کبھی وہ وقت تھا جب میرے والد ( محمد دلشاد خان لودھی
)کیبن مین کی حیثیت سے واں رادھا رام کی کیبن پر ڈیوٹی دیتے ہوئے اس وقت
سخت پریشانی میں مبتلا ہوجایا کرتے تھے جب پاکستان ریلوے کے اے ٹی او صاحب(
اسسٹنٹ ٹریفک آفیسر ) کسی ٹرین میں بیٹھ کر وہاں سے گزرا کرتے تھے۔ سخت
ترین گرمیوں میں انہیں نیکر پر بھاری بھرکم پاجامہ اور بنیان پر موٹی قمیض
پہننی پڑتی تھی ۔اس وقت وہ نہایت بیزاری کے عالم میں کہا کرتے تھے یا ر جب
تک اے ٹی او صاحب کی گاڑی نہیں گزر جاتی اس وقت تک مجھے سکون نہیں مل سکتا
نہ جانے اے ٹی او صاحب کو کونسی مصیبت پڑی تھی جو ادھر آ نکلے اور ہمیں
پریشان کرکے رکھ دیا ہے ۔اس وقت میں میری عمر بمشکل آٹھ دس سال ہوگی میں یہ
سمجھنے سے قاصر تھا کہ یہ اے ٹی او صاحب کس بلا کا نام ہے اور یہ بلا کہاں
رہتی ہے اگر آسمان پر یہ بلا رہتی ہے تو پھر زمین پر کیوں اتر آئی ہے ۔
میں چونکہ اپنے والد سے عشق کی حد تک محبت کرتا تھا مجھے وہ ساری دنیا سے
زیادہ طاقت ور اور ذہین دکھائی دیتے تھے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ
میں انہیں دیوار چین سے زیادہ بلند اور مضبوط تصور کرتا تھا ۔یہ تصور اس
لیے میرے ذہن میں محفوظ تھا کہ زندگی کے ابتدائی سالوں میں جب بھی کوئی
مصیبت ٗ بیماری یا پریشانی مجھے لاحق ہوتی تو والد اپنی جان کو خطر ے میں
ڈا ل کر میری حفاظت کرتے اور اس وقت تک انہیں سکون نہ ملتا جب تک میں نارمل
حالت میں واپس نہ لوٹ آتا ۔مجھے یاد ہے کہ سکول ماسٹر کی نقل اتارتے ہوئے
میری آنکھیں بھی شام ہونے تک سرخ ہوچکی تھی آنکھوں سے پانی الگ بہنے لگا
ٗکچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔والد صاحب کی ڈیوٹی اس دن صبح آٹھ بجے سے شام
4 بجے تک تھی سخت ترین سردیوں کے موسم میں جب ماں ہمیں دو دو پاجامے اور
تین تین قمیض اور باندر ٹوپہ پہنا کر سردی سے بچانے کی ناکام کوشش کرتی تو
اس لمحے میں اپنے والد کو وردی کے اوپر صرف ایک برانڈی ( اوور کوٹ نما )
پہنے سخت ترین سردی میں کیبن پر سرد ہوا کے تھپیڑوں سے دست بدست جنگ کرتا
ہوا دیکھتا ۔سارے دن کے تھکے ہوئے وہ جب شام ڈھلے گھر واپس پہنچے تو میری (
اپنے لاڈلے بیٹے ) تکلیف دیکھ کر بے چین ہوگئے انہوں نے اپنے آرام کو
بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف اور صرف میرے لیے سردیوں کی شام چھ بجے لاہور سے
ساہی وال جانے والی ٹرین پر رینالہ خورد جانے کا پروگرام نہ صرف بنالیا
بلکہ آدھا گھنٹہ پہلے ہی مجھے اپنی آغوش میں لے کر واں رادھا رام ( حبیب
آباد) کے ریلوے اسٹیشن کے یخ ٹھنڈے بینچ پر آ بیٹھے ۔جب ٹرین کے ذریعے ہم
رینالہ خورد پہنچے تو نہ صرف سردی میں حد درجہ اضافہ ہوچکا تھا بلکہ بازار
کی دکانیں بھی اکثر بند ہوچکی تھیں جبکہ نیم حکیم قسم کا ایک ڈاکٹر اپنی
دکان بند کر رہا تھا ۔والد صاحب نے اس سے درخواست کی کہ میرے لخت جگر کی
آنکھیں خراب ہوگئی ہیں از راہ کرم کوئی ایسی دوائی دے دیں جس سے یہ جلد
ٹھیک ہوجائے ۔اس نیم حکیم ڈاکٹر نے میری آنکھوں کو غور سے دیکھا پھر دوائی
دے کر یہ کہتے ہوئے ہمیں فارغ کردیا کہ اﷲ نے چاہا تو یہ بچہ اس دوائی سے
ٹھیک ہوجائے گا ۔ اﷲ کے کرم سے میں ٹھیک بھی ہوگیا لیکن اس شام اور رات کی
سخت ترین سردی میں اپنے والد کا ایثار اور شفقت کبھی نہیں بھولتی ۔میرے
والد واقعی ایک عظیم باپ اور محافظ تھے ۔جس کا صلہ میں زندگی بھر ان کی
خدمت کرنے کے باوجود ادا نہیں کرسکا ۔
بہرکیف اے ٹی او صاحب کی آمد کا تصور کرکے جب میرے والد پریشان ہوتے تو ان
سے زیادہ میں بھی پریشان ہوجاتا اور یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا کہ یہ ا ے ٹی
اوصاحب ہیں کون۔ انہیں کبھی واں رادھا رام جیسے چھوٹے اسٹیشن پر اترنے کی
توفیق نہیں ہوئی ۔ یہ بلا اگر واقعی واں رادھا رام اسٹیشن پر اتر جاتی تو
پتہ نہیں وہاں کیا طوفان برپا کرتی یہ تو اس بلا کی مہربانی تھی کہ وہ
لاہور سے ٹرین کے ذریعے ساہی وال چلی جاتی تھی اور پھر وہاں سے سیدھی لاہور
روانہ ہوجاتی ۔ اس کے باوجود کہ اے ٹی او صاحب اپنے ائیرکنڈیشنڈ ڈبے کے
شیشے اتارنا بھی گناہ تصور کرتے تھے لیکن اس کا ڈر لاہور سے ساہی وال تک کے
ہر ریلوے اسٹیشن پر تعینات جھاڑو والے سے اسٹیشن ماسٹر تک کو ہوتا تھا ۔جب
اے ٹی او صاحب کی ٹرین جس جس اسٹیشن سے بخیر یت گزر جاتی اس اسٹیشن کے
ریلوے ملازمین کی جان میں جان آتی مشکل کے اس لمحے کئی ملازمین کو یہ کہتے
ہوئے سنا گیا کہ جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو....................
