آئیں اپنی عزت کریں!
(عابد محمود عزام, karachi)
ہم جاپانی قوم سے بہت کچھ سیکھ
سکتے ہیں۔ جاپان ایک ایسا ملک ہے جو مسلسل حادثات کی زد میں ہے۔ 1923 میں
جاپان میں ایک زلزلے نے لگ بھگ ایک لاکھ 43 ہزار لوگوں کی زندگیاں نگل لیں۔
جاپان ہی دنیا کا وہ واحد ملک ہے، جس کے دو شہروں کو امریکا نے ایٹم بم کے
ذریعے ملیامیٹ کیا، جاپان کی تاریخ کی اس دوسری بڑی قیامت میں سوا لاکھ سے
زاید لوگوں کی جانیں موت کا لقمہ بنیں اور تاریخ کے بدترین سونامیوں میں سے
ایک سونامی جاپان کو ہی جھیلنا پڑا، جس میں ہزاروں افراد کو اپنی جانوں سے
ہاتھ دھونا پڑے۔ سونامی کے نتیجے میں صرف عمارتوں کے نقصان کی مد میں تین
سو بلین ڈالرز کا نقصان ہوا، باقی نقصان کا تخمینہ اس سے الگ ہے۔ پے در پے
ایسے حادثات مسلسل جاپان کی تاریخ کا حصہ رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جاپانی
قوم نے حادثات سے ہی جنم لیا ہے۔ آج بھی جاپان میں ہر سال تقریباً 15 سو
چھوٹے بڑے زلزلے آتے ہیں۔”ورلڈ رسک“ کی رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ قدرتی
آفات کی زد میں رہنے والے ممالک میں جاپان کا پندرہواں نمبر ہے۔ ان تمام
حالات کے باوجود جاپانی قوم نے مسلسل اپنی ترقی کا سفر جاری رکھا اور پوری
دنیا پر اپنی ترقی و کامیابی کو ثابت کردکھایا۔
جاپان کے پاس قدرتی وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں، لیکن پھر بھی دنیا کی
تیسری بڑی معیشت جاپان کی ہے۔ جاپان کا شمار دنیا کے بڑے ترقی یافتہ ممالک
میں ہوتا ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی میں اس کا مقابلہ کرنے والا شایدہی کوئی
ملک ہو۔ ہر روز نت نئی ایجادات دنیا کے سامنے پیش کرنا اس کا پسندیدہ مشغلہ
ہے۔ جاپان کی شرح خواندگی سو فیصد ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی کار فیکٹری جاپان
میں ہے۔ ایشیا کی سب سے بڑی اسٹاک ایکسچینج بھی جاپان میں ہی ہے۔ جاپان میں
چلنے والی ٹرینیں دنیا میں سب سے زیادہ وقت کی پابند سمجھی جاتی ہیں۔ ایسی
بہت سی قابل ذکر باتیں ہیں، جو جاپانی قوم کو دنیا میں سب سے نمایاں کرتی
ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مسلسل حادثات کی شکار قوم نے ترقی کی بلند و بالا
منازل بھی آسانی کے ساتھ طے کرلیں؟ اسی جواب کی جستجو میں کسی غیر ملکی
صحافی نے ایک بار جاپانی وزیر اعظم”ناکاسو“ کی خاتون ترجمان سے پوچھا: ”جنگ
عظیم کی تباہی کے بعد جاپانی قوم نے تیزی سے ترقی کی اتنی منزلیں کیسے طے
کر لی ہےں، آپ کی قوم کی ترقی کا راز کیا ہے؟ ترجمان نے جواب دیا: ” ہم
جاپانی لوگ اپنے آپ کی بہت عزت کرتے ہےں۔ کوئی ایسا کام نہیں کرتے جس سے
معمولی سی بھی بے عزتی کا خدشہ ہو اور کوئی پوچھ لے کہ تم نے ایسا کیوں کیا
تھا؟ اور ہمیں اس کا جواب دینے مےں دشواری محسوس ہو۔ ہمارے عوام اساتذہ کی
دی گئی تربیت سے کبھی انحراف نہیں کرتے اور کبھی کوئی بے اصولی اور خلاف
ضابطہ کام نہیں کرتے۔“
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی اور عظمت و
استحکام میں اس ملک کے افراد ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کسی قوم کو
دنیا کی صف اول میں لاکھڑا کرنے اور عزت و شرف کی قبا پہنانے میں اس قوم کے
افراد نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ وہی ملک ترقی کے زینے چڑھتا ہوا اوج فلک
پر جلوہ نما ہو کر دوسروں کے لیے مثال بنتا ہے اور پوری دنیا میں سورج کی
طرح چمکتا دکھائی دیتا ہے، جس کے افراد اپنی ذمے داریاں ادار کرتے ہوں۔
ہمارے معاشرے میں اکثر افراد دوسروں کی ذمہ داریوں کی بات تو کرتے ہیں،
