اسد محمد (ماہر نفسیات)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کراچی
سانحہ پشاور ملکی واقعات میں ایک بدترین واقعہ ہے جس میں دہشت گردوں نے
پورے اسکول کو یرغمال بناکر سفاکی سے اساتذہ بچے اور غیر تدریسی عملہ کو
موت کے گھاٹ اتارا ۔ بچوں کی آنکھوں کے سامنے بے رحمی سے قتل و غارت ایک
گھناؤنا کام ہے۔ اس واقعے کے بعد والدین کا جوحال ہوا وہ سب کے سامنے تھا
جبکہ اس سانحہ کی آڑ میں تقریباً تمام سیاسی تنظیموں نے ایک بار پھر اپنی
سیاست میں رنگ بھرنا شروع کردیئے اور ہر سطح پر شدید مذمت کے بیانات آنے
شروع ہوگئے، میڈیا کی بھی توجہ تھر کے مثاثربچوں سے فوری طور پر ہٹ کرمکمل
طور پر یہاں مبذول ہوگئی جبکہ اسی صوبے کے ضلع باجوڑ کے بچے بھی یہاں بلکل
نظر انداز ہوگے جو کچھ عرصے پہلے ہی ایک ڈرون حملے میں غلطی سے ہلاک ہوگئے
تھے پھر بھی جدھرکی ہواچلے ۔۔۔۔ادھرکو ہم چلے ۔۔۔۔اور ہواؤں کے رخ پر چلتے
ہوئے آرمی پبلک اسکول کے حملے میں ہلاک بچوں کے ساتھیوں اور والدین میں
میڈیاپر چلتی تصاویر دیکھ کر غم وغصہ پایاگیا البتہ اس غصہ کا توڑ کرنے کے
بجائے موم بتیاں جلاکر معاملہ ختم کردیا گیا ۔ اگر ہم بات کریں کہ ان بچوں
کی غصہ وتکلف جنہوں نے اپنے اساتذہ واپنے ساتھیوں کو مرتے ہوئے دیکھا جبکہ
انہیں خود ذرکوب بھی کیاگیا اور ساتھ ساتھ انکے والدین جنہوں نے اپنے لخت
جگر کی لاشیں اپنے ہاتھوں سے اٹھائی ہوں ان کاکیا حال ہواہوگا جنہوں نے
اپنے جگر کے ٹکڑے کو آنکھوں میں خواب سجائے صبح سویرے اسکول روانہ کیا ہوگا
۔ سانحہ پشاور جیسے حادثات عموماً نفسیاتی طور پر psychologically ایک خاص
قسم کا disorder ہے اور اسکی کچھ علامات بہت عام ہوتی ہیں جسے post
traumatic stress disorder کہا جاتا ہے ۔ یہ disorder عموماًقدرتی آفات،ریپ
threatened with weapon اور جانی حادنی واقعات کے بعد عمل میں آتا ہے ۔
mantal disorder ایک ماہ کے دوران anxity, disociatveاور دیگر علامات کے
ساتھ ظاہرہوا کرتاہے۔شروع میں یہ acute stress disorder کے نام سے تشخیص
ہوتاہے اس میں ٹراما کے بعد فرد بے چینی محسوس کرتا ہے ۔ وہ کسی بھی ایسے
واقعے کو لے کر flashbacks اور nightmares (خواب) میں ذہنی طورپر تنگ
ہوتاہے ۔ جذباتی responces میں اس فرد کواس ٹراماوالی جگہ سے
disasociateکرنے لگتاہے جبکہ حادثے والی جگہ سے اسکاڈرنابھی ایک علامات ہے۔
اس کے علاوہ social gathering میں نہیں جا پا تا جس کی وجہ سے وہ socially
isolateہوجاتاہے۔ اس مرض میں ایک علامت بہت عام ہوتی ہے جو hightened
autonomic arousalrg کہلاتی ہے اس میںirritability sleep distrubance،poor
control ، over aggressive impulse اور hyper vigilance جیسے عوامل شامل
