شرم و حیا ء
(Ghulam Abbas Siddiqui, Lahore)
کافی دنوں سے لاؤڈسپیکر ایکٹ پر
اپنے موقف کے اظہار کی خواہش پیدا ہو رہی تھی لیکن وقت نہ ہونے کے باعث
تحریر لکھنا مشکل ہو رہا تھا آج 27 فروری بروز جمعتہ المبار ک جب نماز جمعہ
پڑھنے کے لئے مسجد گیا تو مولانا مفتی سعید الرحمان دامت برکاتہم عالیہ شرم
وحیا ء کے عنوان پر گفتگو فرمارہے تھے وہ فرما رہے تھے کہ شرم حیاء کی
اسلام میں بہت اہمیت ہے شرم وحیاء کے بارے میں قرآن وسنت میں بہت تاکید کی
گئی ہے رسول اﷲﷺ کا فرمان ہے کہ جب تیرے اندر سے حیاء ختم ہوجائے تو تمہارے
دل میں جو آئے وہ کرو،ایمان کے لئے شرم وحیاء کا ہونا لازم وملزوم ہے ایمان
وہاں سے رخصت ہوجاتا ہے جہاں بے حیائی،بے شرمی ہو،جب شرم وحیاء ختم ہوتی ہے
تو اس کے نقصانات میں عمر اوررزق کا کم ہونا ،دعاؤں کا قبول نہ ہونابیان
کیا گیا ہے آج رزق کی کمی،بیماریوں کے ڈھیر اس وجہ سے ہیں کہ ہمارے اندر سے
شرم وحیاء کا گوہر نایاب ختم ہوچکا ہے اگر رزق ہے تو اس میں برکت نہیں اس
کی وجہ بھی شرم وحیاء کاختم ہوجانا ہی ہے جب اسلامی معاشرے سے شرم وحیاء
رخصت ہوجاتی ہے تو وہ معاشرہ اسلامی نہیں رہتا ،عزت وناموس کا تصور ختم ہو
جاتا ہے ایک مرتبہ حضرت مسعودابن ابی وقاصؓ جنگی مہم کیلئے فلسطین گئے تو
وہاں کے غیر مسلموں نے اسلامی لشکر کو شکست دینے کیلئے تدابیر سوچنا شروع
کیں تو ان کے مذہبی رہنماء نے ان کو مشورہ دیا کہ تم اپنی حسین وجمیل
عورتیں ان کے ارد گرد پھیلادو او ر اپنی حرام کی کمائی زمین پر وقفے وقفے
سے پھینک دو لوگوں نے ایسا کرنے کی وجہ پوچھی تو ان کے مذہبی رہنما نے کہا
کہ جب یہ مسلمان تمہاری بے پردہ عورتوں کی طرف دیکھیں گئے اور حرام مال
زمین سے اٹھا کر کھائیں گئے تو اس وجہ سے ان کے اندر سے ایمان ختم ہوجائے
گا بعد از جنگ تم غالب آجاؤ گئے جب صبح حضرت مسعود ابن ابی وقاص ؓ اپنے
خیمے سے نکلے تو بے پردہ عورتوں کی چہل پہل دیکھتے ہیں تو صحابہ کرام ؓ کے
لشکر سے خطاب فرماتے ہیں کہ اے محمد ﷺ کے صحابہ ؓ میں تمھیں اپنی نگاہوں کی
حفاظت کا اس طرح حکم دیتا ہوں کہ تم اپنی نگاہیں اپنے قدموں پر رکھ کر
چلوتاریخ شاہد ہے کہ صحابہ کرام ؓ تین د ن وہاں قیام پذیر رہے پندرہ نمازیں
ادا کرنے کیلئے اپنے خیموں سے نکلے مگر کسی ایک نے بھی ان بے پردہ عورتوں
اور زمین پر پڑھے ان کے مال کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا اس شرم
وحیاء کے عمل اور امیر کی اطاعت کے باعث اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطاء
