جاؤں تو کہاں جاؤں؟

ماہ فر وری کااختتام تھا مگر محسوس یوں ہو رہا تھا جیسے اپریل کا آغاز ہے ہر ذی روح کی زباں پر ایک ہی حرف تھاکہ اُف موسم گرما آگیا آگئی وہی کڑی دھوپ آج توپسینہ آگیاکہ اچانک ایک طرف سے کالی گھٹا اُٹھنا شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے آسماں پر چھا گئی جِسے دیکھ کر سوکھے شجر بھی خوشی سے جھومنے لگے کہ شکر ہے آگیا اِک عرصہ کی پیاس بجھانے کا سماں آگیا ،یہ بڑا لطف اندوز سماں تھاجِسے دیکھتے ہی دیکھتے ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہو گئی جو کچھ ہی دیر میں موسلا دھار بارش کی شکل اختیار کر تے ہوئے شام تک برستی رہی سو شام ہوئی تو گھر کو لوٹے اور کچھ ہی دیر میں ہر طرف تاریکی پھیل گئی تیز ہواؤں کے ساتھ بارش بھی پھر سے شروع ہوگئی ایسے میں کھانا کھاتے ہی لیٹنے کو من چاہ رہا تھا کہ دروازے پہ ایک دستک ہوگئی،سوچا کوئی بھیکاری ہوگا اِس لئے بول دیا بھلا ہوبابا،جس پر آواز آئی بھلا نہ کرودروازہ کھولو،اور جب دروازہ کھولاتو ایک دوست کو پایا، پوچھا کیسے آنا ہوا سب خیریت تو ہے؟ جواب مِلا ہاں نا سب خیریت ہے،جلدی سے تیاری کرو اوکاڑہ جانا ہے ،بہت ضروری کام ہے ،سو تیاری کی اور چل دیئے ،کچھ ہی دیر میں اوکاڑہ پہنچ گئے وہاں سے جب واپسی ہوئی تب ہر سُواندھیرا ہی اندھیرا تھا لوگ گہری نیندیں سوئے ہوئے تھے اس وقت ایک طرف آسماں پر گرج چمک عروج پر تھی تودوسری طرف تیز و تندہوائیں سانسیں روک رہی تھیں مگر ہمارے ایسے میں خوف سے پسینے چھوٹے جا رہے تھے سو دِل لالچ لگانے کیلئے کبھی اِس طرف دیکھتے تو کبھی اُس طرف دیکھتے جا رہے تھے اور ساتھ ہی اُس دِن کو کوس رہے تھے جس دِن صحافت میں قدم رکھا تھاکیونکہ اِس وقت ہمیں صحافت دُنیا کا خطر ناک اور مشکل ترین کام محسوس ہو رہا تھا خیر ایسا کرتے کراتے جب ہم ساہیوال کے قریب پہنچے تو ایک ملٹی نیشنل فوڈکمپنی کی ایک فرم کے سامنے سے گزرنے کا اتفاق ہوا یہاں سے گزرے تو ہم پہلے بھی کئی بار تھے لیکن ٹریفک کے بے ہنگم شور میں اِرد گرد کے ماحول پہ دھیان دیئے بغیر ہی گزر جاتے تھے مگر اِس بار جب یہاں سے گزرے تودھیان اِرد گِرد کے ماحول پر رکھنے کی وجہ سے گاڑی کی لائٹ میں نظر ایک ایسے نوجوان پر جم گئی جو بارش میں بری طرح بھیگ کر سڑک کنارے کھڑے ایک درخت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا اِس نے سرخ رنگ کی شرٹ جبکہ بلیو بلیک ٹروزر پہن رکھا تھا جِسے دیکھتے ہی ہم یہ جانے بغیر گزر نہ سکے کہ وہ ایسے پُر خطر حالات میں وہاں کیو ں اپنی یہ حالت بنائے ہوئے ہے خیر گاڑی روک کر ہارن دیا نہ سُنا پھِر ہارن دیا کوئی اثر نہ ہوا ،سوچا اِسے کِسی نے درخت سے باندھ ہی دیا ہو ،گاڑی سے اُترا اور قریب جا کے مخاطب کیا تو ہونٹ نیلے ، جسم پر کپکپی اور سسکیاں بھرے لہجے میں وہ چلا کر بولا ،کون ہو تُم اورکیا تکلیف ہے تُجھے ؟یہ الفاظ سُن کر بڑی تکلیف ہوئی مگر تحمل مزاجی سے جواب دیا کہ میں وہ نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں برائے مہربانی گاڑی تک آجائیں مجھے آپ کی مدد چاہئے ،یہ سُن کر اِس نے زور سے کہکہالگایا اور بولا واہ مدد اور وہ بھی مجھ سے سیدھی طرح کہو کہ آپ اغوا ہو چکے ہیں اور ساتھ چلو ورنہ مار دیئے جاؤ گے ،اور مرنے کیلئے میں پہلے ہی بے قرار ہوں،جلدی کرو گولی مارو میں نہیں جانے والا،؟