پھر حالات نے کروٹ لی اور 1964ء کے سال میں چوتھی جماعت میں پہنچا جبکہ
میرے دو نوں بڑے بھائی ( محمد رمضان خان لودھی اور محمد اکرم خان لودھی )
بالترتیب میٹرک اور آٹھویں جماعت میں پہنچ چکے تھے تو والد صاحب کی شفقت نے
ایک بار پھر جوش مارا ۔ انہوں نے اپنی 80 روپے ماہوار تنخواہ میں سے بھی جو
10 روپے بچا رکھے تھے وہ ڈی ایس آفس کے متعلقہ کلرک کو رشوت میں دے کر اپنی
ٹرانسفر بطور شٹنگ پورٹر لاہور کینٹ کروا لی ۔اس کے باوجود کہ انہیں
لاہورکینٹ پوسٹنگ کے بعد مشکل ترین کام شٹنگ پورٹر کی حیثیت سے انجام دینا
پڑتا تھا لیکن انہوں نے صرف ہماری تعلیم کی خاطر زندگی کا خطر ناک ترین کام
کرنا بھی گوارا کرلیا ۔ میں نے کئی شٹنگ پورٹرز کو معمولی سے سستی کرنے
والے ٹرین کے نیچے آکر ٹکڑے ٹکڑے ہوتے بھی دیکھا تھا ۔ اسے پاکستان ریلوے
کی سب سے خطرناک ترین ڈیوٹی قرار دیا جاسکتا ہے ۔ لیکن ریلوے افسران کے
نزدیک شٹنگ پورٹر کے فرائض انجام دینے والوں کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے
۔وہ انہیں بھی باقی ملازمین کی طرح جانور کی ہانکتے ہوئے ریٹائرمنٹ کی
دہلیز پر لے جاتے ہیں ۔بہرکیف لاہور آنے کے بعد والد صاحب نے بڑے شہر کے
اخراجات کو پورا کرنے کے لیے اپنی ڈیوٹی کے علاوہ چھانگا مانگا اور چیچہ
وطنی کے جنگل سے کاٹ کر لاہور آنے والی لکڑیوں کے ریل کے ڈبے خالی کرنا
شروع کردیئے۔ مجھے یاد ہے کہ ہم تینوں بھائی سکول سے فراغت کے بعد والد
صاحب کے ساتھ مل کر رات آٹھ بجے تک صرف ایک ڈبہ بمشکل خالی کرنے میں کامیاب
ہوا کرتے تھے جس کے عوض میں روزی خان ٹھیکیدار ہمیں صرف تین روپے مزدور ی (
معاوضہ ) دیا کرتا تھا ۔ یہ تین روپے ہی تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے
کافی ہوا کرتے تھے۔
باقی بھائی تو میٹرک پاس کرنے کے بعد کہیں نہ کہیں ملازم ہوگئے لیکن میں نے
میٹرک کے بعد پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے ایف اے اور بی اے بھی
کرلیا۔میرے والد کی بہت بڑی خواہش تھی کہ میں ریلوے میں اسسٹنٹ اسٹیشن
ماسٹر بھرتی ہوکر باؤ بن جاؤں ۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ڈی ایس آفس کے کلر
ک کو رشوت بھی دی اور کلرک کے کہنے پر میں نے خود ہیڈکوارٹر کے ممبر بورڈ
کے ایک اہم رکن کی کوٹھی (جو اس وقت گرجا چوک لاہور کینٹ کے نزدیک واقعہ
تھی) پانچ کلو بغیر کانٹے والی مچھلی دے کر آیا تھا ۔لیکن رشوت کی رقم اور
مچھلی بھی کام نہ آئی اور جب اسسٹنٹ اسیٹشن ماسٹر کی حیثیت سے بھرتی ہونے
والوں کی فہرست بورڈ پر لگی تو میرا نام اس میں شامل نہیں تھا جس پر نہ صرف
مجھے افسوس ہوا بلکہ میرے والد کو بہت صدمہ پہنچا ۔ کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ
ان کا بیٹا خوبصورت سفید رنگ کی وردی پہنے سر پر بلیک کلر کا پی کیپ پہن کر
اے ایس ایم کی کرسی پر بیٹھے اور لاہور میں گاڑیوں کی نقل وحرکت کی نگرانی
کرنے والے کنٹرولر صاحب سے فخر سے بات کرے ۔ گاڑیاں لاہور سے ہارن بجاتی
ہوئی ساہیوال کو چلی جائیں اور ساہیوال سے لاہور کووسل بجاتی ہوئی گزر
جائیں اور ان کا بیٹا ہر آنے اور جانے والی گاڑی کو خوبصورت وردی پہن کر
سبز جھنڈی دکھائے ۔ اس وقت سیون اپ ٗ ون ڈاؤن ٗ کا نام بہت مشہور تھا تیز
گام ٗ تیز رو ٗ خیبرمیل ٗ کوئٹہ ایکسپریس بہت پھنے خاں ٹرینیں تصور کی جاتی
تھیں ۔ لاہور میں بیٹھا ہوا کنٹرولر ان ٹرینوں کی نقل و حرکت بہت باریک
بینی سے چیک کیا کرتا تھا ۔
مجھے یاد ہے کہ 1962 میں جب فیلڈ مارشل محمدایوب خان کے دور میں جماعت
اسلامی نے ٹرین کے ذریعے خانہ کعبہ کا غلاف پہلے کراچی بھجوایا تھا پھر
وہاں سے بحری جہاز کے ذریعے یہ غلاف سعودی عرب بھیجا جانا تھا۔یہ غلاف
غالبا کسی ایکسپریس ٹرین پر موجود تھا۔ واں رادھا رام پتوکی سے دوسرا ایک
چھوٹا سا اسٹیشن تھا اس لیے یہاں کوئی ایکسپریس گاڑی نہیں رکتی تھی پسنجر
ٹرینیوں کے ذریعے ہی یہاں کے لوگ سفر کیا کرتے تھے ۔ اس زمانے میں گولہ
سسٹم ریلوے میں رائج تھا بغیر رکے جانے والی ایکسپریس ٹرین کو ہر چھوٹے بڑے
اسٹیشن سے چمڑے کے خول میں بند ایک گولہ پکڑنا ہوتا تھا۔ لوہے کی تار کے
بنے ہوئے گول رنگ میں یہ گولہ ڈالا جاتا بغیر رکے جانے والی ٹرین جس لائن
سے گزرتی تھی وہاں لوہے کا ایک فریم نصب ہواکرتا تھا اسٹیشن پر ڈیوٹی انجام
دینے والا کانٹے والا وہ گولہ لوہے کے فریم میں فکس کرکے گاڑی کامنتظر ہوتا
۔انجن کے دائیں جانب بیٹھا ہوا فائر مین ہک کے ذریعے اس گولے کو تیز رفتار
ی سے اٹھایا کرتا تھا ۔ اگر گولہ اٹھانے میں ناکام رہتا تو اس گاڑی کو
اسٹیشن پر رکنا پڑتا ۔خانہ کعبہ کا غلاف لے کر جانے والی ٹرین کے بارے میں
کنٹرولر کا حکم تھا کہ کسی بھی چھوٹے اسٹیشن پر نہ روکا جائے بلکہ پہلے سے
زیادہ احتیاط اور ذمہ داری سے اس ٹرین کو گزارا جائے ۔ایک جانب کنٹرولر کا
سخت حکم تو دوسری جانب واں رادھا رام شہر کے لوگ ریلوے لائن پرآ کے بیٹھ
گئے کہ ہم نے خانہ کعبہ کے غلاف کی ہر حال میں زیارت کرنی ہے۔اس کے
باوجودمعمولی سی غلطی سے والد صاحب نوکری سے بھی برطرف ہوسکتے تھے لیکن
انہوں نے اس ٹرین کو روکنے کے لیے اپنے ذہن میں پلاننگ کرلی تھی۔
