نمود و نمائش

نمود و نمائش زندگی کی اہم ضرورت ہے اگرچہ نہیں ہے لیکن دیکھا جائے تو آج کے دور میں ہر دوسرا شخص نمود و نمائش کی چاہت میں دیوانہ نظر آتا ہے اور نمود و نمائش کو عزت و وقار کا باعث خیال کرتا ہے ہر شخص نمود و نمائش کو زندگی کی خاص ضرورت خیال کرتے ہوئے خود اپنی پریشانیوں میں اضافہ کر رہا ہے جبکہ نمود و نمائش کی انسانی زندگی میں نہ تو اس قدر ضرورت ہے اور نہ ہی اس کی اتنی اہمیت ہے کہ جس قدر اہمیت و ضرورت انسان نے نمود و نمائش کو سمجھ لیا ہے

نمود و نمائش کو زندگی کی ضرورت سمجھنے والوں کے نزدیک نمود و نمائش زندگی میں سہولت، سکون و آرام اور بہترین طرز زندگی کی علامت و معیار اور بہت سے مسائل کا حل خیال کرتے ہیں نہ صرف روز مرہ کے عام معاملات میں بلکہ خاص طور پر شادی بیاہ یا دیگر اسی قسم کی تقریبات میں نمود و نمائش کو بہت اہمیت سمجھتے ہیں ان کی دانست میں نمود ونمائش سے شادی جیسی ذمہ داری جو کہ ہمارے معاشرے میں بہت سی بیجا اور بے مقصد رسموں کے باعث نہایت پیچیدہ اور مشکل ہو گئی ہے اس مسئلے کے حل کے لئے بھی نمود و نمائش کو ایک بہتر تدبیر کے طور پر اختیار کیا جاتا ہے جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ نمود و نمائش مسائل کا حل نہیں بلکہ بہت سے مسائل کی جڑ ہے نمود و نمائش کی وجہ سے ہی ہمارے معاشرے میں بہت سی برائیاں جنم لے رہی ہیں بیشتر افراد معاشرہ میں بیشمار منفی رجحانات کے فروغ کا باعث یہ نمود و نمائش کی روش ہی بن رہی ہے

نمود و نمائش کی آرزو ہی انسان کو قناعت اور صبر و شکر جیسی صفات سے عاری بناتی ہے انسان کو حرص و ہوس کینہ و حسد جیسی اخلاقی کمزوریوں کا شکار کرتی ہے نمود نمائش کی خواہش انسان کو ایسے کاموں کی طرف رغبت دلاتی ہے جو شریعت کی رو سے بھی جائز نہیں ہیں یا جن کی اسلام میں بھی ممانعت کی گئی ہے نمود و نمائش کی خواہش انسان میں زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کی ہوس پیدا کرتے ہوئے انسان کو لالچی اور بے ایمان بنا دیتی ہے انسان جھوٹی شان و شوکت اور دکھاوے کی زندگی حاصل کرنے کے لئے بعض اوقات ایسے ایسے کام بھی کر گزرتا ہے کہ جو اسے انسانیت کے درجے سے گرا دینے کے لئے کافی ہے یقین مانیے اگر ہم اپنے معمولات میں نمود و نمائش کی روش ترک کر کے سادگی اختیار کر لیں تو ہم بہت سے خود ساختہ مسائل سے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں

اپنے بہت سے اخراجات کم کر سکتے ہیں روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی سے جو پریشان رہتے ہیں اس کا حل بھی ہمارے پاس یہی ہے کہ ہم اپنی بنیادی ضروریات پر خرچ کرنے کی بجائے جو رقم بیجا نمود و نمائش پر صرف کر دیتے ہیں یہ مہنگائی بھی ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکے بچے کی پیدائش، عقیقہ، سالگرہ منگنی شادی خوشی کی تقریبات تو ایک طرف بیماری و موت جیسے مواقع پر بھی ناک کا بھرم رکھنے کے لئے جو کچھ ہمارے ہاں کیا جانے لگا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں نمود ونمائش کے لئے بھلے ہی کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ذلت اٹھانا پڑے، بھلے ہی کاندھوں پر قرض کا بوجھ اٹھانا پڑے لیکن اپنی جھوٹی شان بڑھانے کے لئے نمود ونمائش کو نہیں چھوڑنا یہ کوئی دانشمندی نہیں بلکہ اپنی جان کو اپنے ہاتھوں مصیبت میں مبتلا کرنا ہے