فرمائی ۔مسلمانوں کے اندر سے شرم وحیاء کو ختم کرنے کیلئے ہر دور میں کفار
نے سازشیں کیں لیکن اسلام مسلمانوں کو نگاہیں نیچی رکھ کر باحیاء رہنے کا
حکم دیتا ہے ایک بار رسول اﷲ ﷺ اپنی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ
تشریف فرما تھے کہ نابینا صحابی حضرت ام مکتوم ؓ ادھر آجاتے ہیں تو حضور ﷺ
ام المومنین ؓ کو حکم فرماتے ہیں کہ ام مکتوم ؓ آرہا ہے اندر چلی جاؤ اس پر
ام المومنین ؓ عرض کرتی ہیں کہ یا رسول اﷲ ﷺ ام مکتوم ؓ تو نابینا ہیں ۔
حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ تم تو نابینا نہیں تم تو اس سے پردہ کرو (اس حد یث کی
روح سے آج کے دور کی جدید ایجاد ٹی وی کا دیکھنا بھی حرام ہے چے جائیکہ
عورتوں مردوں کی حیاء باختہ،شرم وحیاء سے عاری مخلوط محفلوں کی اسلام کیسے
اجازت دے سکتا ہے؟) جب کوئی اہل ایمان کسی نامحرم کو دیکھ کر اپنی نگاہیں
نیچی کرلیتا ہے تو اس سے اہل ایمان کوایمان کی ہلاوت،مزہ نصیب ہوتا ہے ایسا
کرنے سے ایک اہل ایمان کا ایمان مضبوط ہوتا ہے عہد خلافت راشدہ ؓکے تابناک
دور فاروقی میں شرم وحیاء کا یہ عالم تھا کہ جب ایک عورت یمن سے زیورات سے
مزین ہوکر مال ودولت کے ہمراہ مدینہ پہنچتی ہے اس کاحضرت سیدنا عمر ابن
خطاب ؓ کو علم ہوتا ہے تو اس عورت سے استفسار فرماتے ہیں کہ سینکڑوں میل کا
سفر تم نے اکیلا کیوں کیا؟ اس نے معقول وجہ بیان کی ۔اس کے بعد امام عدل
وحریت سیدنا عمرفاروق ؓ اس عورت سے پوچھتے ہیں کہ تم نے اتنا لمبا سفر طے
کیا تواہل معاشرے کو کیسا پایا ؟ اس عورت نے جواب دیا کہ سینکڑوں میل کا
فاصلہ طے کیا کسی نے میری طرف آنکھ اٹھا کربھی نہیں دیکھا میں نے یہ محسوس
کیا کہ سارے علاقے کے باسی میرے حقیقی بہن بھائی ہیں۔(آج بھی مسلمانو! ایسی
ہی شرم وحیاء کی ضرورت ہے تاکہ یہ دنیا جنت نظیر وادی بن جائے )جب معاشرے
میں ایسی شرم وحیاء کا عالم ہو تو وہاں اﷲ تعالیٰ کی رحمتیں ،برکتیں نازل
ہوتی ہیں اسلام ہر مسلمان کو حکم دیتا ہے کہ اس دنیا میں گناہ بے لذت سے
کنارہ کش رہ ،اپنی خواہشات کے سمندر کو اﷲ ورسول ﷺ کی رضا کے لئے قربان
کردے تو جنت میں تمھاری ہر خواہش پوری ہوگی جو تیرے دل میں آئے گا اﷲ کے
حکم سے وہ تجھے ملے گا مانگنے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی صرف دل میں خیال پیدا
ہونا شرط ہے جس دور میں بھی اہل ایمان نے شرم وحیاء کو قائم رکھنے کے لئے
اپنی خواہشات کی قربانی دی تو اﷲ تعالیٰ نے انھیں دنیا وآخرت میں کامیابی
کا پروانہ عطاء کیا ۔ اس خطبے کے بعد راقم مجبور ہوا کہ فوری طورپر چند
