تحریر:عاصمہ اسلم
میری ملاقات محلے کی ایک ایسی بہن سے ہوئی جس کے گھر میں آج تک ہم نے جتنا
صاف ماحول اور رہن سہن میں رکھ رکھاؤ دیکھا ویسی مثال مجھے اپنی زندگی میں
کہیں نہیں ملی۔ بیٹیوں سے بھرے اس گھر میں صرف والدین کے غیر تعلیمی رجحان
اور سرکاری اسکولوں کے حالات کی وجہ سے سب لوگ میٹرک تک ہی عملی تعلیم حاصل
کر سکے۔ وہ بتانے لگیں کہ ان کے والدین کی صرف ایک ہی خواہش ہے کہ انہیں
تعلیم یافتہ طبقے کے رشتے ملیں۔ اس تعلیم کی خواہش دل میں لیے انہوں نے
دوسری شادی والوں کے لئے بھی رعایت رکھ دی۔ پڑھا لکھا خاندان اور ان کے
رشتے تو آئے تو مگر ان کے رشتے کے دوران انٹرویو کئے گئے سوالات ایسے ہوتے
جن سے جہالت دور دور تک ٹپکنے لگتی تھی۔
وہ مجھے مزید کہنے لگیں کہ رشتے کرانے والی خالہ سے کہا گیا کہ متعلقہ
خاندان کے لڑکا کی صرف فون پہ بات کی شرط کو قبول کیا جاسکتا ہے اور ضرورت
بھی شاید اس سے زیادہ کی نہیں ہے۔ مگر پہلی یا دوسری شادی کے خواہش مند
پڑھے لکھے افراد اس قسم کے نیچ اور گھٹیا سوال ان سے فون پہ کرتے ہیں جن کو
سن کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم زمانہ جہالت میں جی رہے ہوں۔ اس زمانے کے
لوگوں میں جن کو بہن بیٹیوں کی قدر نہیں۔ ان رشتوں کے حوالے سے ہونے والی
تمام تر سرگرمیوں کو دیکھ یوں لگتا کہ اسلام سے قبل زمانہ جہالت میں لوگ
شاید اس طرح کے لوگوں کی وجہ سے اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کردیا کرتے تھے۔
ناجانے یہ پڑھے لکھے پرلے درجے کے جاہل رشتوں کے متلاشیوں کو کس بات کا
غرور ہوتا ہے۔ رشتے کے معاملے میں اس قسم کے سوالات کا ایک شریف اور مہذب
خاندان کی لڑکی سے دور دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ مثال کے طور پہ آپ کیسی
دکھتی ہیں؟ بالوں کی لمبائی کتنی ہے؟ فیس بک، وائبر، واٹس اپ وغیرہ استعمال
کرتی ہیں یا نہیں؟ گھر سے باہر کہاں کہاں جاتی ہیں؟ تعلیم کیوں کم ہے؟
بالوں کا رنگ کیا ہے؟ آنکھوں کا رنگ کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ ان سوالات کے بعد
مجھے کرب و ملال سے دیکھتے ہوئے اس نے سانس لی۔
مجھے معلوم تھا کہ وہ مذکورہ چیزیں کے بارے میں نہیں جانتی، نہ ہی انہیں
کسی بیوٹی پارلر جانے اور آنکھوں میں لینزوغیرہ لگانے کے بارے میں کوئی
معلومات تھی۔ ان کا کمال تھا تو صرف اتنا کہ وہ سادگی اور سگھڑ پن ہی میں
اپنی مثال آپ تھیں۔ میں اپنے معاشرے کی بے حسی پر صرف اتنا ہی کہہ پائی کہ
وہ پریشان نہ ہو، ایسے لوگوں کی بدقسمتی ہی یہ ہے کہ آپ ان لوگوں کو نہ مل
سکو۔
بات صرف کم تعلیم یافتہ بیٹیوں کو پریشان کرنے تک محدود نہیں۔ پڑھی لکھی
بیٹوں کے ساتھ اور ہی طرح کی بد تمیزیاں ہو رہی ہیں مگر کوئی ان کو پوچھنے
والا نہیں۔
کچھ عرصہ پہلے یہاں کے ایک تعلیمی ادارے میں چند مہینے جاب کرنے کے دوران