غور کیا جائے تو معاشرے میں پنپنے والے بیشتر جرائم یا افراد معاشرہ میں منفی رجحانات کے پروان چڑھنے کا سبب یہ نمود و نمائش ہی ہے دولت جائز طریقے سے حاصل شدہ ہو یا ناجائز طریقے سے لوگوں پر اپنی دولت کا رعب جمانے اپنی دھاک بٹھانے کے لئے جو لوگ نمود نموئش کا سہارا لیتے ہیں دراصل یہ وہ لوگ ہیں جن کے دل غرور و تکبر سے لبریز ہوتے ہیں یہ لوگ جھوٹی شان و شوکت، ظاہری چمک دمک، تصنع اور بناوٹ کے باعث خود کو دوسروں سے اعلٰی و ارفع ہستی سمجھنے لگتے ہیں اسی طرح دوسری طرف وہ لوگ جو کم آمدن یا غربت کے باعث ایسا طرز زندگی اختیار نہیں کر پاتے کہ جس کے باعث وہ بھی دوسروں سے منفرد و ممتاز دکھائی دینے لگیں یعنی اپنی مفلسی کے باعث نمود و نمائش کی طرز زندگی اختیار نہیں کر سکتے بیزاری و افسردگی کا شکار رہتے ہیں ایسے لوگ بڑے بڑے سرمایہ داروں کی بناوٹی زندگی کی ظاہری چکا چوند دیکھ کر خود کو حقیر سمجھنے لگتے ہیں اور یہی احساس کمتری ان میں دولت مندوں کے لئے کینہ و حسد پیدا کرتا ہے جس کے باعث ان میں بیشتر منفی رجحانات پیدا ہو کر ان کی شخصیت کو بالکل مجروح کر دیتے ہیں اور انہیں اس راہ پر ڈال دیتے ہیں جو کہ نا صرف ان کی اپنی ذاتی شخصیت اور زندگی کو ناسور بن کر چاٹ جاتی ہے بلکہ اس کے منفی اثرات و تنائج سے معاشرہ بھی محفوظ نہیں رہتا اس کا ایک سبب غیر مساویانہ رویہ بھی ہے کہ جب تک معاشرے میں مساوات کا نظام قائم نہیں ہوتا معاشرے کی ناہمواریوں پر قابو نہیں پایا جا سکتا

معاشرے میں مساوات قائم ہو جائے تو معاشرے سے چھینا جھپٹی، چوری ، ڈاکے، بددیانتی اور دیگر برائیوں کا خاتمہ بہت سہل ہو جائے لیکن افسوس کے نمو د نمائش کی پھیلتی ہوئی روش جو مساوات سے یکسر متصادم ہے رفتہ رفتہ معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے کر معاشرے میں پنپنے والے منفی رجحانت میں روز افزوں اضافے کا باعث بن رہی ہے نمود و نمائش کو ترک کر کے ہی ہم اپنے معاشرے میں پیدا شدہ بہت سے مسائل کو ختم کر سکتے ہیں وہ لوگ جو دولت کو ہی عزت و شرف کا معیار سمجھتے ہیں وہ جان لیں کہ اسلام کی رو سے عزت و شرف کا معیار انساں کا اخلاق و کردار کی خوبیاں، زہد و تقوٰی، سادگی، انکساری، خمت گزاری و وفا شعاری ، خوش خلقی خدا ترسی و تابعداری سے ظاہر ہے نہ کہ نمود ونمائش یا ریا کاری سے نمود نمائش کی ظاہری چمک دمک اور بھڑک دیکھ کر ہر دوسرا شخص نمود و نمائش سے بھرپور زندگی بسر کرنا چاہتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ نمود و نمائش کی زندگی میں ہی عزت افزائی ہے ایسا سوچتے وقت ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی اس ظاہری چمک دمک جھوٹ تصنع اور بناوٹ کے اندر کتنی برائی ہے اس فریب کی حقیقت کیا ہے یہ محض ریا کاری ہے دھوکہ ہے اور کچھ نہیں