لیکن اپنی ذمے داریاں بھول جاتے ہیں۔ دوسروں کو اصلاح کی فکرتو کی جاتی ہے،
لیکن اپنی اصلاح پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ ہم جب بھی ملک و قوم کی اصلاح
و ترقی کی بات کرتے ہیں تو تا ن سیدھی ایوانِ اقتدار پر جاکر ٹوٹتی ہے۔
سمجھتے ہیں کہ تمام ذمے داریاں حکومت و ریاست پرعاید ہوتی ہیں، ہر برائی کی
جڑ حکومت ہے، جب تک حکومت کا دھڑن تختہ نہیں ہوجاتا، اس وقت تک نہ ملک
خوشحال ہوسکتا ہے اور نہ ہی ترقی کرسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معاشرے میں
برائی کا خاتمہ اسی وقت ہوتا ہے، جب معاشرے کے تمام افراد برائی کو خیر باد
کہہ دیں۔ اگر ہر فرد اپنی سطح پر اپنی عزت کرنا شروع کردے اور اپنی ذمہ
داری ادا کرنا شروع کردے تو مسائل خود بخود حل ہوسکتے ہیں۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک ترقی کرے، یہاں حالات بہتر ہوں، امن و امان
قائم ہو، صنعت و تجارت اور معیشت و اقتصادیات کا پہیہ گردش کرے تو اس کے
لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی معاشرتی اور اخلاقی ذمہ داریوں کو پورا کریں اور
ملک وقوم کے مفاد کے خلاف کوئی بھی اقدام کرنے سے گریز کریں۔ ہر کوئی ملک
سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرتا نظر آتا ہے اور بنیادی حقوق نہ ملنے کی صورت
میں شکوہ زور و شور سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ حالانکہ جس طرح حکومت کے ذمے
شہریوں کے حقوق ہوتے ہیں، اسی طرح ہر شہری کے ذمے کچھ فرائض بھی ہوتے ہیں۔
ادیان عالم کی تعلیمات میں حقوق و فرائض کو عبادت کا درجہ حاصل ہے۔ حقوق و
فرائض کا چولی دامن کا ساتھ ہے، ہم حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں، لیکن فرائض سے
رو گردانی کرتے ہیں۔ اس پس منظر میں ترقی کا خواب ادھورا ہی رہ جاتا ہے۔
ترقی وہی ملک کرتا ہے، جس ملک کے شہری اپنے فرائض صحیح طور پر ادا کرتے
ہیں۔ معاشرے میں بہت سی ایسی جگہیں ہیں جو عوام کی غیر ذمے داری کا پردہ
چاک کرتی نظر آتی ہیں۔ اسکول، ہسپتال، سماجی اداروں کے دفاتر اورکھیل کھود
کے میدان وغیرہ قدرتی آفات کے ساتھ ساتھ زیادہ تر شہریوں کے ہاتھوں خراب
ہوتے ہیں۔ سیر و تفریح کے مقامات سمیت دیگر عوامی جگہیں بھی عوام ہی کے
ہاتھوں برباد ہوتی ہیں، حالانکہ تمام عوامی مقامات کی حفاظت کرنا عوام ہی
کے فرائض میں شامل ہے۔
اگر ہم صرف اسی ایک بات کو پلے باندھ لیں کہ ہم خود اپنی عزت کریں گے۔ ہم
ایسا کوئی کام نہیں کریں گے جس سے ہماری معمولی بے عزتی کا خدشہ ہو۔ ہم ملک
کے قانون نہیں توڑیں گے۔ کوئی نگرانی کرنے والا ہو یا نہ ہو، ہم بے اصولی و
خلاف ضابطہ کام نہیں کریں گے، تو یقین جانیے ہمارا ملک دنوں میں ترقی کر
سکتا ہے۔ ملک کا ہر فرد یہ عہد کرلے کہ وہ کسی بھی قسم کی کرپشن نہیں کرے
گا۔ اگر ہم طالب علم ہیں تو پوری توجہ اور یکسوئی سے تعلیم حاصل کریں۔
استاذ ہیں تو بچوں کو قوم کی امانت سمجھ کر درس دیں۔ تاجر ہیں تو کبھی
ملاوٹ اور دھوکا دہی نہ کرنے کا عہد کریں۔ اگر افسر ہیں تو کبھی رشوت کو
ہاتھ نہ لگائیں۔ وکیل ہیں تو جرائم پیشہ لوگوں کی وکالت سے توبہ کرلیں۔ اگر
جج ہیں تو انصاف کے ترازو کی کبھی بولی نہ لگائیں۔ اگر صحافی ہیں تو قوم کو
ہمیشہ سچ بتائیں۔ ہر شخص خود پرعاید ذمے داریوں کو پورا نبھائے۔ دوسروں سے
پہلے اپنے گریبان میں جھانکے۔ اگر معاشرے کا ہر فرد ایسا ہی کرے تو معاشرے
میں یقینا بہتری آئے گی، لیکن اگر ہم اپنے فرائض کو نظر انداز کر کے ہر
برائی کی ذمے داری صرف حکومت پر ڈال دیں تو یہ سراسر ناانصافی ہوگی۔ |
|