موریشیس(Mauritius)

بسم اﷲ االرحمن الرحیم

(12مارچ:قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)

جمہوریہ موریشیس(Mauritius)بحرہند کا ایک بہت بڑا جزیرہ ہے۔محل وقوع کے اعتبار سے یہ جزائری مملکت ’’مڈغاسٹر‘‘سے کم و بیش پانچ سو میل مشرق میں سمندر کے درمیان ایشیا کے جنوب میں اور افریقہ کے مشرق میں واقع ہے۔اسکی لمبائی چوڑائی شمالاََ جنوباََ 38میل اور شرقََا غرباََ 29میل ہے۔اسکے علاوہ قریب کے بہت سے چھوٹے بڑے جزائر بھی اسی ریاست کے زیرانتظام ہیں۔’’پورٹ لیوس‘‘اس مملکت کا دارالحکومت ہے۔اس ریاست کی سرزمین زیادہ ترساحلی پتھریلی اور چٹانی نوعیت کی ہے اور یہ علاقہ آتش فشانی پہاڑیوں سے گھرا ہوا ہے ۔شمالی خطہ اگرچہ سیدھا ہے لیکن باقی زمین اس ملک کی سطح مرتفائی ہے اور چھوٹی موٹی پہاڑیاں بھی ہیں جو 900فٹ سے2400فٹ تک سطح سمندر سے بلند ہیں۔موریشیس میں دو بڑے بڑے دریا ہیں ایک شمال مشرق میں اور دوسراجنوب مغرب میں بہتا ہے ۔پانی سے حاصل ہونے والی توانائی کے یہی دو دریابڑے ماخذ ہیں۔’’ویکس‘‘نامی جھیل پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے جہاں سے پورے ملک کو پانی فراہم کیاجاتا ہے۔سمندر کا پڑوس ہونے کے باعث یہاں کاموسم ساراسال تقریباََ ایک سا ہی رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں کا درجہ حرارت دوران سال 19سے23ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان درمیان رہتاہے۔

’موریشیس‘‘ کو دسویں صدی عیسوی میں یااس سے قبل عربوں نے دریافت کیاتھا،سولھویں صدی عیسوی میں پرتگالی بھی یہاں پہنچے لیکن انہوں نے یہاں قیام نہیں کیا،1598ء سے 1710تک ڈچ اقوام نے اس جزیرے پر قبضہ جمائے رکھا،ایک طویل کشمکش کے بعد 1721میں فرانس کی ایسٹ انڈیا کمپنی یہاں قابض ہوئی۔1810ء میں برطانیہ یہاں قسمت آزمائی کی اور تاج برطانیہ نے یہاں اپنی حکومت قائم کرلی۔نئے قابضین نے فرانس کے قوانین تو کافی حد تک باقی رکھے لیکن فرانسیسیوں نے جو اس جزیرے کانام تبدیل کیاتھا اسکو بدل کر برطانیوں نے دوبارہ یہاں کانام ا’’موریشیس‘‘رکھدیا۔1835میں ایک قانون کے تحت یہاں سے غلامی کاخاتمہ کردیاگیا ۔1965ء میں موریشیس کی آزادی کا فیصلہ کیاگیا،7اگست1967کویہاں عام انتخابات کرائے گئے اور جیتنے والے عوامی نمائندوں کو اقتدارکی باگ دوڑ تھمادی گئی۔یوں12مارچ 1968ء میں موریشیس کو برطانوی حکمرانوں سے آزادی مل گئی اور یہ ملک دولت مشترکہ کارکن بن گیا۔آزادی کے بعد ہی ایک آئین کے ذریعے سے یہاں کاسیاسی نظام باقائدگی سے اپنا کام کررہاہے۔ابتدامیں بالغ رائے دہی کانظام رائج نہ تھاچنانچہ 1975میں وہاں کے طالب علموں نے ایک پر تشددتحریک چلائی جس کے نتیجے میں 16دسمبر1975کوایک آئینی حکم نامے کے ذریعے 18سال کی عمرسے انتخابی رائے دہی کاحق تفویض کردیاگیاجس کے بعد منعقد ہونے والے انتخابات میں 20دسمبر1976ء کوملک کی تمام بالغ آبادی نے اپنی رائے کااظہارکیا۔

یہاں کی 60%کے قریب آبادی فرانس کے گردونواح سے منتقل ہوکے آئی ہوئی ہے جبکہ 40%آبادی ہندوستانی ہے،ان کے علاوہ بہت کم تعداد میں چینی لوگ بھی یہاں آباد ہیں۔آبادی کا کم و بیش آدھا حصہ ہندومذہب کا پیروکار ہے ،تین چوتھائی عیسائی ہیں اور باقی ایک بہت بڑی تعداد مسلمان آبادی کی ہے۔بہت سی مقامی زبانیں یہاں بولی جاتی ہیں جبکہ دفتری زبان انگریزی ہے اور فرانسیسی آبادی کی کثرت کے باعث فرانسیسی زبان بھی یہاں بہت زیادہ بولی اور سمجھی جاتی ہے۔آزادی کے بعد سے یہاں کی معاشی حالت کوئی بہت اچھی نہیں ہے تاہم یہاں کی معیشیت کازیادہ ترانحصارسیاحت،زراعت اور ملکی تیارشدہ اشیاء کی برآمدات پر ہے۔یہاں کے لوگ آرٹ اور لٹریچر میں بہت دلچسپی لیتے ہیں،متعدد عجائب گھر ہیں اور شاعروں اور ناول نگاروں میں یہ ملک خود کفیل ہے۔ذاتی اور سرکاری لائبریریوں کی کثرت کے باعث یہاں کا مطالعاتی ذوق بہت عمدہ ہے۔انگریزی،فرانسیسی اور چینی زبانوں میں متعدد رسالے اور اخبار بھی شائع ہوتے ہیں۔

