تعلیمی ادارے این جی اوز کے رحم وکرم پر کیوں؟
(Ghulam Abbas Siddiqui, Lahore)
پاکستان کا نظام تعلیم مکمل طور
پر اغیار کے قبضے میں ہے پہلے تعلیمی پالیسیاں وارد ہوتی تھیں جنھیں ہمارے
ارباب اقتدار پاکستان کے نظام تعلیم پر نافذ کرتے تھے اب برائے راست اس کا
کنٹرول یورپ ومغرب نے سنبھال لیا ہے وہ جس طرح چاہتے ہیں ہمارے نظام تعلیم
کا قبلہ موڑ دیتے ہیں کوئی انھیں پوچھنے والا نہیں ،تعلیمی اصلاحات کے نام
پر تعلیمی اداروں میں ان کی پروردہ غیر سرکاری این جی اوز کی ایجارہ داری
ہے جو کسی کو خاطر میں نہیں لاتیں جو چاہتی ہیں تعلیمی اداروں میں کرتی ہیں
ہمارے حکمران تعلیمی اداروں کو ماضی میں بھی انہی این جی اوز کے حوالے کرنے
کے بارے میں سوچتے رہے اس پرعمل بھی ہوا ۔اب بھی حکومت پنجاب نے چھ سو ہائر
سیکنڈری سکولز میں سے تین سو ہائر سیکنڈری سکولز کو این جی اوز کے حوالے
کرنے کا عزم کرلیا ہے جسے عملی جامہ پہنانے کے لئے مشاورت کا عمل جاری ہے
ایک خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق پنجاب حکومت کے اس حوالے سے این جی
اوز کے ساتھ معاملات چل رہے ہیں اور جیسے ہی اس حوالے سے تمام شرائط طے پا
جائیں گی تو لاہور سمیت پنجاب دیگر شہروں کے ہائر سیکنڈری سکولز این جی اوز
کے حوالے کر دئیے جائیں گے یہ تجویز زیر غور ہے کہ اساتذہ انہی سکولز میں
بطور سرکاری ملازم فرائض سرانجام دیتے رہیں گے مگر اساتذہ کی کارکردگی سے
مطمعئن نہ ہونے پر این جی اوز کسی بھی استاد کوواپس محکمہ کی ڈسپوزل پر دے
سکے گی۔
ماضی میں حکومت نے اسلامی نظریات کا حامل مواد نصاب سے خارج ،نصاب تعلیم کو
اردو سے انگلش میڈیم،جنسی تعلیم کے اجراء جیسے اقدام بھی غیر ملکی ڈکٹیشن
پر کیے جس پر قوم کے ہر فرد کو تحفظات ہیں موجودہ نیم سیکولر نظام تعلیم سے
قوم مطمعئن نہیں ہے راقم نے خود مختلف سکول وکالجز کے طلبہ سے رائے لی تو
پتہ چلا کہ طلبہ کی اٹھانوے فیصد تعداد اردو میں تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے
انگلش میڈیم کی وجہ سے پریشان ہے کہ ایک انگلش کی کتاب کا امتحان دینا مشکل
ہوتا تھا چے جائیکہ اب ساری کتابیں انگلش میں ہیں تو کامیابی کیسے ملے
گی؟جب نصاب تعلیم اردو میڈیم تھا تب کی شرح کامیابی اور اب کی شرح میں زمین
وآسمان کا فرق ہے پہلے کامیاب ہونے والے طلبہ کی تعداد اب کی نسبت بہت
زیادہ تھی یہ مثال اس لئے دی کہ حکمرانوں کو پتہ چلے حکومت کے اس فیصلے کے
تعلیم پر منفی اثرات مرتب ہوئے کثیر رقم خرچ کرنے کے باوجود بھی مطلوبہ شرح
تعلیم حاصل نہیں کی جا سکی ، قوم کے بچے انگلش میڈیم نصاب تعلیم کو پسند ہی
نہیں کرتے ان کا کہنا ہے کہ یہ طریقہ تعلیم فطری مزاج کے خلاف ہے نصاب
تعلیم سارے ملک میں یکساں قومی زبان میں اسلامی اقداروروایا ت کا امین ہونا
چاہیے ۔اس کی طرف توجہ نہیں دی گئی جس کے باعث قومی زبان کا وقار آئے زوال
پذیرہوتا جا رہا ہے۔
اب حکومت نے دوبارہ سرکار ی تعلیمی اداروں کو غیر ملکی این جی اوز کے حوالے
کرنے کا سلسلہ شروع کردیاہے جس کے نتائج بھی منفی ہی مرتب ہوں گے سب سے
پہلے حکومت قوم کو یہ بتائے کہ اس سے قبل جو سکولز غیر سرکاری این جی اوز
کو دئیے اس کا رزلٹ کا نکلا ؟کیا مطلوبہ ہدف حاصل کرلیا گیا یا نہیں؟ جواب
یقینا نفی میں آئے گا یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسے سکولز میں تعلیم کا
معیار بلند ہونے کی بجائے گرا ہے بچوں کو معیاری،جدید تعلیم کے نام پر
