خوش رہنا ہے تو!

کہا جاتا ہے کہ خوشیاں بادل کے اس اجلے ٹکڑے کی طرح ہوتی ہیں جو پل بھر کے لیے سایہ کر کے رخصت ہوجاتا ہے، جب کہ دکھ اور پریشانیاں سردیوں کی طویل راتوں کی طرح کٹنے میں ہی نہیں آتیں۔ ہر انسان خوش رہنا چاہتا ہے اور اس کی ساری زندگی خوشی حاصل کرنے کی تگ و دو میں گذرجاتی ہے۔ ہر انسان کے لیے خوشی مختلف معنی رکھتی ہے۔ کچھ دولت پا کر خوش ہوتے ہیں۔ ماں کو اصل خوشی اپنے ننھے بچے کی معصوم مسکراہٹ سے ملتی ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے خوشی کا پیمانہ معاشرے میں اعلیٰ رتبہ اور مقام ہوتاہے۔ کچھ لوگ خوشیاں بانٹ کر خوش ہوتے ہیں اور دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن میں خوشی کا احساس دوسروں کو اذیت دینے سے جاگتا ہے۔خوشی ہر ایک کے لیے مختلف ہے اور ہر کوئی مختلف انداز میں اپنے لیے خوشی تلاش کرتا ہے۔ نفسیات کے ماہرین کا کہناہے کہ خوشی کی کوئی مادی حیثیت نہیں ہے۔ وہ انسان کے اندر پھوٹنے والا ایک احساس ہے، جس کے محرکات مختلف ہوسکتے ہیں۔ خوشی کا انحصار ہمارے گردو پیش کے حالات سے بھی ہے۔ ایک چیز جو کسی خاص وقت میں خوشی دیتی ہے ، ضروری نہیں ہے کہ دوسری بار ملنے پر بھی وہ خوشی کے احساس کو گدگدائے۔ماہرین کا کہناہے کہ ہر انسان خوش رہ سکتا ہے اور اس کے لیے اسے زیادہ تگ و دو کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اسے اگر کچھ چاہیے تو وہ ہے اپنی سوچ اور اپنے انداز میں تھوڑی سے تبدیلی۔ خوش رہنے والے افراد ان لوگوں کی نسبت زیادہ عرصہ جیتے ہیں جو ہر وقت جلتے کڑھتے رہتے ہیں۔طبی ماہرین کا کہناہے کہ لمبی عمر اور اچھی صحت کی کنجی ہے خوش رہنا۔ خوشی ایک ایسی چیزہے جس کا حصول تقریباً ہر انسان کے اپنے دائرہ اختیار میں ہے۔ چھوٹی چھوٹی چیزیں انسان کو بڑی بڑی خوشیاں دیتی ہیں۔ برطانیہ میں حال ہی میں 40 ہزار سے زیادہ گھرانوں پر کیے جانے والے ایک مطالعاتی جائزے سے پتا چلا کہ ایسے گھروں کے لوگ نسبتاً زیادہ خوش پائے گئے جو ہفتے میں کم ازکم تین دن گھر میں ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔ماہرین کا کہناہے کہ ہماری زیادہ تر خوشیوں کا تعلق دوسروں کی ذات سے جڑا ہوتاہے۔ آپ کا اپنے رشتے داروں اور دوست احباب کے ساتھ تعلق جتنا مضبوط ہوگا، خوش رہنے کے امکان اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ ماہرین کے مطابق میاں بیوی کا تعلق سب سے لطیف اور سب سے قریبی ہوتاہے۔ یہ تعلق جتناگہرا ہوگا، انسان اتنا ہی زیادہ خوش رہ سکے گا۔ اکثر اوقات ڈھارس اورتسلی پریشانی میں کمی لاتی ہے اور اپنا مقصد پانے کی امیداسے خوشی کا احساس دلاتی ہے۔ میاں بیوی ہی ایک دوسرے کا دکھ درد حقیقی معنوں میں بانٹ سکتے ہیں اور ایک دوسرے کے لیے خوشیوں کا دورازہ کھول سکتے ہیں۔ انسان کی زندگی میں خوشی کا اصل دور 50 سال کی عمر کے بعد شروع ہوتاہے۔ کیونکہ اس وقت تک انسان اپنی زندگی کے نشیب و فراز دیکھ چکا ہوتاہے۔ اس کے مزاج میں ٹہراؤ آگیا ہوتا ہے اور وہ زیادہ حقیقت پسند ہوگیا ہوتا ہے۔ اس عمر میں پہنچ کر میاں بیوی ایک دوسرے کے سچے رفیق بن چکے ہوتے ہیں اور بچے بھی ماں باپ کے دکھ سکھ میں ساتھ دینے کے قابل ہوچکے ہوتے ہیں۔ماہرین کہتے ہیں کہ خوش رہنے کے لیے آپ اپنے بچوں ، بہن بھائیوں اور دوستوں میں دلچسپی لیں، ان کی سرگرمیوں میں شرکت کریں، اپنے اور ان کے درمیان فاصلے کم کریں۔ باہمی انسانی تعلقات آپ کو خوشیوں تک لے جانے والا ایک کلیدی زینہ ہے۔ اکثر اوقات ہماری پریشانی کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہم دوسروں سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرلیتے ہیں اور جب وہ پوری نہیں ہوتیں توہمیں دکھ ہوتا ہے۔ لیکن دوسری جانب جب ہمیں توقع سے زیادہ ملتا ہے تو خوشی ہوتی ہے۔ یعنی توقعات جتنی کم ہوں گے، خوش رہنے کا امکان اتنا ہی زیاد ہوگا۔ایک عرب مفکر کا کہناہے کہ انسان 90 فی صد حالات و واقعات کے رحم وکرم پر ہوتا ہے جب کہ اس کا اپنا دائرہ اختیار صرف 10 فی صدہے۔ ہمارے وسائل چاہے کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں، ہم پھر بھی بہت کچھ نہیں کرسکتے۔ ماہرین کا کہناہے کہ اگر آپ خوش رہناچاہتے ہیں تو اپنے لیے ایسے اہداف مقرر کریں ،جنہیں پورا کرنا آپ کے لیے ممکن ہو، خاص طورپر چھوٹے چھوٹے اہداف۔ چھوٹی کامیابی آپ کو بڑی خوشی دے سکتی ہے۔ خوشی کا تعلق ہماری خواہشات سے بھی ہے۔ماہرین کا کہناہے کہ آپ کی خواہشات ایسی ہونی چاہیں جنہیں پورا کرنا آپ کے بس میں ہو۔ بصورت دیگر سوائے پریشانی کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ گویا دوسرے لفظوں میں قناعت کی عادت اپنائیے۔ماہرین کا کہناہے کہ خوشیاں بانٹنے سے بڑھتی ہیں۔ ہر انسان ، خواہ وہ کتنا ہی مفلس کیوں نہ ہو دوسروں کو کم ازکم ایک مسکراہٹ تو دے سکتاہے۔ اور ایک سچی مسکراہٹ انسان کو جتنی خوشی دے سکتی ہے وہ قیمتی سے قیمتی تحفے سے بھی حاصل نہیں ہوسکتی۔
M A TABASSUM
About the Author: M A TABASSUM Read More Articles by M A TABASSUM: 159 Articles with 167220 views m a tabassum
central president
columnist council of pakistan(ccp)
.. View More