اسٹیشن ماسٹر ٗ اے ایس ایم اور ریلوے کا تمام عملہ پلیٹ فارم پر ہائی الرٹ
تھا۔ اس وقت مجھے یاد نہیں کہ اس ٹرین کا نام کیا تھا لیکن جب وہ اوٹر سگنل
کراس کرکے واں رادھا رام کی حدود میں داخل ہوئی تو گولے لینے کے لیے انجن
میں بیٹھا ہوا فائر مین جھکا ابھی اس کا ہینگر گولے کو حاصل کرنے ہی والا
تھا کہ والد صاحب نے اس فریم کو جھٹکا دے کر گولے کو زمین پر گرا دیا ۔
گولہ نہ ملنے کی وجہ سے اس ٹرین کو فوری طور پر رکنا پڑا ۔ ہزاروں کی تعداد
میں لوگ اس ٹرین میں رکھے ہوئے غلاف کعبہ کو چومنے لگے جن کی پہنچ سے غلاف
کعبہ دور تھا وہ ریلوے انجن کو ہی چوم کر اپنی عقیدت کا اظہار کررہے تھے
۔ایک جانب شہر والوں کا جوش و خروش عروج پر تھا تو دوسری جانب اسٹیشن ماسٹر
سمیت ریلوے کے تمام عملے کی پتلونویں ڈھیلی پڑ چکی تھی ۔ کنٹرولر بہت غصے
میں دھاڑ رہا تھا کس نے یہ ٹرین روکی اور کیوں یہ ٹرین رکی ۔کسی سے کوئی
جواب نہیں بن پا رہا تھا ۔ جب والد صاحب سے باز پرس ہوئی تو انہوں نے کہ
جناب میں تو فریم میں گولہ لگا کر کھڑا ہوا تھا اب گولہ پکڑنا تو فائر مین
کا کام تھا ۔ بہرحال بہت لے دے کر بعد بات دب گئی لیکن اس وقت میرے ذہن میں
یہ بات پیوست ہوگئی کہ جس کنٹرولر سے ریلوے کا تمام رننگ سٹاف خوفزدہ رہتا
ہے آخر وہ کہاں بیٹھتاہے اور اس کو کس طرح خبر ہوجاتی ہے کہ ٹرین پتوکی
پہنچ گئی ہے اور واں رادھا رام کے پلیٹ فارم پر رکی ہوئی اسے کب ساہی وال
کی جانب روانہ ہونا ہے اور ساہی وال سے لاہور جانے والی ایکسپریس ٹرین
کوچھوٹی گاڑیوں کو روک کر کیسے گزارنا ہے ۔
یہ ایک انجانی اور ان دیکھی دنیا کا تصور میرے دماغ میں محفوظ تھا میں اے
ٹی او کے بعد کنٹرولر کے بارے میں بھی جاننے کی جستجو رکھتا تھا کیونکہ
کانٹے والے ٗ شنٹنگ پورٹر ٗ کیبن مین اور اے ایس ایم سمیت ہر شخص کی زبان
پر کنٹرولر کا لفظ بہت سننے کو ملتا تھا ۔
بہرکیف یوں تو میں گزشتہ پچیس سال سے مختلف اخبارات میں باقاعدگی سے کالم ٗ
فیچر ٗ آرٹیکل لکھتا چلا آرہا ہوں لیکن کبھی یہ دو بلائیں دیکھنے کا اتفاق
نہیں ہوا ۔ ڈی ایس آفس بھی میں دوچار مرتبہ جانا ہوالیکن جس دفتر
پرپاکستانی جھنڈا سبزہلالی پرچم نصب تھااس دفتر میں داخل ہونے کی مجھ میں
جرات کہا ں تھی۔ سنا کرتے تھے کہ اس دفتر میں اے ٹی او صاحب کے دادا جی
بیٹھتے ہیں پھر یہ خیال ذہن میں ابھرتاکہ اگر اے ٹی اوصاحب کا اتنا جاہ و
جلال ہے تو ڈی ایس صاحب ( ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ ) کے رعب و دبدبے کاعالم
کیاہوگا ۔
قدرت نے مہربانی کی تو میں نے ریلوے وزیر کو مخاطب کرکے ایک کالم لکھا جو
روزنامہ نوائے وقت میں 12 جنوری 2015ء کو شائع ہوا اس کالم میں کیبن مین
اور شنٹنگ پورٹر کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے ان کے ازالے کے لیے تجاویز دی
گئی تھیں ۔اس کالم کے شائع ہوتے ہی سرکاری نمبر سے کالیں موصول ہونے لگیں
جب میں نے کال اٹنڈ کی تو پتہ چلا کہ ڈی ایس لاہور جناب عبدالحمید رازی
صاحب بقلم خود مجھ سے بات کرنا چاہتے ہیں ۔ڈی ایس لاہور کا لفظ سننا تھا تو
میرے ہاتھوں کے طوطے اٹھ گئے اور میں پچاس سال پہلے کے دورمیں پہنچ گیا جب
اے ٹی او صاحب کے گزرنے پر میرے والد خوفزدہ ہوجایا کرتے تھے ۔میں نے سوچا
اگر ڈی ایس صاحب سے میری ملاقات ہوجاتی ہے تو میں دنیا کا وہ خوفناک ترین
انسان ( جسے ریلوے کا رننگ سٹاف اے ٹی او صاحب کے لقب سے پکارتا ہے ) کو
ضرور دیکھوں گا ۔
میں نے اپنے داماد حافظ تاج محمود ( جو پاکستان ریلوے میں سگنل انجینئر کے
عہدے پر فائز ہیں ) کو کال کرکے عبدالحمید رازی صاحب کے بارے میں پوچھا تو
انہوں نے بتایا کہ وہ نہ صرف پورے ڈویژن کے مالک ہیں بلکہ وہ بہت اچھے
انسان بھی ہیں وہ صاحب کتاب ہیں اور انہوں نے ہفتے میں دو دن عام ملازمین
سے ملاقات کے لیے مخصوص کررکھے ہیں۔حافظ صاحب کی زبانی مجھے عبدالحمید رازی
صاحب کے بارے میں جان کر بہت خوشی ہوئی اوران سے بالمشافہ ملاقات کی آرزو
نے دل میں طوفان برپا کر دیا۔ میں نے انہیں کال کی جس پر انہوں نے شفقت
کااظہار کرتے ہوئے مجھے اپنے دفتر آنے کی دعوت دی ۔ میں نے مزید خواہش کا
اظہار کرتے ہوئے ان سے گزارش کی کہ مجھے والٹن ٹریننگ سکول / اکیڈمی کا دور
ہ بھی کرنا ہے ۔میں ایک جانب ریلوے کی انوکھی دنیا / سلطنت کو عملی روپ
دھارتے دیکھنا چاہتا ہوں تو دوسری جانب میں اس ادارے کو دیکھنا چاہتا ہوں
جہاں میرے والد زیر تربیت رہے تھے ۔
میں سمجھتا ہوں یہ محبت کی انتہاء ہے کہ مجھے ہر وہ شہر اورہر وہ مقام مقدس
ترین دکھائی دیتا ہے جہاں میرے والد کسی نہ کسی لمحے وہاں ٹھہرے ہوں ۔میں
بطور خاص بہاولنگر ریلوے اسٹیشن کو بھی دیکھ کر آیا ہوں جہاں پاکستان بننے
سے پہلے میرے والد فائر مین کی حیثیت سے سٹیم انجن پر ڈیوٹی انجام دیا کرتے
تھے ۔پاکستان بننے کے بعد انہیں اس دن ریلوے میں بطور کانٹے والا ملازمت
ملی جس دن میری ولادت ہوئی تھی اس لیے دنیا میں میری آمد کو خوش بختی تصور
کیاگیا۔ ڈی ایس صاحب نے اسی وقت والٹن اکیڈمی کے ڈائریکٹر فاروق صاحب کو
فون کیا اور چندلمحوں کے بعد فاروق صاحب مجھ سے مخاطب تھے انہوں نے بتایا
