سفید اور بھورے رنگ کی ایک بلی
نہ جانے کتنے عرصے سے ہماری گلی میں رہتی تھی۔ دفتر جانے کے لیے مجھے گلی
سے باہر سڑک تک پیدل آنا پڑتا ہے ۔ دفتر کی گاڑی مجھے سڑک سے پک کرتی ہے ۔میں
ہر رو زاپنے سٹاپ پر گاڑی کے انتظار میں کھڑی جب ہوتی توسڑک پر آتی جاتی
گاڑیوں کو دیکھنے کی بجائے اس بلی کو دیکھتی رہتی۔ وہ بلی مجھ سے اور میں
اس سے مانوس ہو تی جا رہی تھی ۔اس کے اور میرے درمیاں ایک ان دیکھا رشتہ
بنتا جا رہا تھا ۔ کم و بیش ایک ماہ پہلے کی بات ہے ، ٹریفک زیادہ ہونے کی
وجہ سے میرے آفس کی وین معمول سے کچھ زیادہ لیٹ تھی ۔ وہ بلی ہمیشہ کی طرح
نالی کے کنارے اگے پودے کی جڑ میں بیٹھی تھی ۔ میں ہمیشہ کی طرح اسے دیکھ
کر مسکرا رہی تھی اسی اثنا ء میں وہ آہستگی سے اٹھی اور میری جانب بڑھی ۔
میں اپنی جگہ کھڑی اسے دیکھ رہی تھی اور مسکرا رہی تھی ۔ میرا خیال تھا کہ
وہ میرے پاس سے گزر جائے گی لیکن وہ میرے پاس آٓکر میرے پاؤں چاٹنے لگی میں
نے اپنے پاؤں ہلکے سے پیچھے ہٹائے ۔ وہ بھی غیر محسوس طریقے سے آگے بڑھ آئی
اور بدستور میرے پاؤں چاٹتی رہی ۔مجھے محسوس ہوا کہ وہ میرے پاؤں اس امید
پر چاٹ رہی ہے کہ شاید میں اسے کچھ کھانے کے لیے دوں گی یا اسے اٹھاؤں گی ۔
شاید وہ بھوکی تھی یا کم از کم مجھے محسوس ہو ا کہ وہ بھوک کی وجہ سے میرے
پاؤں چاٹ رہی ہے ۔ میں چاہنے کے باوجود اسے کچھ نہ دے پائی کیونکہ میرے پاس
کچھ تھا ہی نہیں دینے کو ۔ مجھ سے ناامید ہو کر وہ کچھ دور پڑے پتھر کو
چبانے کی کوشش کرنے لگی ۔ وہاں سے ناکام ہونے کے بعد وہ پھر میری طرف پلٹی
میں نے تاسف بھری نظروں سے اسے دیکھنے لگی ۔ ایک شر مندگی کا احساس میرے رگ
و پے میں سرائیت کر گیا ۔ میں نے دیھمی سی آواز میں کہا ۔ کیٹو ! میرے پاس
کھانے کو کچھ نہیں ہے ۔ اس نے میری ٹانگ پر اپنا سر رگڑا۔میں کسی بھی مجرم
کی طرح اپنی جگہ ساکن تھی ۔وہ ایک مایوس نگاہ مجھ پر ڈال کر پھر سے پودے کی
جانب چل دی ۔اسی لمحے میرے دفتر کی گاڑی بھی آ گئی اور میں بھی اپنی منزل
کی جانب عازم ِ سفر ہو گئی ۔ میرا پورا دن ایک احساس شرمندگی اور احساسِ
جرم میں گزرا ۔ میرے اندر کی لڑکی بار بار مجھے شرمندہ کرنے کو آن کھڑی
ہوتی ۔ سارا دن میں اس احساسِ جرم تلے دبی رہی کہ میں نے ایک بے زبان کو نہ
چاہتے ہوئے بھی ناامید کیا ۔اگرچہ میرے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا پھر بھی میں
شرمندہ تھی ۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں اس بلی کے لیے کل کچھ نہ کچھ لے کر
