اصل دہشت گرد کون؟

تحریر: ثناء ناز(رجانہ)
چند سکوں میں بکتا ہے یہاں انسان کا ضمیر
کون کہتا ہے میرے ملک میں مہنگائی بہت ہے
ہمارا ملک پاکستان جس کی بنیاد ہی قائد اعظم کے بتائے گئے ان تین اصولوں پر قائم تھی۔ایمان(وہ پاک خطہ جہاں اﷲ اور اسکے نبی کے بتائے گئے اصولوں کی مکمل طور پر پیروی کی جائے۔) اتحاد (یعنی اﷲ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو۔اتحاد سے مراد وہ پاک سرزمین جہاں اونچ نیچ ، ذات پات اور فرقوں کا فرق مٹا کر بنا کسی امتیاز کے صرف اور صرف پاکستانی بن کر متحد ہو کر رہا جائے۔ ) تنظیم (جہاں ملک کا ہر شہری نظم و ضبط اپناتے ہوئے اپنے فرائض کی بخوبی نمائندگی کرے)۔افسوس بے حسی اور خود غرضی کی آگ میں جل کر جہاں ہماری اخلاقی قدریں لمحہ بہ لمحہ دم توڑ رہی ہیں وہیں قائد اعظم کے فرما ن(ایمان،اتحاد اور تنظیم) کا بھی بڑی بے دردی سے گلا گھونٹا جا رہا ہے۔پاکستان وہ ملک جس کا وجود ہزاروں مسلمانوں کی بے دریغ قربانیوں کے بعد ممکن ہوا، وہ ملک جس کی رگوں میں سینکڑوں بے گناہوں کا خون زندگی بن کر دوڑتا ہے۔وہ ملک جسے امن ، بھائی چارے اور انسانیت کے حصول کی خاطر بنایا گیا تھا۔مگر افسوس ہزاروں مصائب جھیلنے کے بعد جب یہ ملک بنا تو اسے بڑی آسانی سے جھوٹی انا اور کرپشن کی بھٹی میں جھونک دیا گیا۔۔موجودہ صورت حال اس قدر سنگین ہے ،جسے دیکھو آنکھوں پربے حسی کی پٹی باندھے اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔انسانیت کے پاٹ محض کتابوں کی حد تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔موجودہ حالات پر نظر دوڑائیں تو انتہائی افسوس ناک صورت حال دیکھنے اور سننے کو ملتی ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے شاید یہ لفظ "انسانیت" جیسے روئے زمین پر گمنام ہو کر رہ گیا ہے۔شاید نہیں یقینا دور حاضر کا انسان انسانیت، کے سبق سے محروم ہوکر مکمل طور پر گمراہی کا راستہ اپنا چکا ہے۔ موجودہ حا لات کی نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوئے اکثر اوقات دماغ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔کہ کیا خلوص ، محبت ، ایثار ، بھائی چارے کے سبھی باب بند ہو چکے ہیں کیا حقیقی زندگی میں انسانیت کا کوئی رد عمل نہیں رہا؟کیا آزاد ملک کا آزاد شہری ہوتے ہوئے بھی ہمیں گھٹ گھٹ کر جینا پڑے گا۔ِ؟ کیا ہماری اخلاقی قدریں اب کبھی بحال نہیں ہو ں گی؟گزشتہ چند سالوں میں رونما ہونے والے سینکڑوں درد ناک واقعات ایسے ہیں جن کے علم میں آنے پر ایک ہی بازگشت ذہن میں مسلسل گونجنے لگتی ہے۔ـــ"اصل دہشت گرد کون؟" "ظالم کون؟" اور ظلم کو شہہ دینے والا کون"یہ تلخ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں گزشتہ چند سالوں سے پاکستان جن بڑے مسائل سے دوچار ہے ان میں سے ایک بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے۔جہاں دشمن عناصر ملک کو کھوکھلا کرنے میں اپنا ہر ممکنہ داؤ آزما رہا ہے۔وہیں عوام نے بھی انسانیت کو پامال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔گویا ظلم ہی مشکل اوقات میں مسیحا ٹھہرا اور ظلم ہی حب الوطنی۔ گزشتہ چند سالوں سے پاکستان میں ظلم اس قدر پھیلا کہ لوگوں نے اسے معمول سمجھتے ہوئے نوٹس لینا ہی چھوڑ دیا۔ اخبارات ظالم کے کارناموں اور مظلوم کی آہ و پکار سے بھرے پڑے نظر آتے ہیں۔کہیں بھائی بھائی کا قاتل بنا پھرتا ہے۔کہیں فاقوں کے خوف سے معصوم بچوں کو موت کی گھاٹ اتارا جا رہا ہے۔کہیں قتل برائے تاوان کا ذکر ہے۔کہیں جائیداد کے معمولی تنازعات پر زندگیوں کے چراغ گل ہورہے ہیں کہیں حق تلفی عروج پر ہے۔تو کہیں ننھی کلیوں کو کچلنے کا بازار گرم ہے۔کہیں بھتہ خوری کا دور ہے تو کہیں غریب نا حق سولی چڑھایا جا رہا ہے۔آئے روز ایسی ہزاروں خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں تو دل یہ سوچ کر دہل سا جا تا ہے۔کہ ہم اتنے خود غرض کب اور کیوں ہوئے کہ ہماری ساری غرض اپنی ہی ذات تک محدود ہو کر رہ گئی۔اتنے بے حس ہوئے کہ اپنی خواہشوں کے حصول اور اپنی جھوٹی انا کی تسکین کی خاطر بلا سوچے سمجھے ظلم پر ظلم کرتے ر ہے اپنے ہاتھ اپنے ہی بھائیوں کے خون سے رنگتے رہے۔جتنی انا پرست میری قوم ہے۔سوچوں تو دل خون کے آنسو بہانے لگتا ہے۔غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اولاد کا قتل کرنا میرا مذہب تو نہیں سکھاتا۔"اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرنا (کیونکہ)انکو اور تمکو ہم ہی رزق دیتے ہیں کچھ شک نہیں ان کا مار ڈالنا بڑا سخت گناہ ہے۔"

