اپنا احتساب کیوں نہ کریں
(Yousuf Ali Nashad, Gilgit)
شینا زبان کا یہ محاورہ مشہور ہے
کہ چونچ کیچڑ میں اور نظریں آسمان پر۔اسی طرح ہر زبان میں یہ محاورہ بھی
سدا بہار ہے کہ پہلے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھو پھر بات کرو۔تیسرا
محاورہ ہر زباں پر رواں دواں ہے کہ بنیاد مظبوط ہو تو عمارت بھی مظبوط
ہوگی،چوتھا محاورہ تبدیلی ہوا میں نہیں بلکہ زمین پر کام کرنے سے آتی ہے۔اس
دفعہ کا مضمون ان چار محاوروں پر ہی مشتمل ہوگا۔ہم بغیر تمہید کے ہی بات
شروع کرنا چاہیں گے۔پہلا محاورہ’’چونچ کیچڑ میں اور نظر آسمان پر‘‘یہ اُس
آدمی کے لئے کہا جاتا ہے جو عملی طور پر کوئی تعمیراتی کام کرنے سے عاری
ہوتا ہے، نہ اپنے گھر کے لئے کار آمد نہ کسی دوسرے ضرورتمند کے کام آتا ہے۔
حتیٰ کہ وہ اپنی روزی بھی نہیں کما سکتا ہے ،اپنے گھر والوں پر، خاندان پر
معاشرے پر بلکہ خود پر بھی اس کی زندگی ایک بوجھ کی حیثیت رکھتی ہے۔جسمانی
اعضاء سلامت ہونے کے باوجود بھی وہ ایک ناکارہ انسان کی مانند زندگی گزارتا
ہے،محنت مزدوری کو ہیچ سمجھتا ہے اور دوسروں کے بل بوتے پر وہ زندہ رہتا
ہے۔جب اس سے بات کی جائے یا وہ کسی سے بات کرے تو اوروں کی تقدیر بدلنے کی
بلند بانگ دعوے کرتا ہے۔ اس کی ہر بات نیشنل کم انٹر نیشنل زیاد ہ ہوا کرتی
ہے خود کو سب سے دانا،اعلیٰ اور برہمن تصور کرتا ہے۔جب کہ اس کی اپنی زندگی
ناکار ہے اپنی تقدیر نہیں بدل سکا ہے اور دنیا کو بدلنا چاہتا ہے ایسے شخص
کو کہا جاتا ہے کہ اس کا چونچ کیچڑ میں اور نظر آسمان پر۔یہ تو انفرادی بات
ہوئی اسی طرح یہ محاورہ سیاستدانوں سیاسی تنظیموں ،قوموں اور ممالک پر بھی
صادق آتا ہے۔ جیسا کہ بزرگوں نے فرمایا ہے کہ انسان نظر اور تصور کو خواہش
سمجھے اور اس مشکل مقصد کے حصول کی خاطر مشکلات کا سامنا کرنے سے کترائے تو
وہ انسان، وہ سیاستدان، وہ تنظیم، وہ قوم، اور وہ ملک اپنے خواب کو کبھی
بھی شرمندہ تعبیر نہیں دیکھ سکتے ہے،جب کہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اس طرح
کے ہوائی خیالات سے ایک معاشرہ ایک طبقہ اور قوم کے اندر بگاڑ ضرور پیدا
ہوئی ہے۔فرض کریں ایک پسماندہ ملک کسی سپر پاور ملک سے لڑنے جائے تو اس کا
کیا حشر ہوگا کیا اُس ملک کے سربراہ کی عقل پر ماتم نہ کی جائے گی؟ہوا میں
تیر چلانے والے لوگوں کو اوروں کا مستقبل سے کھیلنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا
ہے۔ایسا کوئی شخص ہو، لیڈر ہو،حکمران ہو جو کوئی بھی ہو ان کی اصل کیچڑ میں
اور نقل آسمان پر ہوا کرتی ہے ایسے لوگ احساس برتری کی بیماری کا شکار رہتے
ہیں۔دوسری بات اگر ان پر کوئی ظلم ہوا ہو تو وہ اپنی زیادتی کا بدلہ اپنے
