صفائی سے انسان ،انسان ہے !

تنویراحمدخطیب

جب سوچھ بھارت کاپروگرام شروع ہوا اتفاق سے اُن دنوں راقم دہلی میں ہی تھا جہاں جہاں میں گیا ہر طرف افرا تفری مچی ہوئی تھی کہ کیسے سوچھ بھارت کے پروگرام کو عملی شکل دی جائے ۔ہر دفتر میں ہلچل تھی، میٹنگوں پہ میٹنگیں ہو رہی تھیں کہ کیسے گلی کوچوں چوراہوں کو صاف بنانے کا پروگرام عملایاجائے لوگ انہیں دفاتر میں ہر جگہ گندگی ہی گندگی نظر آتی تھی ۔دیواروں پہ پان کے دھبے نظر آ رہے تھے ۔چھتوں پر مکڑیوں کے جالے اپنے کہانی سنا رہے تھے ہر کوئی بس اس دوڑ میں لگا تھا کہ میرا نام سوچھ بھارت کے پروگرام میں ایسا جڑ جائے جس سے میں نریندر مودی کی نظروں میں آ جاؤں ۔کچھ وزراء اور آ فیسران نے ریہرسل شروع کر دی تھی ہر چوراہے پر نریندر مودی کے صفائی کے بارے میں بڑے بڑے پوسٹرچسپاں کیے گئے تھے ۔دہلی کو ایسے سجایا جا رہا تھا جیساکہ شہنشاہ کا گذر ہونے والا تھا ۔اُن دنوں نریندر مودی ہندوستان سے باہر گئے ہوئے تھے لہٰذا یہ دوڑ لگی تھی جب وہ آئیں تو اُنکو چاروں اطراف صفائی ہی صفائی نظر آئے ،سوچھ بھارت کے پروگرام کو عملی شکل دینے کیلئے کروڑوں کے حساب سے رقم خرچ کی گئی ٹنوں کے حساب سے کاغذ سیاہ کر دئیے گئے ۔۔مقررہ دن پر نریندر مودی ۵۰ روپے کا جھاڑو لیکر پانچ منٹ کیلئے جائے مقررہ پر وارد ہوئے اور الیکٹرانک میڈیا،پرنٹ میڈیا کی زینت بن گئے ۔اُسکے بعد ہر ریاست میں سوچھ بھارت کی جیسے دوڑ لگ گئی دس پندرہ دن تک تمام ریاستوں میں کروڑوں کے حساب سے رقم خرچ کر دی گئی لیکن حاصل مقصد کچھ بھی نہیں ہو پایا۔ہم آج بھی وہیں ہیں جہاں کل تھے۔ ہر گلی کوچے میں آپکو گندگی کے ڈھیر ملیں گے یہاں تک ہر دفتر میں آپکو گندگی ہی گندگی نظر آئے گی……بات یہاں پر ٹھہر جاتی ہے ……آخر ہمارے سب پروگرام وقتی طور پر کیوں ہوتے ہیں ہم کیوں وقت کے ریلے میں بہہ جاتے ہیں ہم میں کہاں کمی ہے ،اس کا محاسبہ کرنا از حد ضروری ہے جب ہم صفائی کی بات کرتے ہیں تو ہمارے دل و دماغ میں جس شخصیت کا نام آتا ہے کہ وہ انسانیت کے محسن،دو جہانوں کے آقاحضرت محمدمصطفی ؐ کی ذات مبارکہ ہے ۔جنھوں نے تمام قصے کو دو لفظوں میں سمیٹ کر ہمارے سامنے پیش کیا ۔صفائی نصف(آدھا) ایمان ہے، صفائی پارسائی کے دوسرے درجے پہ ہے، لہٰذا اگر ہم صرف اس بات کو اپنے اندر لیں اور محاسبہ کریں کیا ہم نے آدھے ایمان کو پا لیا ہے تو ہمیں جواب نفی میں ملے گا ہم بھول چکے ہیں کہ آنحضور ؐنے صفائی کے بارے میں کتنی تاکید کی ہے راستے میں اگر آپ کو گندگی نظر آئے اُسے صاف کریں تاکہ کوئی اُدھر سے گزرنے والا اپنا من خراب نہ کرے ،راستے میں پتھر ،کنکر اور کانٹے بکھرے ہوں انھیں راستے سے ہٹا لیا جائے یہ آدھے ایمان کی علامت ہے ۔ ہمیں بتا یا گیا کہ اپنے آپکو صاف وپاک رکھو۔ دن میں پانچ مرتبہ وضو کرو ،جمعہ کے دن اچھی طرح سے نہا دھو کر صاف و ستھرے کپڑے پہن کر مساجد کا رخ کریں ۔اصل میں انسان کونفسِ امارہ کومارناہے ۔تب جاکرہم اس فلسفے کوسمجھ سکیں گے کہ صفائی کیاہے۔ہمارے کپڑے تبھی صاف رہ سکتے ہیں جب ہمارے گلی کوچے اور بازار صاف رہ سکتے ہیں ۔آنحضور ؐ نے خود یہ کر کے بتا دیا ہے کہ صفائی اﷲ کو کتنی پسند ہے ۔ہم نے اسلام کوکوزے میں بند کر لیاہے جو اچھا لگتا ہے وہ کر لیتے ہیں اور جس میں محنت لگتی ہے اُس کی طرف دھیان نہیں دیتے ۔ضرورت ہے اس بات کی کہ ہم یہ دنیا کو بتا دیں صفائی کا جو تصور ہے وہ محسن انسانیت محمدؐ نے دیا ہے یہ ہم تبھی بتا سکتے ہیں جب ہم خود صفائی کا خیال رکھیں۔اپنے گھروں کی صفائی کا خیال رکھیں،گلی کوچوں،چوراہوں پر نظر رکھیں اور ایسا ماحول بنائیں جس سے ہر کسی کو لگے واقعتا مذہب اسلام صرف چند رسومات کو ادا کرنے کا مذہب نہیں بلکہ یہ پوری زندگی گذارنے کا لائحہ عمل ہے ،ضابطہ اخلاق ہے اس پر چل کر ہم دنیا میں ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کرسکتے ہیں بس اس میں صرف یہ ہے کہ ہر کوئی اپنے اپنے حصے کا چراغ جلائے رکھے ۔ کبھی کبھار جب مجھے اپنا بچن یادآتا ہے تو اُس میں جو خاص میرے لئے ہوتا ہے وہ میرے مرحوم والد محترم کا عمل ہوتا ہے میرے والد محترم دودھ اور سبزی وغیرہ لیکر دس بجے دکان سے گھر کی طرف آتے تھے۔اُسکے بعد وہ گھر کے باتھ روم صاف کرتے تھے ،محلے کی نالی صاف کرتے تھے نالیوں کی گندگی کو اچھی طرح پانی سے صاف کرتے تھے اُسکے بعد مسجد جا کر مسجد کے باتھ روم صاف کیا کرتے تھے ۔اُنکے یہ اُصول عمر بھر اُنکے ساتھ رہے اُس وقت میرے ذہن میں یہ نہیں آتا تھا کہ میرے والد ایسا کیوں کرتے ہیں لیکن آج جب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں مجھپہ یہ آشکار ہوا میرے والد کتنے عظیم کا م کیا کرتے تھے ،سردیوں میں جب گلی کوچے اور بازار برف سے بھر جاتے تھے اُنکی کوشش ہوتی تھی کہ برف میں چلتے چلتے کوئی پھسل نہ جائے ۔اسی لئے اپنے گھر کے سامنے والی گلی میں وہ روز برف خود اُٹھاتے تھے اور راستہ بناتے تھے اور بازار میں بھی اپنے دکان کے ارد گرد وہ صفائی کرنے میں لگے رہتے تھے ۔یہاں میں اپنی نانی مرحومہ کاذکربھی صرف اس لیے کررہاہوں کہیں نہ کہیں یہ بات آگے جائے اورایک ایسی سوچ پورے معاشرے میں جنم لے جس سے پورامعاشرہ گل وگلزارہوجائے ۔میری نانی مرحومہ بہت ہی کمزوراوردبلی پتلی تھی مگرکبھی انہوں نے اپنی کمزوراوردبلی پتلی شخصیت کواپنے فرائض کے آگے آڑے نہ آنے دیا۔جہاں وہ گھرصاف شفاف رکھنے میں دِن بھرلگی رہتی تھیں اورساتھ میں بیت الخلاء کوصاف کرلینایہ بھی ان کاروزمرہ کادستورتھا۔اس کے ساتھ ہی مکان کے ساتھ ساتھ جونالی گزرتی تھی اسے بھی صاف رکھتی تھی ۔آخری عمرمیں گھٹنوں کے بل چلتی تھی لیکن پھربھی صفائی کوانہوں نے مقدم جانا۔یہیں پرمیں ایک اورشخصیت کاذکر کرناضروری سمجھتاہوں ،اس شخصیت کانام عبدالغنی نجار تھا ۔وہ جامع مسجد کا متولی تھا مسجد کی صفائی جس انداز سے وہ کرتے تھے ویسا انداز میں نے زندگی میں کہیں نہیں دیکھا ۔پوری مسجد کو اندر اور باہر سے صاف کرنا یہ کوئی چھوٹا کام نہیں تھا جمعہ کے روز تو خصوصی صفائی ہوتی تھی اور اس میں ٹاٹ وغیرہ کو باہر نکال کر اچھی طرح سے صاف کر کے پھر دوبارہ اندر مسجد میں بچھانا اوپر سے سفید چادریں بچھانا ،ایسالگتا تھا کہ ہم ایسی جگہ پہنچ چکے ہیں جہاں سکون ہی سکون ہے گویا جنت ہو ۔آج ہم عالیشان مساجدیں بنا لیتے ہیں بقول ِ علامہ اقبال۔
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایمان کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی برسوں سے نمازی بن نہ سکا