ہیں ۔ اس ذہنی مرض کاشہبہ کسی بھی خطرناک حادثے کے بعد مردوں میں6.7 فیصد
جبکہ عورتوں میں 8.8 فیصد پایا جاتاہے ۔ ریپ کے کیسزمیں یہ شرح مردوں میں
65 فیصداور عورتوں میں 45.9 فیصد تک ہوجاتی ہے اور اسکا prevalence rate
lifetime مردوں میں 25 فیصد اور عورتوں میں 13.8 فیصد پایاجاتاہے ، عموماً
اس طرح کے واقعات کے بعد لوگ anxiety اور depresion کابہت جلدی شکار ہوجاتے
ہیں جس کی وجہ risicfactr کے ptsd میں اضافہ ہوجاتا ہے ، جولوگ prone
anxiety اور painprone یعنی neulatic ہوتے ہیں وہ اسکاشکار جلدی ہوجاتے ہیں
عموماًجوبچے late iso socially ہوتے ہیں انہیں بھی ptsd کاخدشہ زیادہ
رہتاہے۔ ان تمام معاملات کو اگر وقت پر حل نہ کیا جائے اور انکا بروقت علاج
نہ ہو توآگے جاکر یہ بڑے بڑے ذہنی امراض میں مبتلا ہوسکتے ہیں ۔ اسکے عمومی
علاج اور اسکے حل کیلئے چند مشورے مندجہ ذیل ہیں سب سے پہلے مثاترہ فرد کو
بدترین خوف سے آگاہ کیا جائے اسکے بعد اس خوف کی علامتوں سے پیچھا چھڑانے
کیلئے جو کم درجے low seveity کی ہوں اور پھر رفتہ رفتہ بہت بڑے خو ف high
seveity کی جانب اس سے پوچھ گچھ کی جائے، اس عمل کا مقصد اس خوف کاردعمل
جاناجائے اور اس ردعمل کے بارے میں مزید اسکی جڑ معلوم کی جائے، اسکی سب سے
بڑی یہ ہوتی ہے کہ فرد کوئی بھی غصہ anxiety کے ساتھ cope کیاجائے اسکا
مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی غم وغصے کی صورت میں فرد نے معاملات کو کہے
deal کرنا ہے آیاکہ وہ کسی بھی ایسی صورت حال کر دیکھ کر جذباتی ہوجاتا ہے
اسکے معاملات کو حل کرنے کی طرف سوچتا ہے اور اپنے آپ کو سجھانے معاملات کی
جانب ڈھالنے کی طرف پیش رفت ہورہی ہے اگر فرد کسی بھی چیز پر جذباتی علامات
ظاہر کرے تو اسکومذید کاؤنکگ کی ضرورت پڑتی ہے عموماً اسکی کاؤنکگ انفرادی
طور پر ہوتی ہے اور افراد کے زیادہ ہونے پر اسے گروپ کی شکل میں بھی
کیاجاتا ہے ۔ کاؤنکگ کا فوکس فردکی یاداشت پر ہوتا ہے اور اسکو رفتہ رفتہ
آسان راہ کیجانب لے جایا جاتا ہے تاکہ اسکی ان یادوں کی شدت کم کی جائے جو
اس عموماًپریشان کررہی ہوتی ہیں ۔ نفسیات کے اصولوں کے مطابق ہر فرد ایک
دودسرے فردسے مختلف ہوتا ہے اور اسکے علاج کے لیے مختلف تکنیک استعمال کی
جاتی ہیں لہذا یہاں بات پشاور اسکول کے حملے سے نکلی تھی تو تمام علاج
کیلئے ضروری ہے کہ بچوں کی تمام سائیکو تھراپی اسی اسکول میں کی جائے تاکہ
وہ اسکی عادی ہوجائیں اورا سکی شدت کم ہوسکے جبکہ ضرورت اور شدت کو مدنظر
رکھتے ہوئے اسکو انفرادی کائنکگ کی طرف بھی reterکیا جاسکتا ہے تاکہ یہ بچے
بھی قوم کی ترقی وتعمیر میں اپنا کردار اداکرسکیں۔ |