دشمن سے لینے کے بجائے اپنے ہی سماج کے لوگوں کو گمراہ کر کے لیتے ہیں۔اگر
اس طرح کے لوگوں کو اہم ذمہ داری سونپی جائے یا اپنا نجات دہندہ تصور کیا
جائے تو اس قوم کا خدا ہی حافظ ہے۔
دوسرا محاورہ’’پہلے اپنے گریبان میں جھانکو پھر بات کرو‘‘مثال کے طور پر
کوئی بڑا سیاستدان، حکمران، آفیسر، یا کوئی عام آدمی ہی کیوں نہ ہو وہ سود
کھاتا ہے،مختلف طریقوں سے رشوت لیتا ہے،کرپشن کرتا ہے،یا کسی ایجنٹ کی
ایجنٹی کرتا ہے،یا غیروں کے عزائم کی تکمیل کے لئے انکے پھینکے ہوئے ہڈیوں
پر پلتا ہے،مگر ان تمام برائیوں کے باوجود وہ دوسروں سے یہ کہتا پھرے کہ تم
غلط ہو تم بھی ٹھیک نہیں ہو، وہ بھی خراب ہے، سب کی برائیاں کرتا پھرے اور
ہر جاہ اوروں کو نصیحت کرتا پھرے۔ یہ مثال بھی ہر وہ شخص، ہر وہ لیڈر، ہر
وہ حاکم اور ہر ذمہ دار کے لئے مخصوص ہے جو اپنے کردار کو سنوارے بغیر
اوروں کو برا بھلا کہنے کے عادی ہوتے ہیں،تیسرا محاورہ’’ بنیاد مظبوط ہو تو
عمارت بھی مظبوط ہوگی‘‘ اس محاورے کی ایک سیدھی سادھی مثال تو یہ ہے کہ
واقعی اگر کوئی عمارت بنانا چاہئے تواس کی بنیاد ی کھدائی،گہرائی اور
مظبوطی کا خیال رکھنا اس عمارت کے لئے اولین ضرورت ہے تاکہ یہ عمارت ہر طرح
کے خطرات سے جلدی متاثر نہ ہوسکے اور اس کی مظبوطی برقرار رہے،اسی طرح اگر
کوئی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کی ابتدائی تعلیم درست ہو تو اسے اگلی
جماعتوں اور اعلیٰ تعلیم کے حصول میں میں بھی کوئی دقت نہیں ہوتی ہے اور
یوں وہ اپنی منزل تک بہ آسانی پہنچنے میں کامیاب رہتا ہے۔یا کسی مریض کا
مرض شروع ہوتے ہی اچھے ڈاکٹر سے علاج کروایا جائے تو وہ بیماری پھیلنے سے
قبل ہی ختم ہوتی ہے ،بصورت دیگر جب مرض بڑھتا جائے جراثیم نشونما پاجائیں
تو یہ بیماری مریض کے لئے جان لیوا ثابت ہوگی۔یہی مثال سیاسی، سماجی اور
قوموں کے درخشاں مستقبل کے لئے بھی صادق آتا ہے۔چوتھا محاورہ’’تبدیلی آسمان
پر نہیں زمین پر آتی ہے‘‘جب سے یہ کائینات وجود میں آئی ہے تب سے بنی نوع
انسان نے زمین پر محنت کرکے اپنی حالت بدل ڈالی ہے خدا نے انسان کے تمام
لوازمات کا بندوبست زمین پر ہی کر رکھا ہے اور تا ایندم زمین پر ہی محنت
کرکے اپنی تقدیر اور حالت کو مذید بہتر بنانے کا سلسلہ جاری و ساری ہے، یہی
مثال انفرادی و اجتماعی حوالے سے بھی دی جاسکتی ہے،خواہ کوئی سیاسی تنظیم
ہو، عسکری معاملات ہوں،ملک یا کسی قوم کا معاملہ ہو۔یعنی بغیر تیاری کے وہ
نہ کسی کے ساتھ لڑ سکتے ہیں نہ ہی وہ ترقی کے منازل طے کرنے کے قابل رہتے
ہیں۔کامیابی انہی کے قدم چومتی ہے جو اپنے حدف کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام
لوازمات جو انہیں درکار ہیں قبل از وقت ان کی بھر پور تیاری کی جائے۔اور وہ