ظاہری نمود و نمائش کے پیچھے لپکنے سے پہلے ہم کیوں فراموش کر دیتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ ہے ہماری سرزمین وطن پاکستان کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے تاکہ تمام مسلمان یہاں پر مذہبی آزادی کے ساتھ خالص اسلامی اقدار کے مطابق زندگیاں بسر کر سکیں لیکن ہم کس سمت گامزن ہوتے جارہے ہیں زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے بعد کیا ہم اسلامی اقدار کے مطابق اپنی حیات بسر کرنے پر قادر ہیں نہیں ہم تو دوسروں کی تہذیب و ثقافت کو اپنے اندر ضم کرتے چلے جارہے ہیں اور اپنی شناخت کو مسخ کرتے جا رہے ہیں نمود و نمائش کی چادر نے ہمیں اس طرح لپیٹ لیا ہے کہ ہم سے ہمارا اپنا وجود بھی روپوش ہونے لگا ہے نمود و نمائش کے پیچھے بھاگتے ہوئے ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم رحمت اللعالمین کے امتی ہیں جن کی دسترس میں دنیا جہان کے خزانوں کی کنجی ہو لیکن پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام زندگی سادگی سے بسر کی یوں تو ہم نبی پاک کی محبت کا دم بھرتے ہیں بڑے دعٰوے کرتے ہیں لیکن سنت رسول پر عمل کا وقت آئے تو آگے نہیں بڑھتے وہ طرز عمل اختیار کرنے کی کوشش نہیں کرتے جو کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہیں کیا ہم کامیاب ہو سکتے ہیں اتباع رسول کے بغیر ہرگز نہیں

اپنی ضروریات زندگی کا خیال رکھنا اور انہیں پورا کرنے کے لئے محنت مزدوری کرنا اپنے ہنر سے کام لینا اپنی تعلیم و ذہانت سے اپنی جائز خواہشات اور ضروریات کا پورا کرنا حصول رزق حلال کے لئے جدوجہد کرنا انسان کا حق بھی ہے اور فرض بھی لیکن نمود و نمائش کی خاطر ناحق خواہشات کو ضروریات کا نام دے کر اپنے اخراجات میں اضافہ کرنا مناسب نہیں بلکہ فضول خرچی ہے اور اسلامی شرع میں فضول خرچی کی مذمت کی گئی ہے جبکہ نمود و نمائش فضول خرچی کا ہی دوسرا نام ہے کہ نمود و نمائش پر خرچ کی جانے والی رقم فضول خرچی کے زمرے میں آتی ہے نمود ونمائش کی روش کو ترک کر دیا جائے تو فضول خرچی خود بخود دم توڑ جاتی ہے نمود و نمائش کی روش چھوڑ کر ہم ایسے کاموں سے بچ سکتے ہیں جو شرع کی رو سے مناسب نہیں ہیں

نمود و نمائش کو عزت و شرف کا معیار گرداننے والے یاد رکھیں کہ عزت و شرف کا معیار صرف تقویٰ ہے اور تقویٰ کا دائرہ کار بہت وسیع ہے جبکہ نمود و نمائش کی یہ روش لاحاصل و بے معنی ہے عزت و شرف کا معیار نہیں ہے یہ بھی یاد رکھیں کے آپ کی اس نمود و نمائش کی روش سے ان غریبوں کی کس قدر دل آزاری ہوتی ہے جو آپ کے پہلو میں آپ کے ارد گرد رہتے بستے ہیں اور آپ کو دیکھ کر ان کے دل میں بھی آپ کے جیسا طرز زندگی اختیار کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے لیکن وہ آپ کی طرح کے انداز اختیار نہیں کر پاتے یہ درست کہ انسان میں صبر و شکر اور قناعت جیسی صفات ہونی چاہئیں کہ دوسروں کو دیکھ کر آزردہ نہیں ہونا چاہئیے، لالچ یا طمع نہیں پیدا ہونی چاہئیے لیکن یہ بھی درست ہے کہ ہر کسی کا ظرف اتنا نہیں ہوتا کہ وہ اپنی زندگی پر آسانی سے قانع ہو جائے یا اپنی حسرتوں پر ملول نہ ہو کہ بہت سی محرومیاں بالآخر انہیں بہت سی اخلاقی برائیوں اور جرائم کی سمت دھکیلنے کا باعث بھی بن سکتی ہیں اسی لئے ضروری ہے کہ آپ اپنی دولت کی نمائش کرنے کی بجائے اپنی دولت کو ایسی جگہ صرف کریں جس سے آپ کی دولت میں برکت بھی ہو کسی کی دل آزاری بھی نہ ہو جو آپ کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے کام بھی آ سکے جن کا آپ کی دولت میں حصہ ہے اور یہ کون لوگ ہیں آپ خود بھی جانتے ہیں

