سینٹرز کی ریٹائرمنٹ سے باجی زاہدہ کی ریٹائرمنٹ تک

وہ لمحے کتنے دلکش اور حسین ہوتے ہیں جب ایک سرکاری ملازم اپنی ساٹھ سال عمر ہونے پر ملازمت سے ریٹائرڈ ہوتا ہے۔ اس کے ساتھی اس کے اعزا ز میں الوادعی پارٹی کا ہتمام کر رہے ہوتے ہیں۔ ریٹائرڈ ہونے والا اپنے اہل خانہ ، بیوی بچے ،دوست، یار بیلی اس الوداعی پارٹی میں مدعو کرتا ہے تاکہ اسکی ریٹائرمنٹ حسین اور یادگاری لمحات کا نظاروں سے لطف اندوز ہو سکیں اور ایک تاریخ بن پائے ، اس الوداعی پارٹی میں بعض اوقات اس کے اعلی افسران بھی موجود ہوتے ہیں۔ سرکاری ملازمت کے دوران کئی موڑ آتے ہیں۔تلخ و شریں یادیں اس کے قلب و ذہن میں محفوظ ہوتی ہیں جن کے متعلق اس نے فیصلہ کیا ہوتا ہے کہ وہ انہیں زندگی بھر نہیں بھلا ئے گا،لیکن ریٹائرمنٹ کے روز ان یادگار لمحات کو مذید یادگار بنانے کے لیے وہ اور اس کے ساتھی ان تلخ و ترش یادوں کو اپنے دل و دماغ سے حرف غلط کی طرح کھرچ دیتے ہیں
لیکن بعض ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جن کی ریٹائرمنٹ پر اسکے ساتھی بہت خوش اور کچھ ماتحت ملازمین کی آنکھیں فرط جذبات سے نم ہو رہی ہوتی ہیں۔گذشتہ دنوں باجی زاہدہ پروین ہاشمی زندگی کی ساٹھ بہاریں دیکھ کر محکمہ صحت سے ریٹائرڈ ہوئیں اور عین اسی موقعہ پر ہمارے چار درجن سے زائد ایوان بالا کے ارکان (سینٹرز) بھی اپنی چھ سالا مدت پوری کرکے ریٹائرڈ ہوئے ۔ باجی زاہدہ پروین ہاشمی کی عمر کو مفرد کریں تو اسکا عدد بھی چھ آتا ہے یعنی کے باجی زاہدہ پروین ہاشمی کا عدد چھ اور سینٹرز حضرات کا عدد بھی چھ بنتا ہے۔ سینٹرز اور باجی زاہدہ کی ریٹائرمنٹ میں بہت فرق پایا جاتا ہے۔ باجی زاہدہ پروین ہاشمی کے اعزاز میں اس کے ساتھیوں نے الوداعی پارٹی کا انعقاد کیا جبکہ ہمارے سینٹرز حضرات کو کسی نے پوچھا تک نہیں۔ اگر چیئرمین سینٹ نے کوئی عشائیہ وغیرہ کا اہتمام کیا بھی ہو تو اس میں اور باجی زاہد ہ کے اعزاز میں اس کے ساتھیوں کی جانب سے الوداعی پارٹی میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے ۔ چیئرمین سینٹ یا سکریٹری سینٹ کا عشائیہ سرکاری خزانے سے دیا گیا ہوگا جبکہ باجی زاہدہ پروین ہاشمی کے لیے منعقدہ الوداعی پارٹی پر اٹھنے والے اخراجات اس کے ساتھیوں نے خالصتااپنی گرہ سے ادا کیے ہیں۔
باجی زاہدہ کی الوداعی پارٹی میں شریک ہونے کا موقعہ ملا، برخوردار محمد راشد ہاشمی نے گلی کی نکڑ پر روکا اور مجھے اسی وقت اپنے ساتھ سول ڈسپنسری شرقپورچلنے کی دعوت دی، میرے استفسار پر اس نے بس اتنا کہا کہ آج امی جان کی ریٹائرمنٹ ہے اور وہاں ان کے کولیگس نے ان کے اعزاز میں ایک الوداعی پارٹی کا انتظام کیا ہے۔سو انکار کی گنجائش نہ پاکر اس کے ساتھ موٹر سائیکل پر سوار ہو گیا۔ اسی دوران سید طہماسپ علی نقوی کا بھی فون آیا اور وہ بھی الوداعی پارٹی میں آنے کا کہہ رہے تھے۔ ابھی میں اور برخوردار راشد ہاشمی وہاں پہنچے ہی تھے کہ محکمہ صحت کے ایک ضلعی افسر کی آمد پر باجی زاہدہ سمیت تما م لوگ ان کی جانب بڑھے اور ہمیں( مجھے اور محکمہ صحت کے ضلعی افسر و دیگر مہمانان گرامی کو) پھولوں کی برسات میں پارٹی ہال میں لے گئے۔

پارٹی منتخب افراد شریک تھے مگر انتہائی سب کے چہرے باجی زاہدہ کی طرح خوشی سے کھلے ہوئے تھے۔ مگر ہمارے سینٹرز چہرے ایوان بالا میں موجود ہونے کے بوجود مرجھائے مرجھائے تھے۔ حالانکہ ایوان بالا کے ارکان ہونے کی حثیت سے انہوں نے اربوں روپے قومی خزانے سے ہتھیائے جبکہ محض قلیل تنخواہ سے اپنے گھر باورچی خانہ چلا نے والی باجی زاہدہ کے چہرے پر خوشی و مسرت رقصاں تھی ۔
شائد اسی بنا پر یار دوستوں کا اصرار ہے کہ اس ملک کو بے چارے چھوٹے سرکاری ملازمین نے نہیں بڑی بڑی توندوں والے سیاستدانوں اور بیوروکریٹس نے لوٹا ہے۔شرکاء پارٹی سب خوش و خرم ہنستی مسکراتی اورخدا بزرگ و برتر کے سامنے سجدہ ریز باجی زاہدہ اپنے ساتھی ملازمین کی جانب سے پارٹی کے انعقاد پر اور افسران کا دعوت میں شریک ہونے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے ان سے دوران ملازمت کسی غلطی کوتاہی کا مرتکب ہونے پر معافی کی خواستگار تھی۔ لیکن سب اسکی کے اخلاق اور خدمت کے جذبے کو سراہتے ہوئے انکے بچھڑنے کے دکھ کا اظہار کر تے ہوئے آبدیدہ تھے۔ مگر ہمارے ایوان بالا سے ریٹائرڈ ہونے والے ملک کے طاقتور ترین شخصیات کو کسی نے دروزے تک چھوڑنا بھی گوارہ نہیں کیا آنکھوں کا آبدیدہ ہونا یا ان سے ساون کی جھڑی کی طرح آنسوؤں کا بہنا دور کی بات ہے۔ دعا ہے کہ اﷲ تعالی ہمارے ان طاقتور شخصیات کو باجی زاہدہ پروین ہاشمی کی طرح ملک اور عوام کی خدمت کرنے کے جذبے سے نوازے۔
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144489 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.