آؤں گی ۔ اگلے دن میں اسی نیت سے اپنے بیگ میں روٹی کا ٹکڑا لے آئی ۔اس دن
میں سٹاپ پر کھڑی اپنی گاڑی سے زیادہ اس بلی کا انتظار کر رہی تھی لیکن وہ
نہیں آئی ۔ میں نے روٹی کا ٹکڑا گلی کے کنارے یہ سوچ کر رکھ دیا کہ وہ بلی
جب بھی آئے گی کھا لے گی ۔ میں اگلے دن بھی روٹی کا ٹکڑا لے آئی لیکن جب
گلی کے کنارے پر گذشتہ کل والے ٹکڑے کو دیکھا تو وہ روٹی اسی طرح پڑی تھی
بس ایک جانب سے چیوٹیوں کی غذا بنے اس ٹکڑے کا بیشتر حصہ ویسے کا ویسا ہی
تھا۔ اس ٹکڑے کو دیکھ کر ایک شدید دکھ نے مجھے آن گھیرا کہ کہیں وہ بلی کل
بھوک کے مارے مر تو نہیں گئی ۔میں افسوس کرنے لگی کہ کاش میرے پاس کچھ ہوتا
۔اس دن کے بعد کافی دن تک میں نے اس کو نہیں دیکھا ۔ میری آنکھیں اسے نالی
کے کنارے لگے پودے کی جڑ میں ، گلی کے ہر کونے میں اس بلی کو تلاش کرتی رہی
۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ مجھے یقین ہو تا جا رہا تھا کہ وہ بلی مر چکی ہے اس
کے ساتھ ہی ایک انجانا دکھ بھی کہ میں اس کو کچھ نہ دے سکی جبھی وہ مر گئی
۔کافی دنوں بعد وہ بلی مجھے نظر آئی تو میں مسکرانے لگی ۔ شکر ہے کہ یہ
زندہ ہے اس نے ایک روکھی نگاہ مجھ پر ڈالی اور پلٹ گئی جیسے کہہ رہی ہو کہ
جب مجھے تم کچھ دے نہیں سکتی تو تمھارے ساتھ میرا تعلق ہی کیا ؟
بظاہر یہ ایک عام سا واقعہ ہے لیکن اس واقع نے میرے دل و دماغ کویہ سوچنے
پر مجبور کر دیا کہ اس دنیا میں بستی تمام مخلوق کسی نہ کسی طور ، کسی نہ
کسی غرض سے بندھی ہے ۔ چاہے وہ غرض جذباتی ہو ، مالی یا روحانی ۔ اور اس
غرض کو پورا کرنے کے لیے وہ دوسروں کی محتاج ہے ۔ ہمارے اردگرد پھیلے رشتے
، دوست ہمارے سہارے کے محتاج ہیں اوربالکل اسی طرح ہم ان کے سہارے کے محتاج
ہیں ۔درخت ، چرند پرند ، انسان سب ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔ ایک کی ضرورت
دوسرے کی وجہ سے پوری ہوتی ہے، ایک کا وسیلہ دوسرا بنتا ہے ۔ اس بلی کی طرح
اگر کوئی مدد کے لیے ہمارے پاس آتا ہے تو ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اس کی حتی
ٰالمقدور مدد کریں ۔اگر کوئی کسی کی جانب صرف ضرورت کے لیے دیکھتا ہے تو یہ
اس شخص کی خوش قسمتی ہے کہ اﷲنے اپنی پوری مخلوق میں سے اس کو دوسرے کی مدد
کے لیے چنا ہے ۔ مدد تو درحقیقت اﷲہی کرتا ہے لیکن وہ کسی کو اس کا م کے
لیے چن لیتا ہے ۔ دوسروں کے ساتھ احسان سے پیش آنا ایک مسلمان کے لیے بہت
بڑی سعادت بھی ہے اور اس کا دینی فریضہ بھی ۔ جو شخص کسی کے ساتھ بھلائی
