کر کٹ کے شائقین اس پہلو پر بھی غور کریں
(Abdul Rehman, Doha Qatar)
جیف لاسن کا انداز بہت جارحانہ تھا ۔انہوں
نے مائک پکڑتے ہی صحافیوں کو ہدایات دینا شروع کر دیں :’’آپ لوگ سوال کریں
گے ‘بیان جاری نہیں کریں گے ۔ایک وقت میں ایک ہی سوال پوچھا جائے گا وغیرہ
وغیرہ ۔‘‘ایک صحافی کھڑا ہوا اور سوال کیا‘ لاسن نے غور سے سننے کی کوشش کی…
اب جانے یہ حقیقی کوشش تھی یا مصنوعی اور پھر کہا کہ تمہیں اپنی انگریزی
درست کرنے کی ضرورت ہے ۔اس پر صحافیوں میں بھنبھنا ہٹ شروع ہو گئی اور ایک
موٹے چشموں والے صحافی نے بائیکاٹ کے لئے سب سے پہلے اپنی نشست چھوڑ دی ۔آپ
لوگوں کو یہ بات جان کر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ وہ صحافی پاکستان کے
سب سے پہلے قائم ہونے والے ایک نجی سپورٹس چینل سے منسلک ہیں ۔بہ ظاہر لاسن
کا رویہ مناسب نہ تھا ۔مگر بقول لاسن اس رویے کا ایک بیک گراؤنڈ ہے ۔ان کے
بقول پاکستان میں کراچی اور لاہور کی لابیاں ہیں جو ایک دوسرے کے مد مقابل
رہتی ہیں ۔کراچی کے صحافی آفریدی کو کپتان بنوانا چاہتے تھے ( یہ 2008ء کی
بات ہے یعنی آفریدی کی کپتانی کی مہم اس وقت بھی جاری تھی جیسا کہ گزشتہ
ایک برس سے چل رہی ہے )۔ شعیب ملک اس وقت کپتان تھے ۔شعیب ملک جون کی سخت
گرمی میں بلے بازی کر کے نڈھال ہوچکے تھے اور بستر پر پڑے تھے اور انھیں
ڈرپ لگی ہوئی تھی ۔پاکستان وہ میچ ہارگیا تھا‘ اب صحافی منتظر تھے کہ ملک
آئے گا تو ہم اسے ’’گرل ‘‘کریں گے ۔مجھے دیکھ کر ان کے موڈ خراب ہو گئے
اور شور شروع ہو گیا‘ اس پر مجھے یہ رویہ اختیار کرنا پڑا ۔ یہ ہے میڈیا کا
وہ شرمناک کردار جس نے پاکستان کرکٹ کی زوال پذیر جڑوں میں زہریلا پانی بھر
دیا ہے ۔کراچی‘ لاہور کی لابی کوئی آج کا قصہ تو نہیں ہے ۔مگر قبل ازیں اس
طرح کی منظم مہمیں نہیں چلا کرتی تھیں ۔اس زمانے میں میانداد کی مظلومیت
اور عمران خان کی آمریت کی کہانیاں پھیلائی جاتی تھیں لیکن چوں کہ عمران
اور میانداد میں کبھی شدید اختلافات نہیں رہے ‘ اس لئے یہ چنگاریاں بھڑکتی
ہوئی آگ نہ بن سکیں کیوں کہ میڈیا چینلوں اورکھیلوں کے جرائد بھی زیادہ تر
کراچی بیسڈ ہیں‘ اس لئے زیادہ توجہ کراچی کے کپتانوں اور کھلاڑیوں کی
مظلومیت پر ہی رہا ہے جس کھلاڑی کے ساتھ بھی نا انصافی ہو‘ اس کے لئے آواز
اٹھائی جانی چاہئے لیکن اگر کراچی کے صحافی آفریدی کی حمایت اس لیے کریں
کیوںکہ وہ کراچی کا ہے اور انہیں ہوٹلوں میں کھانے کھلاتا ہے ‘تحائف دیتا
ہے اور مصباح کی اس لئے مخالفت ہو کہ وہ ان صحافیوں کو زیادہ لفٹ نہیں
کرواتا تو اس میں ان دونوں کی پیشہ ورانہ صلاحیت کا کوئی عمل دخل نہیں ۔میں
اس طرح کی حرکات کرنے والے زہریلے سانپوں کے ڈنگ سے پاکستانی کھلاڑیوں اور
مستقبل کے کپتانوں کو خبردار کرتا ہوں ۔ آفریدی تو اب اپنی باری کھیل ہی
چکے ۔میڈیا نے یہ کمپین خود چلائی ‘موصوف نے خود سپانسر کیں یا ان کے دوست
صحافیوں نے خود ہی زیادہ وفاداری دکھائی‘ دونوں ہی صورتوں میں آفریدی اور
پاکستان کرکٹ کا ہی نقصان ہواکیوں کہ اگر آفریدی اس ڈرامے کے بغیر کپتانی
کرتے تو زیادہ بہتر کپتانی کر سکتے تھے ۔ اب آپ اس میڈیائی ہیجان کو ہی
دیکھ لیں ۔ہر نیوز چینل پر ایک ہنگامہ برپا ہے جس دن پاکستان کا میچ ہوتا
ہے‘ اگر شاہین جیت جائیں تو ایسا جشن ہوتا ہے جیسا کہ کوئی ورلڈ کپ جیت لیا
ہو اور اگر ہار جائے تو اس طرح سے ذلیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جیسے
پاکستان کی نہیں ‘انڈیا کی ٹیم ہو ۔کھلاڑیوں کے آوٹ ہونے پر گانے چلانا ،ان
کا مذاق اڑانا ،سنجیدہ بحث کے بجائے انڈین چینلوں کی نقل مارتے ہوے لفظ چبا