Al-Quran ( surh –AL Israh)دولت اور جائیداد کی ہوس میں قتل و غارت کرنے کی اجازت بھی اسلام میں کہیں نہیں ہے۔

"جو بھی کسی مسلمان کا جان بوجھ کر قتل کرے گا تو اسکی سزا جہنم ہے اور وہ ہمیشہ اس میں رہے گا۔اور اسکے لیے اﷲ نے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔"

Al_Quran ( surah –e-nisa)،موجودہ حقائق کو مدنظر رکھاجائے تو یہ حقیقت واضع ہوتی ہے،کہ پاکستان مکمل طور پر ایک خودمختار ملک نہیں رہا۔یہاں کسی کی عزت محفوظ ہے نہ جان و مال کی حفاظت ہے۔ہر کوئی اپنا آپ منوانے کیلئے اپنی ہی ڈگرپر چل رہا ہے۔حضرت ابو ہریرا ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے۔لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ نہ قاتل کو معلوم و گا اس نے کیوں قتل کیا نہ مقتول کو خبر ہو گی کہ وہ کیوں قتل ہوا"۔(مسلم)یعنی انسان کا خون سستا ہو جائے گا قتل ناحق عام ہو گا۔ ذرا سوچیے تو کیا ہم اسی زمانے میں نہیں رہ رہے۔انسانیت کے فروغ کیلئے ہمیں اپنی اخلاقی اقتداروں کو بحال کرتے ہوئے قائد کے فرمان کو ذہن نشین کرنا ہو گا تا کہ جتنی جلدی ممکن ہوظلم کا اتوار بازار ختم ہواور پاکستان ایک مذہب ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پرایک بار پھر نمودار ہو سکے۔
Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1141916 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.