تعداد میں استعمال ہوتا ہے۔ اگر ہم ان حالات میں ڈاکٹرز پر تنقید کریں کہ وہ اپنے فرائض کو خوش اسلوبی سے انجام نہیں دے رہے ،تو کیا اس کی گنجائش ہے……؟ کیا حکومت،صحت کا ادارہ ان سے انصاف کررہا ہے……؟ جواب نہیں میں ہے۔ اگر صحت کے محکمے سے اس بارے میں پوچھا جائے تو ان کا ایک ہی جواب ہے۔ کہ ہمارے پاس فنڈز کی کمی ہے۔ بجٹ میں صحت کا جتنا بجٹ رکھا جاتا ہے۔ اس حساب سے ہماری کارکردگی سب سے بڑھ کر ہے۔

اگر محکمہ صحت کے حالات پر نظر دوڑائیں تو کرپشن سے بھرا ہوا محکمہ صحت بغیر کسی خوف وخطر کے ایسی گھناؤنی حرکتیں کرتا ہے، جس پر انسانیت شرما جائے۔ اعلیٰ عہدیداروں سے لے کر نیچے تک کرپشن کا بازار گرم ہے۔ انہیں ان کی تنخواہوں سے کئی گنا زیادہ اوپر سے مل رہا ہے۔ پورے لاہور میں چند ڈرگ انسپکٹرز ہیں۔ درجنوں جعلی ادویات بنانے والی فیکٹریاں ہیں، انہیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔
آپ سوچیں کہ ہم یا ہمارا کوئی عزیز سٹریچر پر آپریشن کے لئے پڑا ہو اور باہر سے جو انجکشن آئے اور وہ جعلی ہو تو اس کی موت کا ذمہ دار کون ہوگا؟

ہر روز انہی جعلی ادویات سے کئی لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ہم صرف دو لفظ تنقید کے کہہ دیتے ہیں۔ کسے خبر نہیں کہ جعلی فیکٹریاں کہاں ہیں لیکن یہ جعلی ادویات کا مافیا اتنا طاقتور ہے کہ ماضی میں میاں شہباز شریف نے گاہے بگاہے ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی لیکن انہیں ان کے راستے سے ہٹنا پڑا ۔اب تو ویسے بھی وہ اپنی حکومتی معیاد پوری کرنے کی سیاست کررہے ہیں۔ اس لئے وہ ان پر ہاتھ نہیں ڈالتے، جس سے ان کی حکومت کوکوئی بھی پریشانی ہو۔

بس کریں خدارا، اب ناانصافی،بے حسی کی انتہا ہوچکی ہے۔ یہ کب تک چلے گا؟ ایک دوسرے کے کندھے پر غلطیوں کا ملبہ ڈال کر اپنے فرائض سے کنارہ کشی نہیں کرسکتے۔ آپ کی آنے والی نسل یا تو ذہنی مریض یا بے راہروی کا شکار ہورہی ہے۔ہر دوسرے شہری کو ہیپاٹائٹس نے اپنی لپیٹ میں لیرکھا ہے۔یہ حالت انتہا کی پولوشن،گندہ پانی اور ملاوٹ شدہ غذا کی وجہ سے ہے۔یہ تنقید برائے تنقید کرنے والے،سیاست دان ،اشرافیاء یا کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھنے والوں کو یہ اندازہ نہیں کہ جس دوسرے ممالک میں یہ آئے روز جاتے ہیں، وہاں جس گندگی سے یہاں چھوٹے بڑے کھانے پینے والی جگہوں سے غذا میسر ہے، فروخت ہوسکتی ہے۔ کھانے پینے والے پوائنٹ پر ذرا سی بدبو بھی برداشت نہیں کی جاتی مگر یہاں کسی بھی ریسٹورنٹ کا اگر گھی یا گوشت چیک کر لیا جائے ،تو تمام حالات سامنے آجاتے ہیں۔ مردہ جانوروں کا گوشت ہزاروں ٹن کے حساب سے استعمال ہورہا ہے،لیکن انہیں کبھی نہ تو پکڑا گیااور نہ ہی عبرت ناک سزا دی گئی۔ جب کوئی انسان ایسی بے حسی کی بھنیٹ چڑھتا ہے تو وہ کہتاہے کہ ان میں سے میرا قاتل کون ہے․․․․․․!
Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 19 Articles with 14363 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.