قطار در قطار

گرمی کا احساس بڑھنے پر میں نے گاڑی کا شیشہ تھوڑا نیچا کیا ہی تھا کہ ایک ہاتھ تیزی میں میری طرف بڑھا۔ مشکل سے اپنا منہ بچا پایا۔ مگر کانوں میں ایک بےسری آواز نے ایسا جادو جگایا کہ میری برداشت ہی جواب دے گئی۔ اتنی تکلیف مجھے ایک گھنٹے سے ٹریفک میں پھنسے رہنے سے نہیں ہوئی۔ میں نے دونوں ہاتھ جوڑ کر ایک ہٹے کٹے بھکاری سے معافی مانگی "اللہ کے واسطے تو مجھے معاف کر دے "۔ اب تو میں نے ان بھکاریوں سے الجھنا چھوڑ دیا تھا۔ روز طرح طرح کی باتیں سننے کی تو انہیں عادت تھی۔ مگر مجھے سنانے کی نہیں تھی۔ ایک بات تو طے ہے عوام کی برداشت بڑھانے میں ان کا اہم کردار ہے۔

وہ مجھ پر ایسے چیخ رہا تھا جیسے کوئی قرض خواہ قرض دار سے وعدہ کا وقت گزرنے پر دو دو ہاتھ کرنے آیا ہو۔ اگر جان چھڑوانے کے لئے ایک کا احسان چکا بھی دیں۔ تو نہ جانے کون سی بھاشا میں دوسروں کو اطلاع کر دیتے ہیں کہ یہ بکرا نرم دل ہے۔ تو ایک ایک کر کے دوسرے فقیر آوازوں کی چھری سے حلال کرنے پہنچ جاتے ہیں۔

بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ واقعہ تو مجھے اور بیان کرنا تھا جسے آج میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ فقیر تو ہم روزانہ ہی دیکھتے ہیں اور بھگتنا بھی پڑتا ہے۔ لاہور کا ایک مصروف چوک موڑ سمن آباد چاروں اطراف سے بھاری ٹریفک کی آمدورفت سے اکثر و بیشتر ایسا منظر پیش کرتا۔ جیسے سینکڑوں بھیڑوں کو ایک تنگ گلی میں دھکیل دیا گیا ہو۔ عوام کی بے چینی ان کے چہروں سے عیاں ہوتی ہے۔ بعض مجبوری سے آگے پیچھے دیکھتے ہیں۔ موقع ملے تو وہ نکل بھاگیں۔ بچے سکولوں کے باہر ان کی راہ تک رہے ہوتے ہیں اور بعض ایسے بھی جن پر یہ محاورہ پورا اترتا ہے کہ" منٹ دا ویل نیں ٹکے دی آمدن نیں"۔ ایسے مواقع پر میرا پسندیدہ مشغلہ لوگوں کے چہروں سے اڑتی ہوائیاں دیکھوں یا پھر سڑک کے اطراف ہورڈنگز۔ کیسے "نیا جال لائے ہیں پرانے شکاری" میری حیرانگی کی انتہا نہ رہی۔ جب میں نے ہورڈنگ پر بنی تصویر دیکھی۔ ہمیں تو دیکھنے کی عادت ہو چکی ہے۔ شیونگ کریم کے اشتہار میں ایک خوبصورت ماڈل کی چمکتی مسکراہٹ یا موٹر سائیکل کا اشتہار چلانے والے کی آنکھ کے تصور سے آگے سپیڈو میٹر تو پیچھے بیٹھی ماڈل نظر آتے ہیں۔ خود وہ کیمرے میں ڈھل جاتا ہے۔

یہ تصویر ایک الگ ہی کمپنی کا اچھوتا آئیڈیا معلوم ہو رہی تھی۔ نیچے چیونٹیوں کی ایک لمبی قطار اور اوپراُڑتے ہوئے ایک قطار میں پرندے۔ ایک لمحے کو یہ خیال گزرا کہ شکار کے متعلق کچھ معلومات ہوں۔ مگر یہ چیونٹیاں کیوں ہیں یہاں، بے ضرر ہیں۔ کیڑے مار ادویات والے اتنا پیسہ کیوں لگائیں گے۔ میں نے اپنی توجہ وہاں سے ہٹائی۔ تو صوبائی حکومت کا نام ایک پیغام کے ساتھ نیچے نظر آیا کہ قطار میں چلنے کا ان سے ہمیں سبق سیکھنا چاہیے۔ لیکن میرے تو آگے پیچھے ایک عجب تماشا کا سماں تھا۔ عوام ایک دوسرے کو کوس رہے تھے۔ بعض موٹے تازے تو آنکھوں سے ڈرانے کی بھی کوشش کر رہے تھے۔ تاکہ دوسرے راستہ دیں اور وہ نکل جائیں۔ بعض سمجھدار قسم کے لوگ ایسی بے ہنگم ٹریفک کو حکومت کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ قرار دے رہے تھے۔ مگر کوئی بھی اس ہورڈنگ کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔ مگر وہ پرندے اور چیونٹیاں انہیں ضرور دیکھ رہے تھے کہ ہمیں پاؤں میں روندنے والے اور پروں کو نوچنے والے کیسے دست وگریباں ہونے کو تیار بیٹھے ہیں۔ حکومت نے اپنا فرض ادا کر دیا تھا عوام اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔ یہ چیونٹیاں اور پرندے اپنے پروردگار کے حکم سے اشرف المخلوقات کو انسانیت کا پیغام پہنچانے کا کام سر انجام دے رہے ہیں۔ یہ پریشان تو ضرور ہوتے ہوں گے کہ وہ انسان پانچ وقت بغیر کسی لالچ و ترغیب کے نظم وضبط کا کمال مظاہرہ کرتا ہے۔ اور لاکھوں کا اجتماع بھی اپنے پروردگار کے سامنے کسی خارجی دباؤ کے بغیر رکوع و سجود ایسی قطاروں اور نظم و ضبط سے کرتا ہے کہ یہ پرندوں اور چیونٹیوں نے شائد وہیں سے سیکھا ہو۔

مغربی دنیا نے ان سب کو قانون کے دھارے میں ڈھال کر قطار کا پابند کروایا۔ مگر ہمیں ہمارے پروردگار نے سجدہ کا حکم دیا۔ تو ہم نے قطاریں بنا لی کیا ہی اچھا ہو اگر پانچ وقت کی اسی عادت کو 24 گھنٹے اپنائے رکھیں۔
Mahmood ul Haq
About the Author: Mahmood ul Haq Read More Articles by Mahmood ul Haq: 93 Articles with 96095 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.