مجھے عجیب و غریب مگر تعلیم یافتہ ذہنیت کے لوگوں کے ساتھ کام کرنے کا
موقعہ ملا۔ شاید جن لوگوں کی تعلیم کا مقصد صرف روپے کا حصول ہو، وہ صرف
تجارت پیشہ اور ذہنی طور پہ پسماندہ ہوتے ہیں۔ وہاں ایک ٹیچر کافی تعلیم
یافتہ تھی جس کے رشتے کرانے کی ذمہ داری ایک اور ٹیچر نے لے لی جس کی والدہ
ایک کاروباری عورت تھی اسی شعبے میں۔ ہر ہفتے کو وہ ٹیچر موبائل میں کسی
لڑکے کی فوٹو لاتی اور انہیں دکھاتی اور لڑکے کی شان میں ہزار قصیدے پڑھتی
کہ بس ان لو گوں کے لئے تم سب کچھ ہو۔ اتوار کو یہ لوگ مٹھائی لے کے آپکے
گھر آرہے ہیں۔ سب لوگ خوشی کا اظہار کرتے کہ چلیں کام ہوجائے گا۔ جمعہ ہفتہ
بھی بس یہی باتیں ہوتیں۔ سوموار کو عجیب صورتحال ہوتی۔ تعلیم یافتہ ٹیچر
کہتی کہ کن لوگوں کو ہمارے ہاں بھیج دیا۔ ان کا بیٹا تو میٹرک پاس بھی نہیں
اور وہ تو مجھ سے زیادہ تیسری نمبر والی بہن کو ڈھونڈتے رہے۔ ان کو آپ نے
میری حقیقی عمر کیوں نہیں بتائی۔ جواب میں وہ شاطر ٹیچر اس کا غم بانٹنے اس
کے پاس جاتی اور کہتی کہ دل چھوٹا نہ کرو۔ ہم کوئی اور دیکھیں لیں گے اور
اگلے ہفتے پھر ایک نئی شکل نئی کہانی۔ لیکن اصل کہانی وہ شاطر ٹیچر ان کی
غیر موجودگی میں کہتی کہ ہم کیا کریں؟ اتنی عمر ہو گئی ہے تو کون گھاس ڈالے
گا؟ اپنی نہیں ہو رہی تو چھوٹی بہنوں کی تو ہونے دے، وغیرہ وغیرہ۔
دوسروں کی شریف بہن بیٹیوں کو ایک لمحے میں رد کرنے والی ماؤں بتا سکتی ہیں
کہ ان کی اپنی بیٹیوں میں وہ خصوصیات ہیں جو وہ دوسروں میں ڈھونڈتی پھر رہی
ہوتی ہیں یا پھر ان کے بیٹے کو سرخاب کے پر لگے ہیں جو جگہ جگہ منہ مار کے
سرخاب کے پر والیاں تلاش کررہی ہیں؟
کیا اس لڑکے کی بہنیں اور بھابھیاں بتا سکتی ہیں کہ کیا اگر شریف زادیاں
پسند نہیں آتیں تو پھر اپنے بھائیوں کے لئے کون سی زادیاں ڈھونڈنے جاتی ہیں؟
اپنامنہ اور گھر صاف ہے جو دوسروں کے گھروں میں خامیاں تلاش کرنے پہنچ جاتی
ہیں؟ یا پھر وہ لڑکے بتا دیں جنہیں دوسروں کے کردار سے متعلق تو جاننے کا
بہت شوق ہوتا مگر اپنی کردار سازی کے بارے میں ان کو بتاتے ہوئے شرم آتی ہے۔
کیا گارنٹی کے وہ ہر وقت رانگ نمبروں پردوسروں کو تنگ کرتے رہتے ہیں۔ قدرت
کا نظام ہے کہ مردوں نے گھر کا نظام چلانا ہے پھر آپکو اپنی کمائی پہ اتنا
غرور کیوں ہے ؟ اگر بیرون ملک کام کرتے ہوئے تو کیا افسر ہو وہاں یا مزدور
بھی نہیں؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے فراڈ رشتے کرانے والوں پہ فراڈ کے مقدے چلا کے
جیلوں میں بند کیا جائے۔ جو اپنی کمائی کے چکروں میں دوسروں کی عزتوں کا
جنازہ نکال رہے ہیں ۔ دوسرا اقدام یہ ہے لوگوں کے گھروں میں جا کے تماشے
لگانے کی بجائے لائسنس والے دفاتر ہوں جہاں ہر ایک کی خوبیوں اور خامیوں
والے فارم تیار کئے جائیں اور ان فارمز کی بنیاد پہ رشتے کے ضروتمند لوگوں
کی آپس میں ملاقات کرائی جائے۔ |