انگلش کے الفاظ کا رٹہ لگوایا جارہا ہے بچوں کو سمجھ ہی نہیں کہ وہ کیا پڑھ
رہے ہیں ان غیر سرکاری این جی اوز کی مداخلت کے باعث سٹاف متعدد مسائل کا
شکار ہوا ہے اساتذہ کا کہنا ہے کہ غیرسرکاری این جی اوز کو تعلیمی ادارے
دینے سے تعلیمی سسٹم میں خلل پڑا ہے بے جا مداخلت کا مقصد اساتذہ کو ہراساں
کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں ۔لوگوں نے خدشہ ظاہر کیاہے کہ نصاب تعلیم سیکولر
ہونے کے باعث اساتذہ بچوں کی اسلامی تربیت کرسکتے تھے اس خدشے کے پیش نظر
غیر ملکی این جی اوز کو تعلیمی ادارے دئیے گئے تاکہ اساتذہ اپنی مدد آپ کے
تحت بھی تعلیمی اداروں میں بچوں کی اسلامی تربیت نہ کرسکیں انہیں اس فرض سے
روکا جائے تاکہ نسل نو کو لادین کیا جا سکے ۔برکیف این جی اوز کو تعلیمی
ادارے دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جیسے چاہیں پاکستان کے نظام تعلیم کی بیخ
کنی کرتے پھریں انھیں پوچھنے والا کوئی نہ رہے ۔اس وقت بھی پرائمری
امتحانات ہورہے ہیں مگر ان میں اسلامیات،عربی،معاشرتی علوم کے امتحانات
نہیں ہورہے ان بنیادی مضامین کے پرچے نہ لینے کا یہی مطلب ہے کہ ان مضامین
کو غیر ضروری، حرف غلط سمجھ کر غیر اعلانیہ طور پر ختم کردیا گیا ہے ،ہمارے
ملک کا یہ المیہ ہے کہ ساری دنیا کے بنیادی اصول سے راہ فرار اختیار کرتے
ہوئے۔ ہمارے حکمرانوں نے اپنا نظام تعلیم غیر ملکیوں کو دے دیا ہے جس سے
قوم کے اپنے نظریات،افکار،تہذیب وتمدن، اقدار و روایات،معاشرت بری طرح
مجروح ہوئے ہیں اگریہی سلسلہ جاری رہا تو ہمیں اپنی پہچان قائم رکھنا مشکل
ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا کیونکہ قانون فطرت ہے کہ اہل زبان کو ان کی زبان
میں تعلیم دی جائے لیجیئے دوران تحریر اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کیا گیا
ایک بیان سامنے آیا ہے کہ شرح تعلیم بڑھانا ہے تو مادری زبان میں تعلیم دیں
،زبان کے مسائل کی وجہ سے بچے ا چھی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہتے ہیں
اور دوسروں سے پیچھے رہ جاتے ہیں کسی بچے کی مادری ز بان خواہ کوئی بھی ہو
حصول تعلیم کے لئے اسے رائج زبان آنا ضروری ہے مادری زبان میں تعلیم نہ
دینے سے حصول علم میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے ،زبان کے مسائل کی کی وجہ سے
اقلیت سے تعلق رکھنے والے معاشرے میں گھل مل نہیں سکتے۔اس رپورٹ کی اشاعت
ہمارے موقف پر مہر ثبت ہے کہ پاکستان کا نظام تعلیم قومی زبان،اسلامی
اقداروروایات کا امین ہونا چاہیے ۔اپنا نظام تعلیم بچانے ،دنیا میں ترقی
حاصل کرنے کے لئے حکومت پاکستان کو قومی زبان میں اسلامی اقداروروایات کا
امین نصاب و نظام تعلیم رائج ،غیر ملکی این جی اوز کے حوالے تعلیمی ادارے
کرنے کی بجائے اپنے ذاتی وسائل بروئے کار لا کر شرح خواندگی میں اضافے کے
لئے اقدام کرنا ہوں گے حالیہ اقدام(تعلیمی ادارے غیر سرکاری این جی اوز
کودینا) علم دوستی نہیں بلکہ علم دشمنی پر مبنی ہیں جن کا ادراک حکومت کو
لازمی ہونا چاہیے۔اس کے بغیر ہم ایک متوازن ،ترقی یافتہ،علم دوست پاکستان
کی تشکیل نہیں کر سکتے کیونکہ جن قوموں نے ترقی کی انھوں نے اپنی قومی زبان
کو ترجیح دی غیروں کی زبان کو اپنے اوپر مسلط نہیں ہونے دیا تب ترقی ملی
پاکستان کو بھی اسی وقت ترقی نصیب ہوگی جب اپنا نظام تعلیم خود اپنے اسلامی
نظریہ تعلیم کے مطابق نہیں ڈھال لیتا۔ |
|