1968ء کے دستور کے مطابق موریشیس کی آئینی حکمرانی برطانوی آئینی حکمران کے تابع ہے۔1991سے ایک آئینی ترمیم کے بعدیہاں جمہوریت کاقیام عمل میں لایاگیااورصدر اس ریاست کاسربراہ مقررہوا۔آئین کے مطابق وہاں کی اسمبلی پانچ سالوں کے لیے منتخب ہوتی ہے اور اس میں 62منتخب اراکین اور چار اراکین نامزد کردہ ہوتے ہیں۔صدر مملکت اور نائب صدرمملکت کو بھی پانچ سالوں کے لیے اسمبلی ہی منتخب کرتی ہے۔وزرااپنے اپنے محکموں کے سربراہ ہوتے ہیں اور ان کا نگران وزیراعظم ہوتا ہے۔باقی نیا کی طرح یہاں بھی ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ ہے ۔موریشیس میں بنیادی تعلیم اور صحت کے ادارے ہر جگہ موجود ہیں۔بوڑھے افراد بھی حکومت سے اپنے بڑھاپے کا خراج وصول رتے ہیں۔90%سے زائد بچے بنیادی تعلیم مفت حاصل کرتے ہیں یہاں کا ریڈیو بچوں کی تعلیم میں بہت اہم کردار اداکرتا ہے۔ثانوی تعلیم کا معیاربہت اعلی ہے ۔موریشیس کی یونیورسٹی 1965میں بنی تھی جس میں متعدد شعبے ہیں اوریہ کافی حد تک یہاں کے طلبہ کی اعلی تعلیمی ضروریات پوری کرتی ہے۔2005سے یہاں کے سرکاری ذرائع رسل و رسائل پر طلبہ و طالبات،بزرگ شہری اور معذارافراد مفت سفر کرتے ہیں،حکومت نے یہ سہولت خاص اپنی طرف سے دے رکھی ہے۔

اس جزیرے پرفرانسیسی قبضے کے دوران بنگال سے مسلمانوں کی آمد شروع ہوئی۔ 1722ء میں ایک مسلمان کا پتہ چلتا ہے جس نے فرانسیسی عدالت میں اپنی بیوی کی آزادی کے لیے درخواست دائر کی تھی۔اس وقت تک صرف مسیحیوں کو ہی مذہبی آزادی حاصل تھی اور کسی اور عقیدے کاپرچار ممنوع تھا۔ابتداََیہاں ہندوستان سے سیاسی قیدی لائے جاتے جن سے سڑکیں،پل اور عمارتیں بنانے کی مشقت لی جاتی،ان قیدیوں میں مسلمان افراد بھی شامل تھے۔اسکے بعد ہندوستان اور افریقہ سے جتنے بھی تاجر ،غلام اور دیگر پیشوں کے لوگ آئے ان میں سے مسلمانوں نے 1758ء تک یہاں اپناایک مضبوط گروہ ترتیب دے دیا۔ہندوستان سے آئے ہوئے مسلمانوں نے یہاں اپنے کاروبار جما لیے اور خاص طور پر کپڑے کی تجارت پر مسلمانوں کاایک طرح سے قبضہ ہو گیا۔اور1798میں انہوں نے مسجد کے پلاٹ کے لیے حکومت کو باقائدہ درخواست بھی دی ،1805ء میں یہاں کی پہلی مسجد کا پتہ چلتا ہے جسے بعد میں بلوائیوں نے گرا بھی دیا لیکن اسکی دوبارہ تعمیر کر دی گئی،اب اس مسجدکانام ’’مسجدالاقصی‘‘ہے۔اب وہاں کے مسلمان تاجربرادری میں اپنی ایک قابل قدر پہچان رکھتے ہیں اور چھوٹی بڑی تجارت اور اشیا سازی کی فیکٹریاں بھی کچھ مسلمانوں کی ملکیت ہیں۔پڑھے لکھے طبقوں میں ڈاکٹر،انجینئراورتدریس کے شعبوں میں بھی وہاں کے مسلمان آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے ہیں۔1989ء کے اندازے کے مطابق یہاں مسلمانوں کی شرح 17%سے زائدہے جن کی اکثریت اردوبان ہے۔اب وہاں کے بڑے شہروں کے علاوہ چھوٹے شہروں اور قصبوں میں بھی مساجد نظر آتی ہیں اورمسلمانوں کاامیر طبقہ دل کھول کر مساجد کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالتاہے۔موریشیس کے مسلمانوں نے اپنی سماجی اور تجارتی تنظیمیں بھی بنارکھی ہیں جو ان کے اجتماعی معاملات کی نگرانی کرتی ہیں اور دیگر معاملات میں مسلمانوں کے حقوق کاتحفظ کرتی ہیں۔
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 571903 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.