کہ وہ اسلام آباد دورے پر جارہے ہیں دو ہفتے بعدواپسی ہوگی پھر آپ کو
اکیڈمی کا دورہ کروا دیاجائے گا ۔
پھر وہ دن ( منگل 27 جنوری 2015ء )بھی آگیا جب میں صاحب کرامت قاری محمد
اقبال عارف قادری صاحب کے ساتھ ڈی ایس آفس جا پہنچا ۔سرد ہواکے جھونکے جسم
میں تھرتھلی مچا رہے تھے لیکن ہم جس دنیا کو دیکھنے جارہے تھے اس کی خوشی
دیدنی تھی ۔ دہشت گردی کے اس دور میں جبکہ ہر سرکاری دفترمیں رکاوٹیں کھڑی
کرکے آنے والوں کے لیے بے پناہ مشکلات پیدا کردی گئی ہیں لیکن ڈی ایس آفس
میں داخل ہوتے ہوئے مجھے کوئی رکاوٹ محسوس نہیں ہوئی جسے دیکھ کر نہ صرف
میں حیران ہوا بلکہ یہ کہنے پر مجبورہوگیا کہ یہ ڈی ایس آفس نہیں ہے جہاں
اے ٹی اوصاحب کے دادا جی بیٹھتے ہیں بلکہ یہ تو درویشوں کا وہ ڈیرہ ہے جہاں
جو مرضی آ جاسکتا ہے ۔میں اور قاری صاحب اس عمارت میں داخل ہوئے جہاں
سبزہلالی پرچم لہرا رہاتھا ۔ پرائیویٹ سیکرٹری کے کمرے میں داخل ہوکر میں
نے اپنا تعارف کروایا تو پرائیویٹ سیکرٹری نے اسی وقت ہمیں اندر جانے کی
اجازت دے دی ۔
میں دروازہ کھول کر جونہی ڈی ایس آفس میں داخل ہوا تو وقت کا بادشا ہ اور
لاہور ڈویژن ریلوے کا مالک ٗایک عظیم انسان عبدالحمید رازی صاحب ایک قدآور
شخصیت کا روپ دھارے میرے سامنے تھے انہوں نے اپنی نشست سے اٹھ کر ہمارا
استقبال کیا اور ہمیں اپنے سامنے رکھی ہوئی کرسیوں پر بیٹھنے کی دعوت دی ۔
ہم بیٹھ کر کمرے کا بغور جائزہ لینے لگے ۔ کمرے میں ایک طرف لاہور ڈویژن کا
نقشہ آویزاں تھا تو دوسری جانب ایک بہت تاریخی اہمیت کاحامل وال کلاک دیوار
پر نصب دکھائی دیا ذرا غور سے دیکھا تو اس وال کلاک پر 1686ء سن لکھا ہوا
اور سوا چار سو سال پرانا یہ گھڑیال انگلینڈ کی کسی معروف کمپنی کا
بنایاہوا لگ رہا تھا حیرت کی بات تو یہ تھی کہ سوا چار سو سال گزرنے کے
باوجود اس کلاک میں زندگی کی رمق باقی تھی اور اس کی حرکت کرتی ہوئی سوئیاں
گزرے ہوئے وقت کااحساس دلا رہی تھیں ۔
کچھ ہی دیر بعد عبدالحمید رازی صاحب فارغ ہوکر ہم سے مخاطب ہوئے ۔ اس کے
باوجود کہ وہ ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ جیسے عظیم الشان عہدے پر فائز ہیں لیکن ان
کی شخصیت میں بہت کھلی ڈھلی دکھائی دی ۔ نہ کوئی رعب اور نہ کوئی دبدبہ ۔
وہ تو ہم جیسے ہی انسان دکھائی دے رہے تھے بلکہ غور سے دیکھنے کے باوجود ان
کے ماتھے پربھی کوئی شکن دکھائی نہیں دی۔ میں حیران تھا کہ میرے والد سمیت
ہزاروں ریلوے ملازمین جس کے خوف سے بھی تھر تھر کانپ جایا کرتے تھے یہ ان
سے کئی درجے بڑے افسر تھے لیکن پھر بھی نہایت خوش اخلاق نظر آرہے ہیں ۔ میں
سمجھتا ہوں یہ پاکستان ریلوے کے بہترین سفیر ہیں ۔انہوں نے یہ جانتے ہوئے
بھی کہ میں ایک کیبن مین کا بیٹا ہوا اپنی گفتگو میں ریلوے کے بارے میں بے
شمار معلومات فراہم کیں ۔دوران گفتگو ایک صاحب اندر تشریف لائے ۔ رازی صاحب
نے تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ یہ ڈی پی او صاحب ہیں ان کا نام ہمدان نذیر
ہے ۔ گرمجوشی سے مصافحہ کرنے کے بعد وہ بھی گفتگو میں شریک ہوگئے لیکن ابھی
اس شخص کودیکھنے کی آرزو دل میں مچل رہی تھی جس کی آمد کا سن کر بھی میرے
والدپریشان ہوجایا کرتے تھے ۔یعنی اے ٹی او صاحب بہادر یار جنگ .........
رازی صاحب نے بتایا کہ آپ جس اے ٹی او صاحب سے خوفزدہ ہیں یہ ان سے زیادہ
بڑے افسر ہیں ۔ میں نے مسکرا کے جواب دیا لیکن یہ تو بہت سادہ سے اور شریف
النفس افسر دکھائی دیتے ہیں ان سے تو مجھے کوئی خوف نہیں آرہا ۔ رازی صاحب
میری بات پر قہقہہ مارا اور فون اٹھا کر اے ٹی او صاحب کو بھی بلوا لیا ۔اب
میری نگاہیں دروازے پر جم گئیں ۔دروازہ کھولا تو ایک سانولا سلونا سا
درمیانی عمر کا ایک شخص نہایت ادب سے نگاہیں نیچی کیے اور جسم کو 30 کے
زاویے پر لائے ہوئے کمرے میں داخل ہوا ۔ رازی صاحب نے مجھے مخاطب کرکے
بتایا لودھی صاحب یہ ہیں وہ اے ٹی او صاحب سے ۔ جن کو دیکھنے کی آرزو آپ
بار بار کررہے تھے ۔
رازی صاحب اور ہمدان نذیر صاحب تو اے ٹی او ( ملک قمر الحق ) کی آمد پر
متاثر نہ ہوئے کیونکہ وہ ان سے کہیں سنئیر آفیسر تھے لیکن میں نے اپنی نشست
سے اٹھ کر ان سے مصافحہ کیا اور خیریت دریافت کی میرے دیکھا دیکھی قاری
محمداقبال عارف صاحب نے بھی اے ٹی او صاحب سے ہاتھ ملایا اور اے ٹی او صاحب
رازی صاحب کے دائیں جانب کرسی پر جا کر بیٹھ گئے ۔رازی صاحب نے اے ٹی او
صاحب کومخاطب کرکے میرا تعارف کروایا اور بتایا کہ لودھی صاحب کی دلی آرزو
تھی کہ وہ آپ ملیں چلو لودھی صاحب کی یہ آرزو بھی پوری ہوئی ۔ اب ہم ایک ہی
چھت کے نیچے موجود تھے جس میں ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ ٗ ڈویژنل پرسنل آفیسر DPO
اور اے ٹی او ۔ لیکن اس کمرے میں کوئی جنبش نہیں ہوئی چھت بھی سلامت تھی
اور اس کی دیواریں بھی اپنی اپنی جگہ کھڑی تھیں لیکن میرے جسم میں خوشی کے
پھوارے پھوٹ رہے تھے اورمیں تصور ہی تصورمیں اپنے والد سے بات کرکے کہہ رہا
تھا ابا جان کاش آج آپ زندہ ہوتے تو اس کمرے میں پاکستان ریلوے کے سنئیر
ترین افسران کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر خوش ہوتے ۔ ان افسران میں وہ اے ٹی