گھرانا، وہ خاندان، وہ تنظیم، وہ قوم، وہ ملک کو اپنے احداف کے حصول میں
کامیاب ہونے میں زیادہ دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔
آئیں ذرا ہم مذکورہ محاوروں کی روشنی میں گلگت بلتستان میں بسنے والے لوگوں
کی انفرادی و اجتماعی خصوصیات کا ایک مختصر سا جائزہ لیتے ہیں۔’’انفرادی
جائزہ‘‘ یہاں آپ کا کوئی جگری دوست یا عزیز ہی کیوں نہ ہو جب وہ معمولی سی
بھی ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب رہتا ہے تو جب آپ کسی کام سے ان کے پاس
جائیں گے تو اس کا رویہ انتہائی جارہانہ اور فرعون جیاسا محسوس ہوتا ہے اور
بہت قلیل عرصے میں اپنی تنخواہ سے کئی گناہ زیادہ وہ کما لیتا ہے جبکہ لقمہ
حرام کو شیر مادر کی طرح ہضم کرنے میں دیر نہیں کرتا ہے یعنی اکثریت اس طرح
کی ہے۔عزیزوں، اور خاندان والوں کے ساتھ بھی ہمارا رویہ ظالمانہ ہے،دفتری
اوقات میں ذاتی امور کو ترجیح دینا، اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اُٹھانا غرض
جو جہاں جس جگہ پر بھی تعینات ہو اور جس مقام پر بھی ہو، کرپشن،لوٹ مار،
رشوت خوری،جھوٹ، یہ سب اس طرح عام ہیں جیسے ہم نے قاعدہ میں یہی کچھ پڑھا
ہو، کیا ایسا نظر نہیں آتا ہے؟جب کہ تفرقہ بازی میں اس حد تک ہم آگے نکل
چکے ہیں کہ جانی دشمن بھی سمجھوتہ کر سکتے ہیں مگر ہمارے درمیان گنجائش کم
نظر آرہی ہے۔فحاشی بھی اپنے عروج پر ہے، جب کہ اندرونی قوم پرستی جو نفرت
پرستی کا باعث بنی ہے وہ ایک طرف ہمیں اجتماعی قومی ترقی میں رکاوٹ کا باعث
ہے۔جب کہ سیاسی حوالے سے جتنی سیاسی پارٹیاں وفاق میں بنی ہیں ان سب کی
شاخیں اور جیالے یہاں پر بھی موجود ہیں ان میں ہر پارٹی دوسری پارٹی کے
لوگوں سے نفرت کر رہی ہے حالانکہ سب ایک دھرتی کے ایک علاقے کے لوگ ہیں اور
ان سب کا کہنا ہے کہ قوم پرست ٹھیک کام کر رہے ہیں مگر یہ سب عملی طور پر
قوم پرستوں کیخلاف ہیں مزے کی بات تو یہ ہے کہ زیادہ تر لوگوں کا کہنا ہے
کہ ہم بھی قوم پرست ہیں مگر ہم اندر سے ہیں اور آپ ظاہر ہیں ہمیں آج تک یہ
اندر کی قوم پرستی سمجھ نہیں آئی؟آیا یہ بتایا جائے کہ زندگی کا وہ کونسا
شعبہ ہے جس میں ہم مخلص اور ایمانداری کے ساتھ چل رہے ہیں؟اگر آبادی کے
تناسب کے اعتبار سے دیکھا جائے تو گلگت بلتستان میں جتنا کرپشن اور دیگر
برائیاں موجود ہیں وہ کہیں اور نہیں۔ جب کہ دیگر شہروں کے لوگ اپنے خیال
میں گلگت بلتستان کے لوگوں کو ساد ہ لوح اور پکے مسلمان سمجھتے ہیں واقعی
اپنے تئیں تو ہم ایسا ہی ہیں مگر حقیقت اس کے بر خلاف ہے۔ اسلامی بھی ہم،
پکے مسلمان بھی ہم، نماز اور روزے کے پابند بھی ہم تراویح اور مجالس میں
بھی ہم جذبے کے ساتھ شامل ہیں، حاجی اور الحاج بھی ہم ہیں مگر پی ڈبلیو ڈٰی
