مقصدِ حیات۔۔ ۔۔قسط نمبر2

ہر چند بعض مذاہب نے عبادت کی ماہیت و غایت بیان کرتے ہوئے اس حقیقت کا اعلان بار بار کیا ہے لیکن چونکہ عبادت و پرستش میں حیات بعد الموت کی راحت کا خیال بھی شامل کردیا گیا ، اس لئے اس دنیاوی زندگی میں اس کا نتیجہ خاطر خواہ برآمد نہیں ہوا اور عام طور پر لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اصل زندگی تو مرنے کے بعد ہی شروع ہوگی اور چونکہ عبادت کے بعد دِلی اطمینان ہوہی گیا ہے اس لئے دو روزہ زندگی کی اصلاح میں کیا سرکھپا یا جائے ۔قارئین میری رائے میں انسان اور انسانیت کے لئے یہی سب سے خطرناک بات ہے کہ یہ دنیا فانی ہے انسان فانی ہے اور بقا اُس زندگی کو حاصل ہے جو مرنے کے بعد شروع ہوگی اور اسی کو سنوارنے کی ضرورت ہے گویا انسانوں کا یہ اجتماع سرائے کے مسافروں کا اجتماع ہے جسے صبح یا شام منتشر ہوجانا ہے پھر ظاہر ہے کہ جب تعلیم یہ ہوگی تو انسانوں میں آپس میں کیا ہمدردی پیدا ہوسکتی ہے اور دنیاوی زندگی کی ترقی و اصلاح کے لئے کون سا جذبہ کام کرسکتا ہے ۔مسلمانوں میں نماز کا طریق ِ عبادت اس میں شک نہیں کہ بڑی اجتماعی کیفیت لئے ہوئے ہے, چونکہ وہاں بھی آخرت و معاد کا خیال ساتھ ہی ساتھ آتا ہے اس لئے مسلمان اگر یکجا جمع ہوتے ہیں تو صرف انفرادی طور پر اپنی اپنی عاقبت سنوارنے کے لئے اور اجتماعی زندگی کی اصلاح و ترقی کا کوئی سوال اُن کے سامنے نہیں ہوتا چنانچہ آپ کسی بڑی سے بڑی مسجد کا اجتماع جا کر دیکھئے ایک ہی صف میں پاس پاس بیٹھنے والوں کو بھی ایک دوسرے کے دکھ درد کی خبر نہیں ہے ، اگر مسجدوں کا یہ اجتماع بجائے روزانہ پانچ مرتبہ کے ہفتے میں ایک ہی بار ہو ، سجدہ و رکوع کی جگہ وہ آپس میں بیٹھ کر تبادلہ خیال کریں اور اپنے اپنے محلہ کے بچوں کی تعلیم ، بیواؤں کی پرورش ، ضعیفوں اور بیماروں کی نگرانی ، مفلسوں اور ناداروں کی امداد جماعتی تنظیم ، اقتصادی مشکلات اور سیاسی مسائل پر گفتگو کر کے لائحہ عمل بھی تیار کرتے رہیں تو کتنا فائدہ عظیم مرتب ہو سکتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ مسلمانوں کی مسجدیں ان کے درالاجتماع تھے جہاں قوم کے تمام معاملات پر گفتگو ہوتی تھی،لیکن آج کا مولوی کہتا ہے کہ مسجد میں بیٹھ کر کوئی بات دنیا کی نہ کرو یعنی صرف اُس دنیا کی بات کرو جس کا علم تمھیں تو نہیں ہے لیکن اِس مولوی کو ضرور ہے جو خدا کے " خلوتیان راز" میں سے ہے جسکو لیکر جب یہ مولوی چاہے تم کو جہنم میں ڈال دے یا فردوسِ بریں میں بھیج دے، علماء ظواہر کے مفہوم عبادت نے جو مذموم صورت اختیار کرلی ہے اس کا حال تو آپ کو اس بیان سے واضح ہوگیا ہوگا۔ اب رہ گئے اہل دل جو بجائے شریعت کے طریقت پر کاربند ہیں تو اس میں شک نہیں کہ جس حد تک خدا کے تصور کا تعلق ہے وہ زیادہ کامیاب ثابت ہوئے اور انھوں نے عقیدہ ہمہ اوست سے خدا کی تعبیر بڑی حد تک قابلِ قبول صورت میں پیش کی لیکن عبادت کے مسئلہ کو وہ بھی نہ حل کرسکے اور چونکہ معا د آخرت کی زندگی ان کے یہاں بھی اصل چیز تھی ، اس لئے باوجود گانے بجانے کا شوق رکھنے کے وہ عبادت کے مسئلہ میں علماء ظواہر کی پابندیوں سے علیحدہ نہ ہوسکے اور شریعت کے مقابلے میں اُن کی طریقت اپنا کوئی مستقل ادارہ جدگانہ قائم نہ کرسکی الغرض مسلمانوں کی طرف سے اِس سوال کا جواب دینا کہ خدا نے اِنس و جن کو اس لئے پیدا کیا کہ وہ اُس کی عبادت کریں عام متبادر معنی کے لحاظ سے انسانی دنیا کے لئے مفید ثابت نہیں ہوا ۔ دنیا میں ترقی یافتہ مذاہب دو طرح کے ہیں ایک وہ جنھوں نے زندگی یا مذہب کا کوئی فلسفہ پیش کیا اور دوسرے وہ جنھوں نے صرف عملی زندگی کو سامنے رکھ کر چند اصول سوسائٹی کی اصلاح کے مرتب کرنے پر اکتفا کیا۔ ہر چند اول الذکر مذاہب کی تعلیم کا بھی حقیقی مقصود وہی سوسائٹی کی اصلاح تھا لیکن جس طرح براہ راست علمی زندگی کا درس دینے والے مذاہب حیات الموت کے قائل ہو کر مراسم و شعائر میں الجھ کر رہ گئے ۔ اِسی طرح فلسفہ پیش کرنے والے مذاہب بھی نفسیاتی گتھیوں کے سلجھانے میں محو ہو کر ایسے دور از کار قیاسیات میں مبتلا ہوگئے کہ سوسائٹی کا مفاد بالکل نظر انداز ہوگیا اور اِن کی فلسفیانہ عقل آرائیاں مادی حقیقتوں سے فائدہ اٹھانے کا کوئی لائحہ عمل بنی نوع انسان کے سامنے پیش نہ کر سکیں اگر تھوڑی دیر کے لئے مان لیا جائے کہ مذہب کا تعلق کسی عروج و ارتقاء سے نہیں ہے جس کے لئے تیغ و تفنگ کا جارحانہ یا مدافعانہ استعمال ضروری ہوبلکہ صرف فلسفہ حیات پر غور کرنے اور خاموشی سے رموز ِ زندگی حل کرنے سے ہے تو بتائیے کہ ہندوؤں کے فلسفہ و ویدانیت ، نروان ، اہمسا اور مکتی نے دنیا کو کیا فائدہ پہنچایا ۔؟

