اسلام اور دہشت گردی کے خلاف جنگ
(Ata Muhammad Tabasum, Karachi)
حالیہ دہشت گردی کا سب سے زیادہ
شکار خود مسلمان اور مسلمان مملک ہیں
مصر کی معروف درسگاہ جامعہ الازہر کے سربراہ ڈاکٹر احمد الطیب نے شدت پسندی
روکنے کے لیے، مذہبی تعلیمات کی تشریح کا طریقہ بدلنے کی ضرورت پر زور دیا
ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے سعودی عرب کے شہر مکہ میں ’اسلام اور
دہشتگردی کے خلاف جنگ‘ کے نام سے ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اْنھوں نے کہا کہ ’شدت پسندی کی بنیادی وجوہات قرآن و سنت کی غلط تشریحات
ہیں۔‘اْن کا کہنا تھا کہ مسلم اْمہ کے لیے اتحاد بحال کرنے کا واحد راستہ،
سکولوں اور جامعات کے اندر ایسی تشریح کی حوصلہ شکنی کرنا ہے جو دیگر
مسلمانوں کو بے عقیدہ قرار دیتی ہیں۔کانفرینس میں دولتِ اسلامیہ کا نام لئے
بغیراْنھوں نے دہشت گرد گروہوں کے متعلق بات کی جنہوں نے اْن کے بقول ظلم و
بربریت کا راستہ اپنایا ہے۔انھوں نے خطے میں عدم استحکام کی ذمہ دار ایک
سازش کو قرار دیا جو بقول اْن کے صہیونیت کا ساتھ دینے والا نیا عالمی
نوآبادیاتی نظام ہے۔ اس کانفرنس میں سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیزکا
ایک پیغام بھی پڑھ کر سنایا گیا۔جس میں انھوں نے واضح طور پر کہا کہ انتہا
پسند مسلمان نہ صرف، مسلمانوں کے لیے خطرہ ہیں بلکہ دنیا بھر میں مذہب کا
امیج خراب کر رہے ہیں۔دہشت گردی اور انتہا پسندوں کی مذمت کرتے ہوئے انھوں
نے کہا ہے کہ یہ دقیانوس اسلام پسند نہ صرف مسلمانوں کو ڈرا دھمکا رہے ہیں
بلکہ اسلام کے تشخص کو بھی داغدار کررہے ہیں۔ اس کانفرنس کا اہتمام اسلامی
تعاون تنظیم (او آئی سی ) نے کیاتھا۔''اسلام اور دہشت گردی مخالف جنگ'' کے
موضوع پر بین الاقوامی کانفرنس اس عالمی ایجنڈے کا حصہ کہی جاسکتی ہے۔ جس
میں امریکہ اور سعودی عرب ایک ہی پیج پر دکھائی دیتے ہیں۔ شاہ سلمان نے کہا
کہ ''مسلم اقوام کو اس وقت اسلام کے نام پر دہشت گردی کی دراندازی کے خطرے
کا سامنا ہے۔اس دہشت گردی نے اسلامی دنیا کی سرحدوں کو پامال کردیا
ہے۔انتہا پسند اسلام کے مسخ شدہ بینر تلے دین کے ایک ایسیویژن کے علمبردار
بنے ہوئے ہیں جس سے مسلمانوں کے خلاف منافرت پھیل رہی ہیں اور مسلم مخالف
رائے کو ہوا مل رہی ہے''۔شاہ سلمان نے اپنے پیغام میں مزید کہا کہ
''مسلمانوں کو آج جرم ،خوف اور تشویش کا ذریعہ خیال کیا جارہا ہے۔ انتہا
پسند اور دہشت گرد مسلم اقوام ،ان کی تنظیموں اور عوام کے لیے دوسری قوموں
کے سامنے سْبکی کا سبب بنے ہوئے ہیں حالانکہ ہم ان اقوام سے تعاون کے رشتے
میں جڑے ہوئے ہیں''۔ان کا کہنا تھا کہ ''ان دہشت گردوں کی وجہ سے مسلم
ممالک کے غیر مسلم ریاستوں کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری آئی ہے۔یہ لوگوں کو
ہلاک کرنے اور انفرااسٹرکچر کو تباہ کن نقصان سے دوچار کرنے کے علاوہ قوموں
کو تار تار کررہے ہیں۔ہماری قوموں کو اس وقت سب سے بڑا خطرہ ان گمراہ اور
گم کردہ دہشت گردوں سے لاحق ہے۔انھوں نے دین اسلام اور اس کے پیروکار ڈیڑھ
ارب مسلمانوں کے دشمنوں کو انھیں نقصان پہنچانے کا موقع دیا ہے اور وہ
اسلام کے نام پر ایسے جرائم کے مرتکب ہورہے ہیں جن کا اس کی تعلیمات سے
کوئی تعلق نہیں ہے''۔انھوں نے کہا کہ ''سعودی عرب نے دہشت گردی سے نمٹنے کے
لیے سخت اقدامات کیے ہیں اور اس پر قابو پانے کے لیے اپنے سکیورٹی اداروں
کو متحرک کیا ہے۔سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں
جانیں قربان کی ہیں۔اس وقت ہماری فضائیہ ان دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے لیے
عالمی اتحاد کا حصہ ہے''۔شاہ سلمان نے اپنے پیغام میں اسلام کی رواداری
،اعتدال پسندی اور عفو ودرگذر کی تعلیمات کو اجاگر کرنے کی ضرورت پر زوردیا