و دیگر اداروں میں جہاں رشوت و دیگر معاملات پر لین دین کا مفاداتی مرحلہ
آتا ہے تو ہم یہ سب کچھ بھول جاتے ہیں کہ آیا ہم مسلمان بھی ہیں یا نہیں،اس
بے عملی دنیا میں عقائد ضرورت کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔آجائیں اب
’’وفاداری کی جانب‘‘ ہم نظریاتی طور پر کسی کے بھی وفادار لوگ نہیں ہیں اور
یہ سچ پر مبنی حقائق ہیں،یہاں کے لوگوں نے وفاق میں موجود تمام سیاسی
پارٹیوں میں شمولیت اختیار کی ہے وہ محض مفادات کی خاطر، اگر کل کلاں قوم
پرستوں کا دور شروع ہوجائے تو یہی لوگ وہی نعرے لگاتے ہوئے آگے بڑھ جائیں
گے جن نعروں کو وہ شجرہ ممنوعہ سمجھ کر اندر سے اپنے مفادات کے دلدادہ تھے،
اور اُس وقت یہی لوگ قوم پرستوں کو روندتے ہوئے آگے نکلنے کی کوشش کریں گے،
نظریہ ضرورت پر چاروں سمت گھومنے والے لوگ ہیں۔’’مذہبی منافرت‘‘ اس شعبے
میں یہاں کے لوگ بہت ہی آگے نکل چکے ہیں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو قتل
کرنا نہ صرف جائز بلکہ جنت کا ٹکٹ تصور کرتے ہیں اس تباہ کن سوچ میں نچلا
کچلا طبقہ سر دھڑ کی بازی لگا رہا ہے اور یہی لوگ استعما ل ہورہے ہیں اور
مر بھی رہے ہیں،کاش یہی جذبہ اپنے مشترکہ قومی مفادات پر، اور اپنی حالت
بدلنے پر استعمال کرتے تو آج گلگت بلتستان ایک پر امن اور مثالی خطہ
کہلاتا۔مگر ہماری یہ ریت رہی ہے کہ اپنے ہمدردوں کا کہنا سننے اور ماننے کے
بجائے غیروں کے کہنے پر شوق سے عمل کرتے ہیں،ایک بات ذہن میں رکھیں طالبان
نے کچھ عرصہ قبل یہ بیان دیا تھا کہ گلگت بلتستان کو انہوں نے اپنے تئیں
اپنے آئین کا حصہ بنا رکھا ہے، طالبان کے بڑے بڑوں نے بھی اکثر اس طرح کے
اشارے دیئے ہیں یہ کوئی معمولی بات نہیں۔خدا نہ خواست اگر یہ دہشت گرد یہاں
وارد ہوئے تو یقین سے کہا جاتا ہے خوش آمدید کرنے والے لوگ بھی یہاں موجود
ہونگئے وہ عقل ، شعور اور اپنا حشر سے نابلد ہو کر ایسا کریں گے۔جب عراق
میں بھی داعش کو خوش آمدید کرنے والوں نے خوش آمدید کیا تھا مگر بعد میں ان
کی جان بچی نہ ناموس بچا خدا ایسی احمقانہ سوچ سے ہم سب کو بچا رکھے۔اس خطے
پر امریکہ، انڈیا، چین اور دیگر طاقتیں نظریں جمائے بیٹھے ہیں وہ صرف اور
صرف یہاں کے قدرتی خزینوں اور جغرافیائی اہمیت کو مد نظر رکھ کر بھوکے
درندوں کی مانند شکار کرنے کے لئے چوکس ہیں اور عین ممکن ہے کہ کچھ ہمارے
درمیان میں سے کسی کو استعمال کریں۔اب آئیں ذرا ’’قوم پرستی کے حوالے سے
بھی اپنا احتساب ہوجائے‘‘جس طرح دنیا میں قوم پرست اپنی قوم کو ایک باشعور،
بیدار، اور محنت کش قوم بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور جب قوم واقعی قوم