چبا کر ادا کرنا ،ایک عجیب طوفانِ بد تمیزی مچا رکھا ہوتا ہے ۔ ابھی معین
خان کے کسینو جانے پر دن رات جس طرح سے ہڑبونگ مچائی گئی وہ حیرت انگیز ہے
۔ایسے یقین دلانے کی کوشش کی جا رہی تھی جیسے انہوں نے جوا کھیل کر پاکستان
کو ہروا دیا ہو‘ اس طرح کا تاثر دینا بھی جرم کے برابر ہے۔ یہ درست ہے کہ
معین خان کی حرکت سخت مذمت کی متقاضی تھی مگر ایسا واویلا مچانے کی کوئی
ضرورت نہ تھی ۔میرے خیال میں تو اس سے کرکٹ کا کوئی بھلا نہیں ہو گابلکہ
لوگوں کے جذبات کو آسمان پر لے جانا اور پھر انھیں زمین پر پٹخ دینا قومی
مزاج کو تباہ کر کے رکھ دے گا ۔یہی حال نارمل نیوز کے دوران بھی ہوتا ہے۔
اب موجودہ ورلڈ کپ میں ابھی تک جو ٹرینڈ ہیں ان پر بات کر لی جائے ۔ایک تو
یہ فارمیٹ لازمی اپ سیٹ کا تقاضا کرتا ہے وگر نہ تو آٹھ ٹیموں کا فیصلہ
کرنا کوئی مشکل نہیں ۔شکر ہے آئر لینڈ نے ایک اپ سیٹ کر کے ایسوسی ایٹ
ممالک کی لاج بھی رکھ لی اور گروپ بی کو بھی دلچسپ بنا دیا ۔ شین وارن نے
افغانستان کی ٹیم پر خوب تبصرہ کیا کہ دیکھو یہ اچھا کھیل رہے ہیں یا نہیں
لیکن انکے چہروں پر تو مسکراہٹ ہے ۔یقیناً ان کا اشارہ جنگ زدہ افغانستان
کی طرف تھا۔ابھی تک ایسوسی ایٹ ممالک جان مار کر کھیل رہے ہیں اور چھوٹے
ممالک کے میچز زیادہ دلچسپ رہے ہیں ۔۔مزید ایک آدھ اپ سیٹ انکی حمایت کو
مزید توانا کر دے گا ابھی تک اس ورلڈ کپ میں پچز بیٹنگ فرینڈلی رہی ہیں ۔تاثر
تو یہ تھا کہ آسٹریلیا کی پچز کی رفتار اور باؤنس بلے بازوں کو مشکل میں
ڈالے گا مگر ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہوا‘ صرف اِکا دُکا میچ میں ایسی صورتِ
حال نظر آئی ۔اس کا ایک سبب تو ڈراپ ان پچز ہیں۔ آسٹریلیا اور نیو زی
لینڈ کے اکثر کرکٹ گراؤنڈزرگبی کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں جس کی وجہ سے
وہاں پچ انسرٹ کی جاتی ہے اور بنائی کہیں اور جاتی ہے ۔یوں نارمل پچ کی طرح
اس میں روایتی رفتار اور باونس نہیں ہوتا یا بہت کم ہوتا ہے ۔ اس کی دوسری
وجہ دائرے کے باہر صرف چار فیلڈرز ہونے کی اجازت ہے ۔اس کردار سے بائولرز
کو بہت مشکل پیش آ رہی ہے ۔میرے خیال میں یہ ایک انتہائی احمقانہ رول ہے ۔اس
طرح کے گمکس کرکٹ کو برباد کر رہے ہیں ۔تیسری وجہ یہ ہے کہ اب کرکٹ بیٹس اب
بہت موٹے اور بہتر ہو چکے ہیں ۔چوتھی وجہ ٹی ٹوئنٹی کھیلنے کی وجہ سے بلے
باز اب زیادہ رسک لیتے ہیں اور ان کے پاس زیادہ سٹروکس کھیلنے کے مواقع
ہوتے ہیں ۔ ایک اور وجہ دنیا کی تقریباً تمام ہی ٹیموں کی ناقص بولنگ ہے جس
کی ایک وجہ تو چار فیلڈرز کا دائرے سے باہر ہونا ہے ۔اس کے علاوہ اکثر
بولرز یارکر کرنے میں مہارت نہیں رکھتے اور اگر یارکر سوئنگ یا ریورس سوئنگ
بھی نہ ہو رہا ہو تو آج کل کے بیٹس سے اس پر رنز بٹورے جا سکتے ہیں ۔ایک
اور بحث جو جاری ہے جس کی بابت اسی کالم میں پہلے بھی بات ہوئی تھی کہ ورلڈ
کپ میں زیادہ ٹیموں کو ہونا چاہئے یا کم ٹیموں کو جس طرح سے آئی سی سی نے
اگلے ورلڈ کپ کو 10 ٹیموں تک محدود کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے ۔ کرکٹ کی دو
بہت بڑی شخصیات نے ورلڈ کپ میں زیادہ ٹیموں کو شامل کرنے کی حمایت کی ہے ۔سچن
ٹنڈولکر کا کہنا ہے کہ اگلے ورلڈ کپ میں25 ٹیموں کی شمولیت ہونی چاہئے اسی
طرح کرکٹ ایک گلوبل سپورٹس بن سکتی ہے ۔ان کے خیال میں پچاس اوورز کی کرکٹ
کو پچیس پچیس اوورز کی دو اننگز میں تقسیم کر دیا جائے ۔دوسری جانب مارٹن
کرو کا کہنا ہے کہ اٹھارہ ٹیموں پر مشتمل چالیس اوورز کا ورلڈ کپ کرایا
جائے ۔ |
|