اسلام اور گلوبلائزیشن
(Shaikh Wali Khan AlMuzaffar, Karachi)
اسلام اور ایمان دونوں عربی زبان
کے الفاظ ہیں، اسلام سلامتی سے ہے، ایمان امن سے ہے، گویا اسلام اور ایمان
کی بنیادیں ہی امن وسلامتی پررکھی گئی ہیں۔اسلام کا معنی ہے اپنے آپ کو
خالق کے سامنے جھکا دینا، تابع اور فرماں بردار بنا دینا، فکر میں، عمل میں،
روح میں اور جسم میں۔توایمان کامعنی ہے اپنے خالق پر اپنے تمام معاملات اور
خیر وشر میں یقین رکھنا اور اس کی ذات بابرکات کو اپنی مخالفت، عصیان اور
نافرمانی سے محفوظ رکھنا۔ اسلام کا تعلق ظاہر سے ہے، جب کہ ایمان کا تعلق
قلب سے، یعنی اسلام اعم ہے ایمان کے مقابلے میں، کیوں کہ ہر مومن مسلم بھی
ہے، لیکن ہر مسلم مومن نہیں ہے۔
دین اور مذہب ،یہ دونوں بھی عربی زبان کے الفاظ ہیں، دین: جزا وسزا، حساب
وکتاب، نیزہر وہ نظامِ حیات جس میں الہام کا دعویٰ کیا گیا ہو۔مذہب: جدید
دور میں دین کا مترادف ہے، قدیم میں اسلام کے مختلف فرقوں کے نقطۂ نظر کو
مذہب کہا جاتا تھا،دین مذہب سے اعم ہے اور کثیر الاستعمال ہے، اور قدیم
وجدید میں مذہب کے لئے لفظ دین استعمال ہوا ہے، جب کہ مذہب ظاہر ہے کہ ایسا
نہیں ہے۔
پھر دین اسلام کے مقابلے میں اعم ہے، کیوں کہ دین کا اطلاق تمام الہامی طرز
ہائے حیات پر کیا جاتا ہے، جب کہ اسلام اس کی ایک قسم اور نوع ہے۔ یہ اور
بات ہے کہ اسلام تمام ادیان سماویہ وغیر سماویہ میں برحق وبرتر ہے، لیکن
اپنی تقسیم کے اعتبار سے بمنزلۂ جز کے ہے کُل کے لئے۔ قرآن کریم کی آیت﴿إن
الدین عند اﷲ الإسلام﴾ کا یہی مطلب ہے کہ اسلام ہی اﷲ کے یہاں صحیح معنوں
میں دین کہلانے کا مستحق ہے، بقیہ ادیان موجودہ حالات میں اس حیثیت کے
مستحق نہیں ہیں۔
اب ہم آتے ہیں گلوبلائزیشن، انٹرنیشلائزیشن، یا عربی زبان کے الفاظ العولمۃ،
التدویل، یعنی عا لمیت، عالم گیریت اور بین الاقوامیت کی طرف۔ مذکورہ بالا
اصطلاح میڈیا کی زبان میں امریکنائزیشن یا اس کے مترادف الفاظ کو کہاجاتا
ہے۔ جب کہ لغوی طور پر یہ کسی بھی حوالے سے ہر اس سسٹم، پیغام، دین ومذہب،
فکر، فلسفے یا تہذیب وتمدن کا نام ہے، جس کی پہنچ دنیا کے کونے کونے تک
ہو۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جدید سائنس وٹیکنالوجی کے اس دور میں دنیا نے ایک
گاؤں، ویلج یا قریہ کی صورت اختیار کرلی ہے، اور یہ بھی ماننا پڑے گا کہ آج
کا انسان مذہبی، سیاسی، تجارتی، تہذیبی وغیرہ کسی بھی حوالے سے بین
الاقوامی برادری سے الگ تھلگ، کٹ کر نہیں رہ سکتا، بلکہ بین الاقوامی
برادری میں واقع پذیر قسم قسم کے احوال سے متأثر ہوئے بغیر بھی نہیں رہ
سکتااوریہ بھی ایک زمینی حقیقت ہے کہ پوری انسانیت کی مڈبھیڑ میں وہی ملک،
قوم، معاشرہ یا فرد زندہ وتابندہ ، شاد اور آباد رہ سکے گا، جس کے اصول،
مبادی، تکنیک اور اسٹراٹیجی حقیقت اور واقعیت کے قریب تر ہو، جس کے پیغام
اور منشور میں تزلزل، تذبذب اور تردد کے بجائے استقلال، استقامت واستقرار
ہو۔ کیا ہی خوب فرمایا ہے علامہ اقبال نے:
جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر
تیرا زجاج ہو نہ سکے گا حریفِ سنگ
جناب محمد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی رسالت کائنات کے مختلف
عالموں کے لئے ہے، انسانیت تو اس کا ایک جز ہے، جب آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
وسلم کی رسالت کائنات پر محیط ہوئی، تو پوری انسانیت پر اس کا احاطہ بطریق
اولیٰ ہوگا۔اب آپ خود ہی تجزیہ کیجئے کہ اسلام ایک بین المللی، بین
الاقوامی، عالم گیر اور جہاں گیر دین ہے یا نہیں؟ اور اس تناظر میں قرآن
کریم، جو اسلام کی ایک مقدس آسمانی کتاب ہے، وہ پوری انسانیت کے لئے ہے یا