بنتی نظر آئی تو تب انہوں نے قوم کو اصل قومی حدف سے آگاہ کیا ہے یعنی پہلے
اپنے کردار اور حکمت عملی سے قوم کے دل میں جگہ بنائی اور انہیں شعور دیا
،محنت کرنا سیکھایا، اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا ہنر دیا جب قوم متحد ہوئی
تو پھر آزادی کی بات کی۔ میں اس مثال کے ذریعے واضع کرنا چاہوں گا، فرض
کریں آپ کسی دشمن کا مقابلہ کرنے جا رہے ہیں اور جانے سے قبل آپ کسی جگہ پر
میٹنگ کرتے ہیں کچھ معاملات طے کرتے ہیں پھر آپ میدان عمل میں نکل آتے ہیں،
اگر قبل از وقت آپ کے عزائم سے دشمن آگاہ ہوا تو کیا آپ دشمن کو نیچا
دکھانے میں کامیاب رہیں گے؟ہرگز نہیں بالکل اسی طرح قوم پرستی کا معاملہ
بھی ہے،اب تک ہم نے کتنی بنجر زمینوں کو آباد کیا ہماری قوم کتنی فیصد اپنے
پیروں پر کھڑی ہے اور قوم پرست عوام کے کتنے قریب ہیں اگر غور کیا جائے تو
ہماری کہانی ان چند الفاظ کے اندرپنہاں ہے۔یاد رکھیں یہاں اندرونی اور
بیرون بد نیت قوتیں تیار بیٹھی ہیں کہ کب یہ لو گ منتشر ہوجائیں تاکہ ہم
اپنا قبضہ جما سکیں ۔کیا قوم پرستوں نے ان تمام درپیش مشکلات کے لئے حکمت
عملی طے کی ہے؟ طاقت بنائی ہے؟کیا اس اانداز سے عوام کو تیار رکھا ہے ؟ کیا
اس طرح ہم باو قار قوم بنیں گے؟زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے بات کریں
کہ یہاں کتنے فیصد لوگ قوم پرست ہیں در حقیقت قوم پرستوں نے بنیادی قوم
پرستی کے حوالے سے کام ہی نہیں کیا ہے۔مجھے اندازہ ہے کہ وہ حضرات جنہوں نے
میرا گزشتہ مضمون’’آزادی کی جدوجہد پر اعتراض کیوں‘‘ کا مطالعہ کر چکے ہیں
تو وہ میرے اس مضمون پر سوال اُٹھا ئیں گے اس لئے اُس کا بھی جواب دیتا
چلوں۔اس مضمون میں میرا کہنا یہ تھا کہ اس خطے نے آخر کار آزاد تو ہونا ہی
ہے مگر اس آزادی میں ہماری کیا حیثیت ہوگی؟ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ
حیثیت زمینی جدوجہد کے مطابق ملتی ہے فقط منشور چھاپ کرنے سے نہیں ملتی ہے۔
ہمیں اس جانب بھی غور کرنا چاہئے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہماری جدوجہد اُن
لوگوں کے لئے ہو جنہیں ہم خطے کے لئے نقصان دہ سمجھتے ہیں یا جن کا کردار
قومی مفاد کے منافی رہا ہے۔لہٰذا اب بھی وقت ہے ہمیں ہوا میں تیر چلانے کے
بجائے صحیح معنوں میں جدوجہد کرنا ہوگا،اس طرح نہیں کہ نعرہ آزادی کا
لگائیں اور جدوجہد آٹے کے تھیلے کے برابر ہو اس طرح قوم پرستی نہیں
چلتی۔ہمیں از سر نو اپنی کوتاہیوں سے ہی سبق سیکھنا ہوگا اپنے منشور کے
مطابق تیاری بھی کرنی ہوگی دنیا میں وہی لوگ تیاری کرتے ہیں ،سرخرو ہوتے
ہیں جو اپنا احتساب خود کرنے کے عادی ہوتے ہیں اس لئے ہمیں بھی اپنا احتساب
ضرور کرنا چاہئے تا کہ قوم خسارے میں نہ رہے۔ |
|