ایسے راقم خوف زدہ ہو کر ایک بار پھِرتھوڑا پیچھے ہٹا اور کہا کہ بھائی میں ایسا نہیں ہوں،اصل میں چلتے چلتے گاڑی رُک گئی ہے دھکا لگوا دو آپ کی مہربانی ہوگی،جس پرنوجوان ساتھ چل دیا اور جب گاڑی کے قریب پہنچنے تک میں نے اُسے اپنا تعارف بھی کروادیا اور کہا کہ میں آپ کو اپنی گاڑی تک صرف اِس لئے لایا ہوں کہ گاڑی میں بٹھا کر آپ سے اطمینان کے ساتھ کچھ کام کی بات کر سکوں، یہ سُن کر نوجوان گاڑی میں بیٹھ گیا اور جواب دیا کہ ٹھیک ہے آپ کو کام چاہئے اور مجھے دام چاہئے ،مگر ایک شرط ہے کہ دام میری مرضی کے اور کام تیری مرضی کا میں نے کہا کہ ٹھیک ہے ،مگر پہلے آپ مجھے اپنی اِس حالت کے پسِ پردہ حقیقت بتائیں؟یہ سُن کر نوجوان آنکھیں بھر آیا اور بولا کہ میری صاحب بی اے تعلیم ہے ساہیوال کا رہائشی ہوں اور میں اِس ساتھ والی فوڈفیکٹری میں عارضی ملازم ہوں میری ماہانہ تنخواہ 12ہزار ہے جبکہ ماہا نااخراجات 18ہزار کے لگ بھگ ہیں،آج گزشتہ دو یوم سے گھر میں فاقہ ہے بیوی بیمار ہے نہ بچے بھوک سے بلکتے دیکھے جاتے ہیں نہ بیوی کو بیماری سے تڑپتا دیکھ سکتا ہوں ،اِس لئے آج ڈیوٹی کے بعد خود کُشی کا سوچ رہا تھا کہ آپ لوگ آگئے ، اب آپ ہی بتائیں کہ ایسے میں مَیں جاؤں تو کہاں جاؤں؟یہ سب کچھ سُننے کے بعد یقیناً ہم دونوں خود آب دیدہ ہوگئے مگر جذبات پر قابو پاتے ہوئے اُسے سمجھانے لگے کہ بھائی مرد بنو،تُم تو عورتوں سے بھی زیادہ بزدِل نِکلے ،خود کُشی حرام موت ہے ،اور یہ آپ کی تنگ دستی آپ پہ اﷲ کا امتحان ہے اگر صبر سے حالات کا مقابلہ کرو گے تو اﷲ تجھے بہت نوازے گا کیونکہ اُس نے تُجھے پیدا کیا ہے اور تیری روزی کا بندو بست بھی وہی کرے گاوہ یقیناًبڑا غفورالرحیم ہے ،ایسی باتیں کرتے کرتے جہاں کا یہ نوجوان رہائشی تھا وہاں یعنی کہ ساہیوال ہم پہنچ چکے تھے اور جوں ہی ساہیوال پہنچے یہ نوجوان بولا کہ صاحب میرا گھر آگیا ہے یہاں آپ بریک لگائیں اور جس کام کی بات آپ کرنا چا رہے تھے وہ کریں یہ سُن کر ہم نے اِس نوجوان سے پوچھا کہ آپ کی بیوی کی میڈیسن کِتنے پیسوں میں دستیاب ہوگی تب نوجوان نے تھوڑا شرماتے ہوئے ہمیں کچھ پیسے بتائے سو ہم نے اپنے جیب خرچ میں سے کچھ اِسے تھمانے کے بعد کہاکام کی بات پھِر کبھی کریں گے اب ذرا جلدی ہے جس پر اِس نوجوان نے کہا کہ پھِر آپ مجھے اپنا سیل نمبر دیتے جائیں سو ہم اِسے ایک رونگ نمبر دے کر چلتے بنے کیونکہ نہ ہم کوئی وقت کے حاکم تھے جو مزدوروں کی تنخوا بڑھانے کا کوئی حکم صادر کردیتے ،اورنہ ہی کِسی انڈسٹری کے مالک تھے جو اِسے اپنی انڈسٹری میں ملازم رکھ لیتے ،ہم تو صرف اپنی قلم کے ذریعے دوسروں کا درد ہی بیان کر سکتے ہیں سو کر دیا اِس پر سوچ بچار اب اُن کا کام ہے جو خود کو خادمِ اعلیٰ کہلاتے ہیں (فی امان اﷲ)۔
Muhammad Amjad khan
About the Author: Muhammad Amjad khan Read More Articles by Muhammad Amjad khan: 61 Articles with 41762 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.