نہیں؟ جناب رسالت مآب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ، جو سنت کی
صورت میں ہمارے پاس موجود ہے، وہ سارے عالم کے فلاح وبہبود کے لئے ہے یا
نہیں؟ اسلام دین فطرت ہے، فطرت کا تعلق بنی آدم کے ہرفرد، بلکہ کائنات کے
ہر جزو سے ہے، گویا فطرت میں عموم ہے تو اسلام میں عموم اور شمول ثابت ہوئے
یا نہیں؟ نیز اسلام کے انسانی حقوق کا چارٹر، جو ’’خطبۂ حجۃ الوداع‘‘ میں
پیش کیاگیا، اس میں مسلم وغیر مسلم سب کے حقوق کا تذکرہ ہے یا نہیں؟ قرآن
کریم میں جہاں جہاں حقوق و حدود کا ذکر ہے، جہاں جہاں سزاؤں کا ذکر ہے، کیا
اس کا تعلق صرف اہل اسلام سے ہے یا اہل ذمہ غیر مسلمین کی بھی بھرپور رعایت
رکھی گئی ہے؟کیا جناب محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بعثت عربوں کے لئے
تھی یا عجم کے لئے بھی ہے؟ گوروں کے لئے تھی یا حبشیوں کے لئے بھی؟ آزاد
لوگوں کے لئے تھی یا غلاموں کے لئے بھی؟ مردوں کے لئے تھی یا خواتین کے لئے
بھی؟ نوجوانوں کے لئے تھی یا بچوں اوربوڑھوں کے لئے بھی؟
مذکورہ بالا سوالات کا حقیقت پسندانہ اور علی وجہ البصیرت جواب اگر دیا
جائے تو نتیجہ صاف اور واضح آجاتا ہے کہ جناب سرورکائنات صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ وسلم کا پیغامِ اسلام گلوبل اور عالم گیر انداز میں ہے، ہمیں اسے کسی
زبان یا مکان میں محدود نہیں کرنا چاہیے، کسی زبان یا لسان والوں سے خاص
نہیں کرنا چاہیے، کسی طبقے یا سفید پوشوں ہی سے منسلک نہیں کرنا چاہیے۔
بلکہ گلوبلائزیشن کے اس دور میں، جس کی اسلام کو ضرورت تھی، آفاقیت کے اس
عالم میں ، جہاں اسلام کا پیغام انتہائی آسانی اور سرعت سے انحائے عالم میں
پہنچ سکتا ہے، ہمیں اپنا تن، من، دھن اور اپنے بچوں، نوجوانوں، بوڑھوں،
مردوں، خواتین ، پڑھے لکھوں اور مزدوروں سب کو اسلام کی تبلیغ واشاعت،
تعلیم وترویج کے لئے جھونک دینا چاہیے۔آج کے دن عالم گیریت کے اس میدان میں
تمام تہذیبوں ، ثقافتوں، ادیان، مذاہب اور افکار و نظریات میں گھمسان کی
ایک دست بدست جنگ جاری ہے، کون غالب، کون مغلوب، کون فاتح، کون مفتوح ہوتا
ہے؟ زمینی حقائق خودبخود اس نتیجے کو بھی آپ کے سامنے رکھ دیں گے، ہمیں
یقین ہے کہ اس عالم گیر مسابقے، مقابلے اور دوڑ میں اسلام ہی فاتح، غالب
اور سرخ رو ہوگا، انشاء اﷲ تعالیٰ۔
لیکن جیسا کہ بین البراعظمی مختلف قومیں، ممالک، ملتیں اور علاقے باہمی
یونینز اور اتحادوں میں مصروف ہیں، ہمیں بھی اس حوالے سے اپنا مثبت اور
فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس دور میں دعوت وتبلیغ اور اسلام کی اشاعت وترویج کا
کام مسلم اکثریتوں سے زیادہ مسلم اقلیات بحسن وخوبی انجا م دے سکتی ہیں،
اپنے عمل اور سیرت وکردار سے بھی، قول ولسان سے اور قلم قرطاس سے بھی، ان
تینوں سطحوں پر جناب محمد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سنت ، اعتدال
اور وسطیت کو مدنظر رکھ کر اس کو بہ خوبی انجام دیا جاسکتا ہے۔اگر ہرایک
مسلمان کم از کم ایک ایک غیر مسلم کے مشرف باسلام ہونے کا سبب بن جائے، تو
دنیا میں مسلمانوں کی تعداد کہاں سے کہاں پہنچ جائیگی، بلکہ سارا عالم ہی
حلقہ بگوشِ اسلام ہوجائیگا، یوں گلوبلائزیشن کے اس چیلنج کو ہم امت مسلمہ
کے لئے نہایت آسانی سے چانس میں تبدیل کرسکتے ہیں۔
اس کے لئے مسلم اقلیات کو :۱-اقتصادی مضبوطی، ۲-تعلیمی برتری، ۳-رفاہی
خدمات، ۴-اپنے ممالک کی اکثریات واغلبیات کی خواتین سے ازدواجی تعلقات،
۵-تمام شعبوں سے انسلاک، ۶-الأھم فالأھم، ۷-مختلف طبقات سے ارتباط، ۸-اور
بالخصوص سیرت نبوی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مکی حصے کو مشعلِ راہ
بناناہوگا۔
|
|