گزارشات حکومت کی خدمت میں بذریعہ تحریر پیش کرے کہ ایسے اخلاقیات پر مبنی
بیانات تو معاشرے کے ہر فرد کو سننے چاہیں وہ تب ہی ممکن ہو سکے گا جب
سپیکر پر بیان ہو رہا تو ۔۔۔۔ ایک مختصر طبقہ تو ان مردوں کا ہے جو مسجد
میں نماز پڑھنے آتا ہے وہ بیان سن لیتا ہے جبکہ دوسرا طبقہ ان مرد حضرات کا
ہے جو مسجد میں نہیں آتا وہ اس سے محروم اس لئے رہا کہ سپیکر ہی بند تھے۔
تیسرا طبقہ ہماری خواتین کا ہے جو گھروں میں ہوتی ہیں مسجدوں میں نہیں
آسکتیں وہ تو بالکل اس سے محروم رہا کیوں کہ لاؤڈ سپیکر ایکٹ کے تحت سپیکر
چلانا جرم قرار دیا گیاہے اس پر ملک بھر میں بڑی سختی سے عمل ہورہا ہے۔
راقم کی اس سلسلے میں راے ٔدو حصوں پر مشتمل ہے پہلا حصہ یہ کہ حکومت لاؤڈ
سپیکر ایکٹ کا استعما ل صرف ان پر کرے جو فرقہ وارنہ تقاریر کرکے عوام کو
مس گائیڈ کرتے ہیں ان کے خلاف اسی طرح سختی کی جائے جس طرح اب جاری وساری
ہے لیکن حکومت لاؤڈسپیکر کے استعمال پر پابندی عائد نہ کرے اس سے بہت سے
مسلمان اسلامی تعلیم وتربیت سے محروم ہو جائیں گے ان کی زندگیاں دین سے دور
ہوتی جائیں گیں، دین کی اشاعت کو وسیع،تعمیری،فکری،اخلاقی اصل دینی بنیادوں
پر استوار کرنے میں سپیکر کا ایک اہم کردار ہے اگر حکومت نے اس پر عمل نہ
کیا تو دین دار طبقہ اور حکومت میں تناؤ پڑھے گا جس کا فائدہ کوئی تیسری
قوت اٹھائے گی۔
اگر حکومت لاوڈ سپیکر ایکٹ پر ہر حال میں عمل کروانا ہی چاہتی ہے تودوسری
طرف حکومت پر فرض عائد ہوتا ہے کہ گلی ،محلوں،بازاروں،گاڑیوں ،ناچ گانے کی
محفلوں میں ہونے والی لاؤڈسپیکر ایکٹ کی خلاف ورزی کو بھی اسی طرح روکے جس
طرح مسجدوں کے خلاف برسر پیکار ہے ۔کیونکہ ان گانے بجانے کی آوازوں کو
مسلمانوں کی اکثریت نہیں سننا ہی نہیں چاہتی ان آوازوں سے اہل ایمان کے
جذبات مجروح ،ایمان کی تباہی ،شرم وحیاء مفقود ،بے حیائی کا بازار گرم
ہورہاہے ۔حکومت کی یک طرفہ ٹریفک سے ابہام پیدا ہورہے ہیں جسے ختم کرنا
ارباب اقتدار کی ذمہ داری ہے۔پاکستانی معاشرے میں بے حیائی ،فحاشی ،عریانی
اس لئے پھیل رہی ہے کہ حکمران نیکی کے کاموں میں تعان کرنے کی بجائے رکاوٹ
جبکہ ثقافت،جشن بہاراں کے نام پر برائی،بے حیائی،فحاشی کے کاموں میں دل
وجان سے بھر پور تعاون کرہے ہیں جس سے معاشرے میں شرم وحیاء کا جنازہ نکل
رہا ہے جب کہ اسلام اپنے نمائندہ ہر دورکے حکمران خلیفتہ المسلمین کو شرم
وحیاء پر مبنی معاشرے کے قیام کے لئے امر باالمعروف ونہی عن المنکر کے
بنیادی فرض کو ادا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ |
|