متاثرین شمالی وزیرستان اور ننھی نِہال
(Shahbaz Ghous Bukhari, Islamabad)
وزیرستان کادشوار گزار پہاڑی
علاقہ گیارہ ہزار پانچ سو پچاسی مربع کلو میٹر پر پھیلا ہواہے اور یہ شمالی
وزیرستان اور جنوبی وزیرستان ایجنسیوں میں منقسم ہے۔ان علاقوں کی آبادی کا
تخمینہ بالترتیب چھ اور آٹھ لاکھ لگایا گیا ہے۔جنوبی وزیرستان کا علاقہ
دریاے ٹوچی اور دریاے گومل کے درمیان پشاور کے مغرب و جنوب مغرب میں آتا
ہے۔شمالی اور جنوبی وزیرستان کی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں۔شمالی وزیرستان
پاکستان کا ایک قبائلی علاقہ ہے جسے شمالی وزیرستان ایجنسی بھی کہا جاتا ہے
جو کہ بنوں ڈویژن کے سنگم پر واقع ہے۔اسکا صدر مقام میران شاہ ہے۔
گزشتہ دس سال سے پاکستان دہشتگردی کا شکار ہے 25فروری 2015تک ملک میں
دہشتگردی کے واقعات میں53ہزار افراد نشانہ بن چکے ہیں۔اسکے علاوہ 4سو کے
قریب خود کش حملے اور 4ہزار950کے قریب بم دھماکے ہو چکے ہیں جس میں لاکھوں
معصوم افراد زخمی ہوے اور ہزاروں افراد جان کی بازی ہار گئے۔اسکے علاوہ
پاکستان کو 105ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے جس سے پاکستانی معشیت تباہ ہو
کر رہ گئی ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔اس وقت بھی
پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ،بھتہ خوری اور اسٹریٹ کرائم عام بات ہے۔امن و امان
کی یہ صورتحال ہے کہ اسلام آباد سے لیکر کراچی تک کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔
ہم ایک ایسی جنگ میں داخل ہو چکے ہیں جہاں ہمیں ایک ساتھ کئی دشمنوں کا
سامنا کرنا ہے،ظاہراََ تو ہمیں طالبان کی صورت میں دہشتگردی کا سامنا ہے
لیکن پسِ پردہ کئی ایسی طاقتیں ہیں جو ایک طرف تو ہمیں دوستی کا ہاتھ بڑھا
رہی ہیں دوسری طرف حکومت مخالف کاروایؤں میں ملوث ہیں۔پاکستان کے تمام اہلِ
فکر کا یہی اتفاق ہے کہ حکومت مخالف کاروایؤں میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے جو
بھارت،اسرائیل اور امریکہ کی صورت میں متعددبار اشکار ہو چکا ہے۔اور یہی
قوتیں پاکستان میں عدم استحکام چاہتی ہیں۔ایک سابق اسرایئلی وزیراعظم لیوی
اشکول کے مطابق پاکستان اسرائیل کے لئے عربوں سے بڑا خطرہ ہے یہ بیان لندن
کے اخبار Jewish Cronic میں شائع ہواتھا۔
متاثرین شمالی وزیرستان نہایت سادہ لو ح لوگ ہیں،مہمانوازی انکا خاصا ہے
اور کوئی مہمان گھر سے کچھ کھائے بنا نہیں جاتا،حالانکہ وہ لوگ پردیس میں
ہیں لیکن انہوں نے اپنا یہ طرہ امتیاز برقرار رکھا ہوا ہے میران شاہ اور
میر علی کے اکثر خاندان وزیر اور داوڑ قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں،لیکن جنوبی
وزیرستان میں محسود قبائل کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ان کے نوجوان
ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے وابستہ ہیں اور امارات میں بھی اس علاقے کے ہزاروں
نوجوان محنت مزدوری کر رہے ہیں۔پہاڑی علاقے کی وجہ سے مرد و خواتین مضبوط
اور توانا جسموں کے مالک ہیں۔سکول اور کالجز نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے
نوجوانوں میں تعلیم کا فقدان ہے۔لیکن وسیع پیمانے پر ٹرانسپورٹ کے کاروبار