ہم نماز تو پڑھتے ہیں مگر نماز کیا ہے یہ ہم نہیں جانتے ہیں نہ ہم نے کبھی اس کی فضلیت واہمیت کوجاننے کی کوشش کی ۔ہم نے نماز کو بس ایک فرض سمجھ لیا ہے ،پڑھ لی اور سمجھ لیاکہ فرض ادا ہو گیا ،کاش…… ہم یہ جانتے اہمیت نماز پڑھنے کی نہیں ہے نماز قائم کرنے کی ہے۔ اپنی پوری زندگی میں اگر ہم یہ جان گئے تو ہم نے اپنی زندگی کو سنوار دیا ،اپنے معاشرے کو سنوار دیا بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم نماز کے فلسفے کو سمجھیں اور صفائی کی عظمت کو جانیں اگر یہ بات ہماری سمجھ میں آگئی ہم کامیاب ہی کامیاب ہیں ۔خدا ہم سب کا حامی ناصر ہو۔ اﷲ ہم سب کوان باتوں پہ عمل کرنے کی توفیق عطا کروں۔
MOHAMMAD SHAFI MIR
About the Author: MOHAMMAD SHAFI MIR Read More Articles by MOHAMMAD SHAFI MIR: 36 Articles with 29987 views Ek Pata Hoon Nahi Kam Ye Muqader Mera
Rasta Dekhta Rehta Hai Sumander Mera
.. View More