شہر اقتدار سے متصل علاقے میں
ایک مسجد کے اوپر لگے بورڈ نے میری توجہ اپنی جانب کھنچ لی ۔ بورڈ پر کچھ
اس طرح کی تحریر تھی ۔
اس مسجد میں اہلسنت وجماعت کے علاوہ کوئی جماعت امام صاحب کی اجازت کے
بغیرداخل نہیں ہو سکتی ۔ خلاف ورزی کرنے کی صورت میں قانونی کاروائی کی
جائے گی ۔ بحکم ِ مسجد انتظامیہ
ایک مسجد پر لگے اس طرح کے بورڈ نے جہاں مجھے حیران کر دیا وہا ں یہ سوچنے
پر مجبور بھی کر دیا کہ کیا ایک مسلمان کو اﷲ کے گھر میں داخل ہونے کے لیے
بھی اجازت لینا ہو گی ؟۔ اﷲکے سامنیجھکنے کے لیے مسلمان ہوتے ہوئے بھی
دوسرے انسان سے اجازت لینا ہوگی ۔ ؟ حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ مسجد ایک
مسلمان ملککی ہے جسے اسلام کا قلعہ کہا جاتا ہے ۔ یوں ایک بورڈ کا مسجد کے
صدر دروازے کے قریب اس طرح کے بورڈ کا آویزاں ہونا اس بات کی نشاندہی کرتا
ہے کہ اس عمل کی روک تھام کے لیے نہ تو حکومتی سطح پر اور نہ ہی انفرادی
سطح پر کوئی اقدامات کئیے گئے ۔ ۔ اور اس طرح کے بورڈ کا مسجد کے باہر
آویزاں ہونا تو ایک عام سی مثال ہے اس طرح کے بورڈ جگہ جگہ مسجدوں پر
آویزاں نظر آتے ہیں ۔یہ بورڈ ہی نہیں بلکہ ایک فرقہ دوسرے فرقہ کو اسلام سے
خارج قرار دیتا ہے ۔ اکثر و بیشتر ایک فرقہ کے علماء دوسرے فرقہ کے خلاف
بیان دیتے نظر آتے ہیں ۔ان بیانات کی وجہ سے دو مکتبہ فکر رکھنے والے
مسلمانوں کے درمیان نہ صرف دوریاں بڑھتی ہیں بلکہ ایک فرقے کی دوسرے فرقے
کے خلاف نفرت جنم لیتی ہے ۔صرف علماء ہی نہیں جہاں بھی دو الگ فرقوں کے
مسلمان کسی دینی مسئلہ پر بحث کرتے ہیں تو ایک دوسرے کو غلط قرار دیتے ہیں
۔یہاں تک کہ دوسرے کو کافر تک کہنے سے گریز نہیں کرتے ۔ اب تو نوبت یہاں تک
آگئی ہے کہ ٹیلی ویژن پر سر عام صحانہ کرام اور صحابیاتِ کرام ، امہات
المومنین کی شان میں گستاخی کردی جاتی ہے ۔جو کہ سراسر غلط ہے ۔سیاسی کارکن
اور قائد ایک دوسرے پر لعنت بھجتے اور ـ دوسروں کو اسلام سے خارج قرار دیتے
نظر آتے ہیں ۔اس طرح کے بیانات جلد یا بدیر تصادم کا سبب بنتے ہیں ۔ان
بورڈز اورفرقہ پرستی کے چھوٹے چھوٹے واقعات بعد میں مختلف فرقوں کے مابین
محبت کی بجائے نفرت اور دوری کا سبب بنتے ہیں اور اگر ان چیزوں کا تدارک نہ
کیا جائے تو انجام تصادم کیصوررت میں نکلتا ہے ۔
فرقہ پرستی کا آسیب صرف ہمارے ملک کو ہی نہیں پوری دنیا کے مسلمانوں کو
جکڑے ہوئے ہے ۔یہ ایک ایسا رویہ ہے جس نے ہماری نسلوں تک میں سرائیت کرتا
جا رہا ہے ۔ میری بات ایک فوجی افسر سے ہوئی جن کے دوست آؤری کوسٹ کے
سرکاری دورہ سے واپس آئے تھے ۔ انھوں نے بتایا کہ وہ اور ان کے ایک دوست (جن
کا تعلق شیعہ برادری سے تھا ) مسجد میں ایک ساتھ نماز پڑھنے کے لیے داخل
ہوئے ۔دونوں نے اپنے اپنے طریقہ سے نماز کا آغاز کیا ۔(شیعہ برادری کا
طریقہ نماز ، دوسرے فرقوں سے الگ ہے ) وہ تکبیر کے بعد ابھی بامشکل قیام تک
پہنچے تھے کہمسجد کے دو داروغہ مسجد میں داخل ہوئے، ان کے شیعہ ساتھی کو
ٹانگوں سے کندھوں پراٹھایا او راٹھا کر مسجد سے باہر چھوڑ آئے ۔واقعہ سنانے
والے کہتے ہیں کہ وہ نماز کے دوران یہ سوچ رہے تھے کہ ابھی ان کو بھی ہی
مسجد سے اٹھا کر باہرپھینک دیا جائے گا ۔یہ اﷲ کا گھر تھا جس کے اندر سے اﷲکے
سامنے جھکے ہوئے مسلمان کو اٹھا کر اس لیے باہر پھینک دیا گیا کہ وہ اس
مسجد میں نماز ادا کرنے والی جماعت سے تعلق نہ رکھتے تھے ۔ فرقہ پرستی اس
وقت امت ِ مسلمہ کا سب سے بڑا المیہ ہے ۔ اور اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ
اس کا آغاز اوردوسرے فرقوں سے نفرت کا آغاز اس مسجد سے ہوتا ہے جو کہ اتحاد
ویگانگت کا مظہر و منبع ہیں ۔ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس جانب کوئی
دھیان دینے کو تیار نہیں -
ہمارے ملک میں اگرچہ ابھی تک اس حد تک حالات خراب نہیں تاہم اب مساجد کے
باہر واضع طور پر مسلک یا فرقہ کا نام لکھا ہوتا ہے۔ اگر فرقہ پرستی کا
آغاز مسجد سے ہو تو یہ دین اسلام کی خدمت نہیں بلکہ اسلام کے ساتھ دشمنی ہے
۔یہ مسلمانوں کے خلاف ایک قبیع سازش ہے کہ بجائے مسلمانوں کو بیرونی دشمنوں
اور سازشوں کے خلاف متحد کرنے کے انھیں اندر سے توڑا اور فرقوں میں بانٹا
جا رہا ہے ۔اگر مسلمان یونہی فرقوں میں بٹ کر ایک دوسرے سے لڑتے رہے
،اورمرتے رہے تو کسی اور کوہم سے جنگ کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی ۔
فرقوں میں بٹ کر مسلمان کبھی ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتے ۔ اسلام فرقہ
پرستی کی شدت سے مذمت کرتا ہے ۔قرآن ِ پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے -
جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ گروہ بن گئے یقینا ان
سے تمھارا کوئی واسطہ نہیں ۔ ان کا معاملہ تو اﷲ کے سپرد ہے ۔ وہی ان کو
بتائے گا کہ انھوں نے کیا کیا ؟ ( الانعام :159)
مسلمان چاہے وہ کسی بھی فرقے سے ہو ۔ چاہے وہ کوئی بھی انفرادی سوچ رکھتاہو
ہے تو مسلمان ۔ یہ تمام فرقے صرف اور صرف انفرادی سوچ کے نتیجے میں عمل میں
آتے ہیں ۔ یہ فرقے ، برادریاں صرف پہچان کے لیے ہیں ۔ اسلام کی بنیاد ایک
ہی ہے ۔ ایک اﷲا ور ایک رسول ﷺ۔ فرقے صرف اور صرف سوچ کا ایک فرق ہیں جو
اگر حد سے بڑھ جائے تو اس کے ہولناک نتائج برآمد ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ایک
اور جگہ ارشاد ہوتا ہے -
لوگو ! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمھاری قومیں اور
برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو ۔ درحقیقت اﷲ کے نزدیک تم
میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہزگار ہے ۔
درحقیقت اﷲ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے ۔ ( سورت حجرات: 13)
حضرت امام ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ نبی پاکﷺنے فرمایا
ایک دوسرے کے ساتھ حسد نہ کرؤ ، کساد بازی بازاری نہ کرؤ ، ایک دوسرے کی
نفرت سے بچو، ایک دوسرے کو دھوکانہ دو ، تفرقہ میں نہ پڑؤ اوربھائی بھائی
بن جاؤ۔
مساجد کا ہمارے معاشرے میں ایک اہم مقام ہے ۔ اگر ایک مسجد کے دروازے دوسرے
فرقہ والوں کے لیے بند ہیں تو ملک میں فرقہ پرستی کا عام ہونا کوئی اچھنبے
کی بات نہیں ہے ۔فرقہ پرستی کا خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ اس کا
آغاز انفرادی سطح سے نہ ہو جائے خصوصا مساجد سے ۔ کیونکہ مساجد وہ واحد جگہ
ہیں جہاں ہر روز لوگ پانچ وقت اکھٹے ہوتے ہیں اور بالخصوص جمعہ کی نماز کے
لیئے کثیر تعداد میں جمع ہوتے ہیں ۔ اس لیے مساجد کو کسی صورت میں فرقہ
پرستی حصہ نہیں لینا چاہیے ۔ بلکہ مساجد سے اتحاد کاپیغام عام ہونا چاہیے ۔
آج دنیا بھر میں محکوم ہیں ، ظلم کا شکار ہیں اس کی بنیادی وجہ مسلمانوں کا
آپس میں متحد نہ ہونا بھی ہے ۔اگرمسلمان متحدہو کر ان طاقتوں کا مقابلہ
کریں جو اسلام کے خلاف برسرِ پیکار ہیں تو کوئی طاقت ایسی نہیں جو ہمارا
مقابلہ کر سکے ۔ دین اسلام کی بقا اور ترقی مسلمانوں کے اتحاد سے مشروط ہے
۔
|