اس کے علاوہ جو روپیہ آپ نمود و نمائش میں صرف کرتے ہیں اس کی بجائے اپنے ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لئے بھی خرچ کریں مفلس ور ناداروں کی کفالت میں خرچ کریں کسی مجبور کی مدد میں خرچ کریں بے روز گاروں کے روز گار، بے گھر کے ٹھکانے کا بندوبست کریں جب اللہ رب العزت نے آپ کو اپنی ضرورتوں سے بڑھ کر دولت عطا کی ہے تو اس دولت کو اس کی راہ میں خرچ کریں تاکہ دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی عزت و شرف آپ کا مقدر ٹھہرے دنیا داری کے دھندے تو دنیا میں ہی رہ جائیں گے یہ دولت شہرت نام نہاد عزت کچھ بھی انسان اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتا سوائے اپنے نیک اعمال کے تو کیوں نہ دنیاوی سرمائے سے دینوی خزانے سمیٹنے کا کام لیا جائے اور یہ اسی صورت ممکن ہے کہ نمود و نمائش میں لٹانے کی بجائے اپنا سرمایہ ایسے کاموں میں صرف کریں جن میں خرچ کرنے کا حکم اللہ نے کتاب حکمت یعنی قرآن کریم میں بیان کیا ہے اور جس حکم کی تعمیل اللہ کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بسر و چشم عملی طور پر بجا لا کر اپنی امت کے لئے سنت قائم کی ہے اب یہ امت پر لازم آتا ہے کہ وہ رب کے حکم اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو خود پر لازم ٹھہراتے ہوئے ہر وہ عمل بجا لانے کی دل و جان سے سعی کریں جس کا حکم اسلامی شریعت میں امت مسلمہ کو دیا گیا ہے اور ترک کریں اس روش کو جس کا حکم اسلام میں نہیں دیا گیا یا شرع کی رو سے جس عمل کی ممانعت کی گئی ہے اور یقیناً شریعت میں نمود و نمائش کی روش کے بجائے سادہ طرز زندگی کو پسند کیا گیا ہے اور اسی میں انسان کے لئے حکمت و بہتری بھی ہے چاہے یہ سادگی قیام و طعام میں ہو یا زندگی کے دیگر اطوار اور رسم و رواج میں ہو سادہ طرز زندگی ہمارے پیارے نبی کا طرز عمل بھی ہے اور اسلامی اقدار کا ایک جزو بھی ہے تعلیم بھی ہے اور شعار بھی ہے

نمود و نمائش کا شعار ترک کر دیں اور سادگی کا شعار اختیار کریں سادہ طرز زندگی ہی اسلامی شعار ہے اور اسلامی شعار میں ہی ہماری ثقافت اور ہماری قومیت سالمیت اور ہمارے ملک کا استحکام مضمر ہے اللہ تعالٰی ہمیں نمود و نمائش کی بلا سے محفوظ رکھے ہمیں اسلام کے مطابق سادہ زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے زندگی کے تمام معاملات میں اسلامی تعلیمات سے رہنمائی حاصل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے (آمین)
uzma ahmad
About the Author: uzma ahmad Read More Articles by uzma ahmad: 265 Articles with 459489 views Pakistani Muslim
.. View More