یعنی اگر تلوار ہاتھ میں لے کر دنیاوی جاہ چشم کو اپنے لئے مخصوص کرلینے سے دنیا کو نقصان پہنچا تو بودھ کی طرح کاسہ گدائی لے کر در در کی بھیک مانگنے سے نوع انسانی کو کیا نجات حاصل ہوئی۔

اگر کسی قوم نے اسے تلوار سے مجروح کیا تو دوسری نے اسے اپاہیج بنایا ۔ اگر ایک نے نفس پرستی و خود غرضی کو رواج دیا تو دوسری نے نفس مدعا اور غرض مشترک کو محو کر کے انسانی عزائم کو سرد کردینے میں کوئی دقیقہ کوشش کا نہ اٹھا رکھا ۔ الغرض نوع انسان کو نہ ان مذاہب سے کوئی فائدہ پہنچا جو یکسر عمل ہونے کے مدعی ہیں اور نہ ان مذاہب سے جو صرف عقائد پیش کرنا منتہائے نظر سمجھتے ہیں۔

غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا بڑا سبب مسئلہ " روحانیت یا بعد الطبیعیات " ہے جس نے انسان کی دنیاوی زندگی کو بالکل پس پشت ڈال دیا اور حقیقی زندگی کو اس عالم سے متعلق ہی نہ سمجھا ۔ اگر یہاں کی زندگی کو اہمیت دی جاتی تو اس کی اصلاح کی طرف توجہ بھی کی جاتی لیکن بلا استشناء تمام مذاہب نے مادی حیات کی تخفیف کی اور اس کو ناقابل اعتناء سمجھا ۔ اس لئے اصولاً کوئی مذہب دنیاوی لحاظ سے کامیاب نہ ہوا اور انسان کے نفسیاتی میلان نے جو ہنگامہ یہاں کر رکھا ہے اس کا کوئی علاج کسی کی سمجھ میں نہ آیا۔یہی تلخ تجزیہ تھا جس نے دنیا میں مادہ پرست جماعت پیدا کردی اور دنیا کے اصول سے سمجھنے اور کاربند ہونے پر مجبور کردیا۔ پھر ہر چند ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ماوئین نے جو کچھ سمجھا وہ بالکل درست ہے یا ان کے مقرر کئے ہوئے اصول دنیا کے امن و نجات کے ضامن ہوسکتے ہیں ۔ لیکن اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ ان کا مقصود بالکل بر محل ہے اور "قضیہ زمین بر سر زمین"کے اصول پر کار بند ہوتے ہوئے وہ انسانی دماغ کی بہت سی تشویشوں کو دور کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

ان کے سامنے نہ ایسے خدا کا سوال ہے جس نے قادر مطلق اور " فعال لما یرید" ہونے کی حیثیت سے انسان کو دنیا میں عضو بیکار بنا رکھا ہے اور نہ وہ اپنا وقت اس مسئلہ پر غور کرنے میں ضائع کرتے ہیں کہ دنیا کیوں پیدا کی گئی وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ دنیا پیدا ہوچکی ہے اور اس میں ہم کو زندگی بسر کرنا ہے اس کے بعد کچھ نہیں ہے اس لئے ہم کو ہر ممکن کوشش کے ساتھ اس سے فائدہ اٹھا نا چاہیئے اور ترقی کی جتنی راہیں ہیں ان پر چل کر دنیا کو اپنے لئے جنت بنالینا چاہیئے۔

اس لئے بہ حالات موجودہ ہمارا یہ سوچنا کہ خدا نے کائنات کو کیو پیدا کیا۔ حد درجہ تضیع اوقات ہے سوچنے کی بات صرف یہ ہے کہ جب ہم اس دنیا میں آگئے ہیں تو ہم کو زندگی کیو نکر بسر کرنا چاہیئے اور اپنا وقت کس طرح صرف کرنا چاہیئے ۔۔۔۔جاری ہے۔
علی راج
About the Author: علی راج Read More Articles by علی راج: 128 Articles with 115910 views کالم نگار/بلاگر.. View More