جزا اور سزا کا نظام

جزا اور سزا کا نظام کسی ہارورڈ یا سٹینفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر نے نہیں بلکہ یہ سسٹم اللہ نے اپنے مذہب کے زریعے نافذ کیا ہے۔ اس سسٹم کے مطابق ہر اچھے کام کا اجر ہے اور برے کام کی سزا۔ اللہ نے البتہ معافی تلافی اپنے ہاتھ میں رکھی ہے اور یہ بھی اپنے ہاتھ میں رکھا ہے کہ اسے کس کا کونسا عمل کب پسند آجائے لیکن بہرحال وہ ناانصافی نہیں کرسکتا۔ ایسا نہیں ہوگا کہ ایک انسان کو ایک کام کا اجر مل جائے اور دوسرے شخص کو اسی نیت سے کیا گیا وہی کام سزا دلادے۔

اللہ کا بنایا ہوا نظام عین فطری ہے اور اگر اس پر عمل نہ کیا جائے تو ہمیشہ خرابی ہی ہوگی، بہتری آنا ناممکن ہے۔ اسی لئے ماڈرن بزنس مینجمنٹ کے رہنما اصول بھی carrot and stick یعنی جزا اور سزا کے اصول پر متعین کئے گئے ہیں۔

آج کل 12 واں ورلڈ کپ چل رہا ہے اور پہلے سے مضبوط ٹیمیں تو مضبوط ہو ہی چکی ہیں، نئی آنے والی ٹیمیں جیسے کہ زمبابوے، آئرلینڈ، سکاٹ لینڈ اور افغانستان کی کارکردگی بھی نہایت متاثرکن ہے۔ ان سب کے مقابلے میں پاکستانی ٹیم انتہائی ناکارہ اور کسی جذبے کے بغیر نظر آرہی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟
اس کی صرف اور صرف ایک ہی وجہ نظر آتی ہے کہ ہم نے جزا اور سزا کے نظام پر کبھی عمل نہیں کیا۔ ہم نے کبھی ان کھلاڑیوں پر توجہ نہیں دی جن کے اندر ٹیلنٹ تھا یا وہ محنت کرتے تھے۔ اس کی مثال سعیداجمل اور محمد عرفان جیسے پلئیرز ہیں جنہیں 30 سال کی عمر کے بعد قومی ٹیم میں جگہ ملی۔

دوسری طرف ہم نے کبھی نااہل یا مسلسل خراب کارکردگی دینے والے کھلاڑیوں، کوچ اور سیلیکٹرز کو سزا نہیں دی۔ کہاں ایسا ہوتا ہے کہ آفریدی جیسا پلئیر دس میچوں میں انڈا لے اور ایک میچ میں سکور کرے۔ 30 میں سے ایک میچ جتوائے اور 20 میچ ہروائے اور پھر بھی ٹیم میں رہے۔

ہماری باؤلنگ پچھلے 30 سالوں سے دنیا کی بہترین باؤلنگ ہے جبکہ ہماری بیٹنگ ہمیشہ سے مسائل کا شکار رہی۔ پھر بھی ہم نے ٹیم کے کوچ وقار یونس، مشتاق محمد اور محمد اکرم جیسے باؤلر رکھے اور کبھی انضمام الحق، محمد یوسف اور میانداد کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔

ہماری فیلڈنگ ہمیشہ سے دنیا کی سب سے خراب فیلڈنگ رہی اور آج تک اس میں بہتری نہیں آسکی۔ کیا اس کی وجہ ہماری جینز میں کوئی خرابی ہے یا ہڈحرامی؟

ادارہ کوئی بھی، کرکٹ یا کوئی سرکاری محکمہ، جزا اور سزا کے نظام کو نافذ کئے بغیر رزلٹ نہیں دے سکتا۔
باقی تکے ہیں، لگ بھی سکتے ہیں۔ اتنا خوش ہونے کی ضرورت نہیں

Muhammad Shoaib Tanoli
About the Author: Muhammad Shoaib Tanoli Read More Articles by Muhammad Shoaib Tanoli: 67 Articles with 115233 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.