کرتا ہے ، احسان سے پیش آتا ہے اس کی مدد اﷲ کرتا ہے اور اسکے ہر کام
کوپورا کرنے کے لیے اپنی جناب سے وسیلہ بناتا ہے۔قرآن ِ پاک میں ارشاد ِ
باری تعالی ٰ ہے
بے شک احسان کا بدلہ احسان کے سوا کچھ نہیں ۔ )سورت الرحمٰن ۔آیت 60)
اگر آپ اپنے ارد گرد پھیلے رشتوں کو مالی ، روحانی یا جذباتی سہارا نہیں
دیں گے تو ایک وقت آئے گا جب وہ آپ کو چھوڑ کر چلے جائیں گے ۔اگر چھوڑ کر
نہ بھی جائیں گے تو مدد کے لیے آپ کی جانب نہیں دیکھیں گے ۔ کوشش یہ ہونی
چاہیے کہ آپ کی ذات سے کوئی مایوس نہ ہو ۔
اگر آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو ہمیشہ سہاروں کی تلاش میں رہتے ہیں توپوری
زندگی بھی گزر جائے آپ کو مستقل سہارا نہیں ملے گا ۔اس لیے ضرورت اس امر کی
ہے کہ سہا را ڈھونڈھنے کی بجائے کوشش یہ کریں کہ آپ خود دوسروں کا سہارا بن
جائیں ۔ یہ سوچے بنا کہ آپ کو شاید اس طرح کا سہارا نہ ملے جس طرح کا آپ
چاہتے ہیں یا جس طرح کا آپ نے کسی کو دیا ۔ بس بانٹے جائیں ۔ مدد کرنے اور
آسیانیاں بانٹنے سینہ صرف دوسروں کی زندگیوں میں بہتری آتی ہے یا مشکلات
میں آپ کی وجہ سے کمی آئے بلکہ آپ کی عاقبت سنورجائے ۔کوئی شخص آپ کی ذات
کی وجہ سے اپنے اندر حالات سے لڑنے کا حوصلہ پاتا ہے تو اس کے دل سے بے
اختیار آپ کے لیے دعا نکلتی ہے اور یہ بے اختیار دعا قبولیت کے اس درجے پر
ہوتی ہے جہاں دعائیں رد نہیں ہو تی ۔ معاشرے کو مضبوط بنانے کے لیے باہمی
رشتوں کو مضبوط بنانا ضروری ہے اور رشتوں کو مضبوط بنانے کے لیے آپ کواپنے
اندر سے انا کو ختم کرنا ہو گا ۔ بغض اور کینہ کو اپنے دلوں سے نوچ پھیکنا
ہو گا ۔
اگر معاشرے کا ہر فرد دوسروں کے لیے سہارا بننے کی کوشش کرنے لگے اور حسد
کی بجائے دوسروں کی مدد کرنے تو ہمارے اسی فیصد مسائل از خود حل ہو جائیں ۔
اگر ہر صاحب ِ حیثیت شخص اپنے گردونواح میں موجود غریبوں کا خیال کرنے لگیں
تو تھر جیسی صورت ِ حال کبھی پیش نہ آئے ۔ کبھی کوئی بچہ بھوکانہ مرے ،
کبھی کسی ہسپتال میں دواؤں کی کمی نہ ہو اور جرائم کی شرع میں نمایاں کمی
ہو جائے ۔ اگر صرف اتنا ہی ہو جائے کہ ہر شخص ازخود دوسرے کی مدد کرنے لگے
تو پورے معاشرے میں آسودگی کا دور دورہ ہو جائے اور معاشرہ ایک فلاحی
معاشرہ بن جائے ۔مدد کرنا ، سہارا بننا دراصل ایک انفرادی رویہ ہے ۔
اس رویے کو اپنانے کے آپ کو کسی ابنِ مریم، کسی حکمران ، کسی سیاست دان کی
ضرورت نہیں بلکہ یہ ایک ایسا رویہ ہے جو کہ اجتماعی طور پر معاشرے کی ترقی
اور خوشحالی کا ضامن ہے ۔ |