او صاحب بھی موجود ہیں جن کے گزر نے سے بھی آپ خوفزدہ ہوجایا کرتے تھے ۔
میں نے رازی صاحب کو بتایا کہ میرے والد ریلوے سے والہانہ محبت کرتے تھے وہ
صرف نوکری نہیں کرتے تھے بلکہ ریلوے ان کی زندگی کااہم ترین حصہ تھا انہیں
اپنی وردی سے بہت پیار تھا جب ترقی پاکر وہ یارڈ فورمین بنے تو کالے رنگ کی
گرم وردی انہیں ریلوے کی جانب سے ملی ۔جب گھر پر موجو دہوتے تو براس پالش
سے اپنی وردی کے بیجز کو چمکانے میں مصروف رہتے اسی طرح ہم ان کے سیاہ
جوتوں کو پالش سے اس طرح چمکا دیتے جن سے چہرہ بھی باآسانی نظر آسکتا تھا ۔
وہ جب وردی پہن کر لاہور کینٹ اسٹیشن کی جانب چلتے توان کے کندھے پر لگے
ہوئے بیجز سورج کی روشنی میں جگمگا نے لگتے ۔ پی کیپ کا بیج تو ٹارچ کی طرح
اجلا اور روشن دکھائی دیتا تھا ۔دوران ڈیوٹی کبھی کبھار انہیں مال گاڑی میں
گارڈ کی حیثیت سے ساہی وال بھی جانا پڑتا تو وہ مال گاڑی کے 72 ڈبوں کے بعد
لگی ہوئی ایک ویران سی کیبن میں بہترین وردی پہن کر اس طرح بیٹھ جاتے جیسے
شادی گھروں کی سٹیج پر دولہے بیٹھ جاتے ہیں انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں
تھی کہ یہ مال گاڑی جس کی نہ روانگی کا کوئی وقت طے ہوا کرتا تھااور نہ ہی
منزل مقصود پر پہنچنے کا کوئی حتمی پروگرام ۔بعض اوقات تو کسی چھوٹے اسٹیشن
کے جنگل میں مال گاڑی کوکھڑا کرکے کنٹرولر بھول جایا کرتا تھا اور والدصاحب
کو بھوکا پیاسا ہی رہنا پڑتا تھا ۔ ساہیوال پہنچ کر وہ ریسٹ ہاؤس میں کچھ
دیر آرام کرتے پھر وہاں سے بھی کسی نہ کسی گاڑی کو لے کر لاہور روانہ
ہوجاتے ۔ وہ کانٹے والے تھے ٗ وہ کیبن مین تھے وہ یارڈ فورمین تھے یا مال
گاڑی کے گارڈ ۔ پاکستان ریلوے میں ان کی ساری زندگی سرخ اور سبز جھنڈی
دکھاتے ہی گزر گئی ۔رات کے وقت ان کے پاس ایک ہاتھ سے پکڑنے والی بتی ہوا
کرتی تھی جس میں ریلوے اسٹیشن پر موجود بتی گودام سے مٹی کا تیل بھرواکر
ایک چراغ سا رکھاہوتا تھا اس بتی میں تین گھومنے والے شیشے ہوا کرتے تھے
ایک وائٹ ٗ ایک سبز اور ایک سرخ رنگ کا شیشہ۔ انہوں نے رات کے وقت جب کسی
ٹرین کو روانگی کا سگنل دکھانا ہوتا تو وہ گھوما کر چراغ کی روشنی کے سامنے
سبز شیشہ کردیتے اور جب کسی ٹرین کو روکنا مقصود ہوتا تو سرخ شیشہ استعمال
کرلیتے ۔ نارمل وقت میں وائٹ شیشہ ہی چراغ کے سامنے روشنی فراہم کرنے کے
لیے نصب رہتا ۔ انہوں نے پاکستان ریلوے میں 25 دسمبر 1954ء سے بطور کانٹے
والا ملازمت کا آغاز کیا تھا اور 1988ء میں لاہور اسٹیشن سے ( فالج کے حملے
کے بعد ) ریٹائرمنٹ لی تھی لیکن اس دوران کوئی ایک تنخواہ بھی پوری نہیں
ملی ریلوے کا کشیئر ہر ماہ کی تنخواہ سے کچھ نہ کچھ رقم خود ہی کاٹ لیا
کرتا تھااور والد صاحب صبر شکر کرکے خاموش ہوجاتے۔
جب سال میں ایک بار لاہور ڈی ایس آفس میں ڈاکٹری ( آنکھوں کے میڈیکل چیک اپ
) کے لیے لاہور آنا پڑتا تو جتنی راتیں انہیں لاہورمیں رکنا پڑتا میں رات
کو نہ خود سوتااور نہ ہی کسی اور سونے دیتا ۔ مجھے اپنے والد کے بغیر نیند
ہی نہیں آتی تھی ۔لاہور سے آنے والی ہر ٹرین کو دیکھنے کے لیے دوڑتا ہوا یہ
تصور کرکے اسٹیشن پر پہنچ جاتا کہ شاید وہ اس گاڑی سے واپس آرہے ہوں لیکن
جب گاڑی گزر جاتی تو رونے والا مونہہ بنا کر گھر چلا آتا ۔ والد سے والہانہ
محبت کااظہار دوران تعلیمی دور بھی عروج پر رہا ۔ کچی ٗپکی ٗ پہلی اور
دوسری جماعت کا جب امتحان ہوا تو والد سکول کی کچی دیوار کے اس پار اس وقت
تک کھڑے رہے جب تک ماسٹر مجھ سے سوال پوچھتا ۔میں سوال سن کے اپنے والد کے
چہرے کو پیار بھری نگاہ سے دیکھتا پھر نہ جانے کہاں سے بالکل صحیح جواب
میری زبان پر آجاتا ۔ اس طرح میں ابتدائی تین سٹیج تو عبور کرگیالیکن تیسری
جماعت کاامتحان کادن آیا تو والد صاحب ڈیوٹی کی وجہ سے میرے ساتھ سکول نہ
آسکے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں فیل ہوگیا ۔ نتیجہ سننے کے بعد جب میں
مونہہ لٹکائے گھر پہنچا تو والد نے پوچھا میرا شہزاد ہ پاس ہوگیاہے نا۔ میں
نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا۔ ابا جی میں فیل ہوگیا ہوں ۔یہ سنتے ہی والد صاحب
کاپارہ تو آسمان تو چھونے لگا وہ غصے میں دھاڑنے لگے ان کو غصے میں بولتے
ہوئے سن کر ماں بھی صحن سے دوڑی چلی آئی کہ کیا آفت آگئی ہے ۔ پہلے تو والد
صاحب نے مجھے ایک طمانچہ مارا پھر بازو سے پکڑ کر سکول پہنچ گئے اور ہیڈ
ماسٹر ابراہیم صاحب سے جاکر کہا کہ میرا بیٹا فیل نہیں ہوسکتا اس کا دوبارہ
امتحان لیاجائے ۔ کلاس ٹیچر نے ہیڈماسٹر صاحب کی ہدایت پر سب کے سامنے ہی
مجھ سے سوالات کرنے شروع کردیئے۔ میں سوال سن کر اپنے والد کا چہرہ دیکھتا
پھر جواب دے دیتا ۔ ماسٹر صاحب نے جتنے سوال پوچھے میں نے ان کے بالکل صحیح
جواب دے دیئے ۔ اس طرح میں تیسری جماعت کاامتحان پاس کرنے میں کامیاب ہوگیا
۔ مجھے اس لمحے ہیڈ ماسٹر صاحب کی بات اب تک یاد ہے کہ میں اس بچے کی
نفسیات نہیں سمجھ سکا یہ اپنے والد سے اتنا پیار کرتا ہے کہ اس کے بغیر اسے
کچھ بھی یادنہیں رہتا اور جب والدسامنے ہوتا ہے تو سب کچھ یاد آجاتا ہے ۔
یہ والد کے بغیر کیسے زندگی گزارے گا .............