اور عرب امارات میں ہونے کی وجہ سے خاصے مالدار ہیں۔
آپریشن ضربِ عزب کے بعد بنوں ڈویثرن متاثرین شمالی وزیرستان کا گڑھ بنا ہوا
ہے۔تحصیل بنوں کی 48 یو نین کونسلز میں اسوقت 8300000متاثرین رہائش پذئر
ہیں۔آرمی،وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے علاوہ سینکڑوں فلاحی ادارے دن رات
متاثرین کی امدادی سرگرمیوں میں مصروفِ کار ہیں۔بکا خیل کیمپ میں ہزاروں
متاثرین رہائش پذیر ہیں جسکا تمام انتظام آرمی کے پاس ہے۔بنوں کے مقامی
لوگوں نے مہاجرین اور انصار کی یاد تازہ کرتے ہوے متاثرین کو اپنے گھر خالی
کر دئے ہیں۔اور متاثرین کے جانوروں کے لئے چارے کا وسیع انتظام کر دیا ہے۔
FF/RF/OFDA/USAIDکے ایک پروگرام کے تحت مجھے FFکے چیف ایگزیکٹو محمدعباس
گوندل کے ساتھ بنوں جانے کا موقع ملا۔ تحصیل بنوں کی یونین کونسل غوری والہ
میں فیلڈ وزٹ کے دوران ایک معصوم گڑیا سے ملاقات ہوئی جس نے اپنا نام ِنہال
بتایا ،اسکی عمر بمشکل آٹھ سال ہوگی لیکن اسکی گفتگو اور اندازِ بیان سے وہ
زیرک اور مدبر خاتون لگ رہی تھی۔ننھی نِہال نے چادر سے پورے جسم کو اوڑھ
رکھا تھاصرف معصوم آنکھیں ظاہر تھیں،جس میں ہزاروں سوال تھے جو جوابات کے
منتظر تھے۔میں نے نہال سے سوال کیا آپ نے اتنا کم عمری میں چادر کیوں اوڑھ
رکھی ہے تو اسکے برجستہ جواب نے مجھے حیران کر دیا اس نے کہا میرا مذہب
مجھے پردہ کی اجازت دیتا ہے اور یہ تو بی بی زینب کی میراث ہے،پردہ کرنے کا
سو شہیدوں کے خون سے زیادہ ثواب ہے۔اسکی معصوم آنکھیں ایک جگہ ساکت تھیں
اور وہ وہ بار بار اپنے ہاتھ کی انگوٹھی کے ساتھ کھیل رہی تھی،ایسے لگ رہا
تھا جیسے اس نے عام سی بات کی ہو۔میں نے دوسرا سوال کیا آپ برقعہ پہن کر
سکول جاتی ہو ،نہال نے جواب دیا ہم پٹھان لڑکیاں پیدا ہونے سے لیکر لحدمیں
اترنے تک برقعہ پہنتی ہیں یہی تو ہماری غیرت کی نشانی ہے۔مجھے اس چھوٹی بچی
کے جوابات میں دلچسپی ہونے لگی۔میں نے فوراــــتیسرا سوال کیا آپکی سہلیلاں
ہیں اس گاوـں میں تو اس نے جواب دیا میری کوئی دوست نہیں ہے ،ہمارے ہاں گھر
کے بڑے فیصلے کرتے ہیں کی ہم نے کدھر اور کس کے ساتھ جانا ہے اور کہاں
دوستی کرنی ہے۔مجھے معصوم نہال کے جوابات پر حیرانگی اور معاشرے کے فرسودہ
رسم و رواج پر غصۂ آرہا تھا جس نے ایک معصوم سے اسکا بچپن چھین لیا تھا۔
اچانک ننھی نِہال نے مجھ سے سوال کیا ــــ․․ یہ جنگ کب ختم ہو گی اور ہم
اپنے گھر کب جائیں گیــ․․اس کے اس سوال کا جواب میرے پاس نہیں تھا،میرے تو
کیا ایوانوں میں بیٹھے ان حکمرانوں کے پاس بھی نہیں ہوگا۔جنھوں نے جنگ تو
شروع کر دی لیکن یہ نہیں سوچا کی اس سے ہزاروں بچیوں کے کچے گھروندے ٹوٹ
جائیں گے ،سینکڑوں لڑکیوں کے ارمان ریزہ ریزہ ہو جائینگے،بیسیوں ماووں کے
اولادیں ان سے جدا ہو جائینگی۔جنگ تو ختم ہو جائیگی لیکن نِہال کا بچپن کون
لوٹائیگا؟ان نوجوان لڑکیوں کے ارمان کون پورے کریگا؟ اس ماں کا دامن کون
ہرا کریگا؟
بنوں سے اسلام آباد تک یہی سوال میرے ذہین میں گردش کرتا رہا اور ننھی
نِہال کا معصوم چہرہ آج بھی اہلِ اقتدار سے سوال کر رہا ہے کہ جنگ کب ختم
ہوگی اور وہ کب گھر جائیگی۔ |
|