اور کہا کہ جو ان صفات کو چھوڑ دیتا ہے ،وہ مسلمانوں کی کوئی خدمت انجام
نہیں دے سکتا اور وہ ان کے درمیان نفرت اور تقسیم کے بیج بونے کا سبب ہی
بنے گا۔ شاہ سلمان نے عوام الناس پر بھی زوردیا کہ وہ دہشت گردوں کے ساتھ
نہ تو کسی طرح کا کوئی تعاون کریں اور نہ ان کے ساتھ کوئی ہمدردی جتلائیں۔
دوسری جانب امریکی صدر براک اوباما نے دنیا بھر کے شہری اور مذہبی راہنماؤں
پر زور دیا کہ وہ ’شدت پسندوں کے جھوٹے وعدوں‘ کے خلاف جنگ میں متحد ہو
جائیں اور اس خیال کو مسترد کر دیں کہ ’دہشت گرد‘ گروہ اسلام کی غمازی کرتے
ہیں۔انھوں نے انسداد دہشت گردی کے موضوع پر واشنگٹن میں منعقدہ بین
الاقوامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی، اْنھوں نے کہا ہے کہ دہشت
گرد، ایک ارب مسلمانوں کی ترجمانی نہیں کرتے۔امریکی صدر براک اوباما نے کہا
ہے کہ دہشت گردی اور پْرتشدد انتہا پسندی کے خلاف اقدام میں تمام ملکوں کو
یکجا ہونا پڑے گا۔ اْنھوں نے کہا کہ ’وہ اپنے آپ کو مذہبی راہنما اور مقدس
جنگجو ظاہر کرتے ہیں‘۔ بقول اْن کے، ’وہ مذہبی لیڈر نہیں ہیں، وہ دہشت گرد
ہیں۔ ہم اسلام کے خلاف صف آرا نہیں ہیں۔ ہم اْن افراد کے خلاف نبرد آزما
ہیں جنھوں نے اسلام کا نام بدنام کیا ہے‘۔ اوباما نے یہ بھی اعتراف کیا
کہ،’ ہمیں پتا ہے کہ صرف فوجی طاقت کے ذریعے اس مسئلے کو حل نہیں کیا جا
سکتا‘۔دہشت گردی کے خلاف یورپ اور امریکہ کا پروپیگنڈہ صرف اسلام اور
مسلمانوں کے خلاف ہورہا ہے۔ جس کے نتیجے میں یورپ میں امریکہ ، فرانس مین
مسلمانوں اور ان کی مساجد پر حملوں میں شدت آتی جارہی ہے۔ایک جانب تو دہشت
گردی کے خلاف یہ کانفرنیس ہورہی ہیں تو دوسری جانب امریکا اور اْس کے
اتحادی عراق اور شام میں تیزی سے سے اپنے قدم جما رہا ہے، جنھوں نے حال ہی
میں آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس اور ڈینمارک میں دہشت گرد حملے کیے ہیں۔براک
اوباما نے کہا کہ ’داعش اور القاعدہ جیسے مہلک گروہ اْس غصے اور مایوسی کو
ابھار کر ہمدردیاں سمیٹتے ہیں جو بے انصافی اور بدعنوانی کے نتیجے میں
پروان چڑھ رہی ہیں؛ اور وہ (نوجوان) یہ دیکھتے ہیں کہ اْن کی زندگی میں
بہتری آ ہی نہیں سکتی۔ دنیا کو چاہیئے کہ نوجوانوں کو بہتر مستقبل کا یقین
دلائیں‘۔اس اجلاس میں 60 ملکوں کے اہل کار شریک تھے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ
میں اس یک طرفہ ردعمل پر پیرس ریلی کے بعد ترک وزیر اعظم نے توقع ظاہر کی
تھی،، کہ ایسی ہی حساسیت کا مظاہرہ مغربی ممالک میں اسلامو فوبیا کے اظہار
اور مساجد کو نشانہ بنانے کے حوالے س بھی کیا جانا ضروری ہے تاکہ دوہرے
معیار کا تاثر گہرا نہ ہو۔،،امریکہ اور اس کے حمایتی فلسطین میں اسرائیل کی
جانب سے جاری دہشت گردی پر خاموش ہیں۔امریکہ ،حالیہ دہشت گردی جس کا سب سے
زیادہ شکار خود مسلمان اور مسلمان مملک ہیں،کا تعلق صلیبی جنگوں سے بھی
جوڑتا رہا ہے۔ افغانستان میں نیٹو کے سابق امریکی کمانڈر جنرل پیٹرئیس نے
اپنے ایک حکم نامے میں دہشتگردی کو اسلام سے جوڑتیہوئے "باغیوں سے مقابلہ
،، نامی کتابچے میں باغیوں کو اسلامی انتھا پسند اور اسلامی تخریب کار کہا
تھا۔ 11/9 کے فورا بعد اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے صلیبی جنگوں
بات کہہ کر عالم اسلام کے خلاف مغربی دنیا کی جس حکمت عملی کا اعلان کیا
تھا ، وہ اب بھی جاری ہے۔عراق اور افغانستان، شام لیبیا کے بارے میں ان کی
پالیسیوں کے سامنے آتے ہی واضح ہوگیا کہ بش کا صلیبی جنگ نعرہ ہی امریکہ کی
اصل پالیسی ہے جس کے تحت وہ عالم اسلام کو اپنے نشانے پر لئے ہوئے ہے۔ اس
بارے میں مغرب اور امریکہ کو صرف زبانی نہیں بلکہ عمل سے اپنا کردار واضح
کرنا ہوگا۔
|
|