آج جب والد کو فوت ہوئے 20 سال ہوچکے ہیں شاید ہی کوئی رات ایسی گئی ہو جب
میں خواب کی حالت میں وہ نہیں ملتے۔ میں آنکھیں بند کرتا ہو ں تو اس دنیا
میں پہنچ جاتا ہوں جہاں میرے والدین موجود ہیں ۔ بیدار ہوتا ہوں تو اس دنیا
میں آجاتا ہوں جہاں بیوی بچے میرے منتظر دکھائی دیتے ہیں ۔خواب میں بھی وہ
ریلوے اسٹیشن کے ارد گرد اور ٹرینوں پر ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے دکھائی دیتے
ہیں کبھی کسی ٹرین کو شنٹنگ کررہے ہیں کبھی کیبن پر لیور کھینچ کر تیزگام
کے سگنل ڈاؤن کررہے ہیں تو کبھی پلیٹ فارم پر سیاہ رنگ کی وردی پہن کر چہل
قدمی کر رہے ہیں اس کے باوجود کہ وہ اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں لیکن ان کی
روح ریلوے اسٹیشن کے اردگرد ہی گھومتی دکھائی دیتی ہے ۔یہ ان کی ریلوے سے
والہانہ محبت کا کھلا اظہار ہے ۔
اس لمحے مجھے ایف اے انگلش کی کتاب میں شامل ایک کہانی یاد آگئی جو
انگلستان میں ایک سٹیم انجن ڈرائیور کے گرد گھومتی تھی ۔ مصنف لکھتا ہے کہ
ریلوے کا ایک ڈرائیور ریٹائر ہوتا ہے۔ حسن اتفاق سے انجن کو بھی ناقابل
استعمال تصور کرکے میوزیم میں کھڑا کردیاجاتا ہے ۔ ریٹائر ہونے کے باوجود
اس ڈرائیور کا یہ معمول ہوتا ہے کہ وہ ہر صبح صاف ستھری خوبصورت وردی پہن
کر ریلوے میوزیم (عجائب گھر) پہنچ جاتا اور وہاں آنے والے لوگوں کو انجن کے
بارے میں بریف کرتا جب یہ کام کرتا کرتا تھک جاتا تو واپس گھر واپس آجاتاہے
۔ ایک دن وہ خواب دیکھتا ہے کہ وہ پہلے کی طرح جوان ہے اور اپنے انجن پر
سوار گاڑی کو لے کر کھیت کھلیانوں کے درمیان سے وسل بجاتا ہوا گزر رہاہے وہ
اس لمحے بہت خوش ہوتا ہے جب بیدار ہوا تو وہ پہلے سے کہیں زیادہ خوش و خرم
دکھائی دیتا ہے اس نے بیٹی کے ہاتھ کا بنایا ہوا ناشتہ کیااور میوزیم کی
طرف روانہ ہوگیا بیٹی نے اتنی جلدی جانے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ آج
رات میں نے ایک خواب دیکھا جس میں ٗ پہلے کی طرح اسی انجن پر گاڑی کو
بھاگتا ہوا لے جارہا ہوں میرا انجن بھی جوان ہے اور میں بھی ۔پتہ نہیں آج
مجھے اپنے انجن کی یاد بہت ستارہی ہے میں جلدی سے جلدی میوزیم پہنچ جانا
چاہتاہوں ۔
وہ انتہائی جذباتی انداز میں میوزیم پہنچتا ہے اور وہاں بہت سارے لوگ ارد
گرد کھڑے تجسس کی نگاہ سے اس انجن کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ڈرائیور قہقہے
مارتا ہوا انجن پر سوار ہوجاتا ہے اور لوگوں کو انجن کے بارے میں قصے سنانے
شروع کردیتا ہے کہ اسی اثنا میں میوزیم کا نیا گارڈ وہاں پہنچ جاتا ہے اور
اسے انجن سے نیچے اترنے کا حکم دیتا ہے وہ گارڈ کو بتاتا ہے کہ میں ہی اس
انجن کا ڈرائیور رہا ہوں میں نے ساری زندگی اس انجن کے ساتھ گزاری ہے از
راہ کرم مجھے اس انجن سے نیچے نہ اتارا جائے ۔میں اس کی جدائی برداشت نہیں
کرسکتا یہ میری اور میں اس کی زندگی ہوں ۔ ڈرائیور کی باتوں کا نئے گارڈ پر
کوئی اثر نہیں پڑتا اور وہ بازو سے پکڑ کر ڈرائیور کو نیچے اتار دیتا ہے۔
ایک تو انجن سے جدائی اور دوسرا لوگوں کے سامنے بے عزتی کاغم اسے گھیر لیتا
ہے وہ تیزی سے قدم اٹھاتا ہوا اپنے گھر پہنچ جاتا ہے بیٹی جلد واپسی کے
بارے میں استفسار کرتی ہے لیکن وہ بیٹی سے بات کیے بغیر ہی اپنے کمرے میں
جاکرلیٹ جاتا ہے ۔ دو پہر کو جب کھانے کے لیے انہیں بیدار کیا جاتا ہے تو
وہ اپنے بیڈ پر مردہ حالت میں پایا جاتا ہے ۔ رائٹر لکھتا ہے کہ یہ انسانی
فطرت کا اہم ترین حصہ ہے کہ انسان جس سے محبت کرتا ہے اس سے جدائی برداشت
نہیں کرتا ۔ جدائی موت کا دوسرا نام ہے ۔ کچھ یہی عالم میرے والد کا بھی ہے
جو دنیا سے رخصت ہونے کے باوجود مجھے ریلوے اسٹیشن کے اردگر د ہی گھومتے
دکھائی دیتے ہیں یہ ان کی ریلوے سے محبت کا انوکھا اور انمٹ اظہار ہے ۔
اسی طرح ایک ڈرامہ پاکستان ٹیلی ویژن پر کچھ عرصہ پہلے دکھایا گیا تھا کہ
ایک گارڈ ریٹائر ہونے کے باوجود اپنی وردی پہن ریلوے لائن کے قریب سبز اور
سرخ جھنڈی لے کر صبح سے بیٹھ جاتا ہے اور شام تک جتنی بھی گاڑیاں وہاں سے
گزرتی ہیں وہ ان کو پورے پروٹوکول کے ساتھ سبزجھنڈی دکھا کر اپنے قلبی سکون
کا اظہار کرتا ہے جب تھک جاتا ہے تو پھر گھر واپس آکر اپنی جوانی کے قصے
لوگوں کو سناتا ہے جو دوران ملازمت پیش آتے رہے ہیں ۔
بات کچھ لمبی ہوگئی نہ صرف میرے والد کے خون میں بھی ریلوے کی محبت رچی بسی
تھی بلکہ ہمارے خاندان کے جتنے بھی گھر انے ہیں وہ ریلوے لائن کے اتنے ہی
نزدیک ہیں جہاں چلتی ہوئی گاڑی کی مدھر آوازاور انجن کے وسل کی آواز کانوں
میں رس گھول سکے ۔ ہمیں دنیا جہان کے میوزک سے زیادہ اچھی آواز چلتی ہوئی
گاڑی اور انجن کی لگتی ہے پھر چلتی ہوئی گاڑی جب کانٹے بدلتی ہے اس وقت
جوردھم پیدا ہوتا ہے وہی آواز ہماری محبوب ترین آواز کہلاتی ہے ۔
بہرکیف اے ٹی او ( ملک قمر الحق) کو اپنے قریب دیکھ کر طبیعت خوش ہوگئی اور
یقینا میرے والد کی روح بھی بہت خوش ہوگی کیونکہ ریلوے کا وہ افسر جس کے
صرف گزرنے سے ریلوے ملازمین کے سانس رک جاتے تھے وہ اپنے چہرے پر مسکراہٹ
سجائے ہمارے درمیان اس لیے موجود تھا کہ میں اس سے کہیں بڑے افسر کا مہمان
تھا ۔ آج اس کا جاہ و جلال ختم ہوچکا تھا اور وہ ایک عام انسان کی طرح ہم
سے بات بھی کررہا تھا ۔ قدرت کا یہ ہم پر بہت بڑا احسان تھا ۔ اسی اثنا میں
چائے اور بسکٹ لے کر ملازم کمرے میں داخل ہوا ہم سب نے چائے پی ۔ بڑے افسر
کی چائے بھی کسی اعزاز سے کم نہیں ہوتی لیکن مجھے یہ کہنے میں کچھ عار
محسوس نہیں ہوتی کہ میں جس بڑے افسر جناب عبدالحمید رازی صاحب ڈویژنل
سپرنٹنڈنٹ کا مہمان تھا وہ افسر کی بجائے بہت ہی ہر دلعزیز انسان دکھائی
دیا اس کی شخصیت اور تربیت کے پیچھے نہ جانے کس عظیم ماں اور باپ کا ہاتھ
تھا ۔ مجھے اس کا علم نہیں تھالیکن جس بھی سنگ تراش نے ان کی شخصیت کو
تراشا ہے بہت کمال کیا ہے ۔بے شک ایسے ہی اچھے اور بااخلاق انسان ایک پھول
کی مانند ہوتے ہیں جن کی خوشبو کسی دائرے کی محتاج نہیں ہواکرتی وہ جہاں
بھی ہوتے ہیں اپنے وجود کو منواتے ہیں بلکہ کرسی پر بیٹھنے سے پہلے اپنے رب
کا شکر بھی ادا کرتے ہیں کیونکہ کرسیاں تو وہی رہتی ہیں لیکن انسانوں کے
بدلنے میں دیر نہیں لگتی ۔ یہی سوچ جناب عبدالحمیدرازی صاحب کی شخصیت میں
نکھار پیداکرچکی ہے۔ میں نے ان سے مخاطب ہوکر کہا کہ مجھے زندگی میں چار
شخصیات بہت عظیم نظر آئی ہیں ایک ڈاکٹر محمد عارف ( جو سیکرٹری فنانس حکومت
پنجاب اور بنک آف پنجاب کے چیرمین بھی رہ چکے ہیں ) دوسری جاوید احمد قریشی
( سابق چیف سیکرٹری پنجاب ) جاوید محمود ( سابق چیف سیکرٹری پنجاب اور
موجود ہ صوبائی محتسب اعلی ) اور اب آپ کو بھی میں ایسے ہی عظیم لوگوں میں
شمار کرتا ہوں جن کو ملنے والا کوئی شخص آپ کی شخصیت کے حصار سے باہر نہیں
نکل سکتا ۔
میرے سوال کا جواب دیتے ہوئے رازی صاحب نے بتایا کہ میں نے آٹھ کتابیں لکھی
ہیں جن میں زیادہ تر پنجابی زبان میں ہیں پھر انہوں نے اپنی ایک کتاب
"دھند" مجھے دی ۔ جو کسی اعزاز سے کم نہیں تھی ۔ اس کتاب کی بیشتر کہانیاں
میں پڑھ چکا ہوں جو بہت ہی خوبصورت پیرائے میں معاشرتی رویوں کا احاطہ کرتی
ہوئی لکھی گئی ہیں اس کتاب پر میں کسی الگ مضمون میں تبصرہ کروں گا لیکن
یہاں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کتاب سب سے اچھا دوست ہے اگر کسی شخص کے
اندر جھانکنے کی ضرورت محسوس ہو تو اس کی لکھی ہوئی کتاب پڑھ لی جائے تو اس
کے جذبات اور احساسات سے بخوبی آگاہی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ پنجابی لکھنی اور
پڑھنی دونوں بہت مشکل ہے اس کے باوجود کہ ہم خود کو پنجابی ہیں اور پنجابی
گھرانوں میں پیدا ہوئے ہیں لیکن پنجابی کو ہم وہ مقام نہیں دے سکے جو اس کو
دینا چاہیئے تھا یہی وجہ ہے کہ پنجابی لکھنے والوں میں چند ناموں ہی بہت
نمایاں دکھائی دیتے ہیں ۔ استاد دامن ٗ فرخندہ لودھی ٗ منشا یاد ٗ مسعود
کھدر پوش اور عبدالحمید رازی ۔ اس لمحے میں نے بھی اپنی دو کتابیں قومی
ہیرو حصہ اول( اس کتاب کاانتساب میں نے اپنے والد کے نام کیا تھا اور تصویر
کے ساتھ ان کی مختصر زندگی کی کہانی بھی درج کی تھی میں نے یہ سوچ کر اپنے
والد کو قومی ہیرو کتاب میں شامل کیا تھا کہ میرے والد بھی کسی ہیرو سے کم
نہیں ہیں ) اور تخلیق کائنات رازی صاحب کو پیش کی جس پر انہوں نے خوشی
کااظہار کیا ۔
اسی اثناء میں پولیس کی وردی میں ملبوس ایک جوان افسر ڈی ایس آفس میں داخل
ہوا اور رازی صاحب کو سیلوٹ کرکے کرسی پر بیٹھ گیا ۔ یہ غالبا ریلوے پولیس
کا کوئی ڈی ایس پی ہوگا ۔اسے دیکھ کر مجھے ریلوے پولیس کے تمام کارنامے یاد
آگئے جو یہ ریلوے میں اکثر و بیشتر انجام دیتے ہیں۔ یہ ریلوے کا تحفظ کم ٗ
چوری کی افزائش زیادہ کرتے ہیں کیونکہ کراچی سے پشاور تک جتنی بھی ریلوے
زمینوں پر کچی آبادیاں قائم ہوئی ہیں وہ ریلوے پولیس کی ہی شاخسانہ تصور کی
جاتی ہیں ان کی مٹھی گرم کرکے جہاں چاہو قبضہ کرلو ۔ بلکہ ریلوے پھاٹک ٗ
اسٹیشن کے اردو گرد ٗ جتنے بھی خوانچہ فروش موجود ہیں وہ روزانہ ریلوے
پولیس کو بھتہ دیتے ہیں حتی کہ ریلوے ٹرین کے ساتھ سیکورٹی مقصد کے تحت
چلنے والے پولیس اہلکار بھی پیسے لے کر بغیر ٹکٹ مسافروں کو اپنے ڈبے میں
بٹھانے سے گریز نہیں کرتے ۔ جب گاڑی چلتی ہے تو کچھ مسافروں کے ٹکٹوں کے
پیسے گارڈ جیب میں ڈال لیتا ہے تو کچھ ایس ٹی اپنی جیب میں ٗ پھر پولیس
والے کہاں پیچھے رہنے والے ہیں گویا اگر پاکستان میں ریلوے کا نظام تباہی
کے دہانے میں پہنچ چکا ہے تو اس میں سب سے زیادہ ہاتھ ریلوے پولیس کا ہے
۔عرف عام میں ریلوے پولیس کو چوروں کی نانی کہاجاتا ہے کیونکہ وہ چیز جو
کسی اور جگہ میسر نہیں ہوتی وہ ریلوے پولیس کے ملازمین کے گھروں میں
باآسانی مل جاتی ہے ۔ریلوے ٹرین کے ذریعے آنے والی لکڑی ہو ٗ مٹی کا تیل ہو
ٗ مچھلی ہو ٗ دودھ ہو ٗ چینی ہو یا ڈیزل ہو ۔ وہ پہلے ریلوے پولیس کے
ملازمین کے گھروں پہنچتا ہے پھر باقی بچا کھچا منزل مقصود پر پہنچتا ہے جن
کو رکھوالی کے لیے ملازم رکھا جاتا ہے جب وہی چوری کرنے لگیں تو وہ کونسا
ادارہ ہے جو اپنے وجود کو برقرار رکھ سکتا ریلوے اس کی سب سے بہترین مثال
ہے ۔
دوران گفتگو میں نے رازی صاحب سے درخواست کی کہ بے شک آپ بہت اچھے افسر اور
اعلی انسان ہیں اپنے ملازمین کے لیے بہت اچھا رویہ اختیار کرتے ہیں لیکن
ریلوے کی بوسیدگی ٗ کارکردگی اور ماتحت ملازمین کے مسائل کو جاننے کے لیے
آپ کو بغیر کسی پروٹوکول کے کسی بھی چھوٹے بڑے ریلوے اسٹیشن کا اچانک دورہ
کرنا چاہیئے تاکہ آپ اپنی آنکھوں سے ملازمین کے مسائل اور ریلوے کے تباہی
کے مناظر دیکھ سکیں ۔ اس کے باوجود کہ کسی نہ کسی شکل میں ریل گاڑیاں چل
رہی ہیں لیکن ان گاڑیوں کو چلانے والوں کے حالات اور مسائل سے آگاہی آپ کی
کارناموں میں مزید نکھار پیدا کرسکتی ہے پھر آپ کا یہ عمل رب کائنات کی نظر
میں بھی آپ کی نیکیوں میں اضافے کا باعث بنے گا اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو
میں بھی آپ کے ساتھ چل پڑوں گا ۔ انہوں نے میری بات کو توجہ سے سننے کے بعد
فرمایا ٹھیک ہے ایسا ہی کیاجائے گا ۔ دیکھتے ہیں اب ڈی ایس صاحب اپنی بات
کا کس حد تک وزن رکھتے ہیں ۔
ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ جناب عبدالحمید رازی صاحب کے آفس میں بیٹھ کر یوں محسوس
ہوا جیسے اے ٹی او صاحب کا جاہ و جلال ختم ہوچکا ہے وہ ہمیں ایک عام انسان
دے رہے تھے پھر ہم نے چند یاد گار تصویریں بنوائیں اور میں نے کنٹرولر آفس
دیکھنے کی پھر فرمائش کی ۔
رازی صاحب نے اے ٹی او صاحب کو حکم دیا کہ وہ ہمیں ساتھ لے جاکر کنٹرولر
آفس دکھائیں۔اے ٹی او صاحب ہمارے ساتھ ساتھ پیدل ہی چلتے ہوئے کنٹرولر آفس
کی جانب گامزن تھے نہ کسی نے ہوٹر بجایا نہ کسی نے رک کر سلام کیا وہ اپنی
ہی ذات میں گم خاموشی سے کنٹرولر آفس پہنچ گئے لیکن ہم نے محسوس کیا کہ
رازی صاحب کے کمرے میں اے ٹی او صاحب جتنے خوش اخلاق نظر آرہے تھے باہر
نکلتے ہی اس خوش اخلاقی میں کچھ کمی واقع ہوگئی ہے اور جسم کو کلف لگنا
شروع ہوگیا ہے ۔اے ٹی او صاحب نے کنٹرولر آفس میں داخل ہوتے ہی سب سے بڑے
میز پر بیٹھے ہوئے ایک مصروف ترین انسان سے ہمارا تعارف کروایا ۔وہ بہت خوش
اخلاقی سے ملے لیکن ان کا دماغ ریلوے لائنوں پر دوڑتی ہوئی گاڑیوں کے تعاقب
میں ہی محسوس ہوا۔میں نے سوچا یقینا یہی وہ خوفناک کنٹرولر صاحب ہیں جو
پورے لاہور ڈویژن کی گاڑیوں کی نقل و حرکت کو اپنی ذہانت سے کنٹرول کرتے
ہیں ۔ پھر ہمیں لاہور تا فیصل آباد سیکشن کے ٹریفک کوکنٹرول کرنے والے روم
میں لے جایاگیا وہاں ایک نوجوان اپنے سامنے لگے ہوئے نقشے کو مسلسل گھور
رہا تھا جبکہ ایک ڈایاگرام نما لکیروں والا پیپر اس کے سامنے تھا جیسے جیسے
ٹرین ایک اسٹیشن سے دوسرے اسٹیشن پہنچتی تھی ویسے ویسے ہی وہ اپنے ڈایاگرام
میں لکیر کھینچ رہا تھا پھر ہمیں لاہور تا ساہی وال سیکشن والے روم میں لے
جایا گیا وہاں بھی ایک بھاری بھرکم لیکن مستعد نوجوان بیٹھا دکھائی دیا اس
کے سامنے بھی ہر بڑے اسٹیشن کے تمام لائنوں کو ظاہر کرنے والی لکیریں
دکھائی دے رہی تھیں میرے سوال پر اے ٹی او صاحب نے بتایا کہ نہ صرف تمام
آنے اور جانے والی ٹرینوں کی موومنٹ کو یہاں سے کنٹرول کیا جاتا ہے بلکہ یہ
بھی بتایا جاتا ہے کہ کونسی ٹرین اسٹیشن کی کس لائن پر کھڑی کرنی ہے اور کس
لائن سے گزاری جائے ۔یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ عام طور پر درمیانے درجے کے
اسٹیشن پر دونوں جانب بنے ہوئے پلیٹ فارم کے درمیان چار لائنیں ہوتی ہیں
پلیٹ فارم کے ساتھ والی لائنوں کو مین لائن کہاجاتاہے جبکہ دوسری لائنوں
کولوپ لائن کے لفظ سے پکارا جاتا ہے جن ٹرینوں کواسٹیشن پر رکنا ہوتا ہے
انہیں پلیٹ فارم کے ساتھ والی لائن پر لایا جاتا ہے جبکہ بغیر رکے چلنے
والی ایکسپریس ٹرینوں کو درمیانی لائنوں کے ذریعے گزارا جاتا ہے ۔یہاں کچھ
دیر ٹھہرکر مجھے خانہ کعبہ کاغلاف لے جانے والی ایکسپریس ٹرین کو روکنے کا
عمل یاد آگیا جس کے رکنے پر کنٹرولر حبیب آباد اسٹیشن کے تمام عملے پر برس
رہا تھا شاید کسی ایکسپریس ٹرین کو بغیر سٹاپ کے روکنے پر بھی کنٹرولر کا
یہی رویہ ہوتا ہوگا ۔ اب یہ نہیں پتہ چلا کہ بڑی سی میز پر بیٹھا ہوا بڑا
سا افسر (شاید وہی کنٹرولر ہوگا) برستا ہوگا یا چھوٹے چھوٹے کمروں میں
بیٹھنے والے ریلوے ملازمین پر غصہ اتارتے ہیں ۔جیسے ایک حضرت عزرائیل علیہ
السلام ہر روز دنیا کے لاکھوں انسانوں کی بیک وقت روح قبض کرتے ہیں اور اس
کام میں لاکھوں فرشتے حضرت عزرائیل علیہ السلام کی معاونت کرتے ہیں شاید
اسی طرح کنٹرولر آفس میں بھی کنٹرولر تو ایک ہی ہوگالیکن اس کے معاون فرشتے
اور بھی کافی ہوں گے تو ہر ریلوے اسٹیشن کے عملے بطور خاص اے ایس ایم پر
روزانہ گولہ باری کرتے ہوں گے ۔
اس کے ساتھ ہی ڈی ایس آفس کا وہ دورہ اختتام پذیر ہوا جس کی خوشگوار یادیں
ہمیشہ میرے سینے میں دفن رہیں گی ۔والد مرحوم سے ملاقات تو میری روزانہ
خواب میں ہوتی ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ کسی دن ڈی ایس آفس کی میٹنگ کے
حوالے سے بھی بات ضرور ہوگی تو میرے والد یقینا بہت خوش ہوں گے کہ وہ کام
جو وہ خود نہیں کرسکے وہ ان کے بیٹے نے اپنے قلم سے انجام دے دیا ہے ۔ پھر
دل سے یہی آہ نکلتی ہے کہ کاش یہ سب کچھ دیکھنے کے لیے میرے والد زندہ ہوتے
تومیری اس کامیابی پر کتنے خوش ہوتے ۔ |