پنڈی بھٹیاں.... غیور اور زندہ دلوں کا شہر

پنڈی بھٹیاں کی اصل پہچان تو درحقیقت دلا بھٹی ہی ہے لیکن اس سرزمین کاایک اور سپوت پروفیسر اسد سلیم شیخ جنہوں نے بارہ کتابیں لکھنے کے علاوہ علم و دانش اور تعلیمی میدان میں پے درپے کامیابیاں حاصل کرکے خود کو پاکستان کے ادبی حلقوں میں منوایا ہے آج وہ اپنی سرزمین کی پہچان بن چکے ہیں۔ وہ گورنمنٹ ڈگری کالج کے وائس پرنسپل ہیں۔گزشتہ دنوں ان کی دعوت پر میں پنڈی بھٹیاں پہنچا تو انہوں نے جس والہانہ انداز میں میرا استقبال کیا وہ میرا ہی نہیں نوائے وقت کا بھی اعزاز بنتا ہے جس کا میں کالم نگار ہوں دریائے چناب کے کنارے اور موٹروے سے ملحقہ یہ کالج 1996ء میں قیام پذیر ہوا ۔ کالج کے پرنسپل پروفیسر اویس نہایت شریف النفس ٗ اہل علم اور شفیق انسان ہیں ۔اس کے باوجود کہ ان سے میری یہ پہلی ملاقات تھی لیکن وہ اتنے خلوص اور محبت سے ملے جیسے صدیوں پرانے دوست ہیں۔ اب تک یہ کالج بورڈ سطح کی تین نمایاں پوزیشنیں حاصل کرچکا ہے جبکہ پنجاب سطح پر تقریری اورانشا پردازی کے مقابلوں میں کالج کے طلبا نے ڈویژن سطح پر نمایاں پوزیشنیں حاصل کرکے یہ ثابت کردیا کہ اساتذہ کرام نہایت محنت سے طلبہ کو زیور تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں۔کالج کی کراس کنٹری ٹیم مسلسل بارہ سال سے انٹر کالجیٹ مقابلوں میں چمپیئن چلی آرہی ہے ۔پروفیسر اسد سلیم شیخ نے ہمیں کالج کے آڈیٹوریم میں طلبہ سے مخاطب ہونے کا موقع بھی فراہم کیا ۔ " دور حاضر میں والدین اور اولاد میں دوریاں کیوں پیدا ہورہی ہیں"کے موضوع پر کالج طلبہ نے اتنی اچھی تقریریں کیں جس کی میں داد دیئے بغیر نہ رہ سکا ۔یہاں سے فراغت کے بعد ہم گورنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین پہنچے جہاں میرا استقبال کالج کی پرنسپل ٗ پروفیسر فریدہ کریم اور دیگر اساتذہ کرام نے کیا۔ یہ وسیع و عریض رقبے پر پھیلا ہوا یہ کالج بھی اپنی نوعیت کا منفردکالج نظر آیا بلکہ اس وسیع و عریض لان میں سرخ رنگ کا گھاس کچھ اس انداز سے اگا ہوا دکھائی دیا جیسے قدرت نے بطور خاص یہاں سرخ رنگ کا قالین بچھا دیا ہو۔رقبے ٗ عمارت ٗ ہوسٹل اور سہولتوں کے اعتبار سے دونوں کالج ہی اپنی مثال آپ تھے لیکن پنڈی بھٹیاں انٹر چینج سے لے کر کالج تک جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر ٗ خوانچہ فروشوں کی بے ترتیب بھرمار اور سیوریج کے گندے پانی کی بہتات یہاں آنے والوں پر اچھا تاثر نہیں چھوڑتی۔چنیوٹ میں معدنی ذخائر کی دریافت کے حوالے سے یہ گزرگاہ بین الاقوامی اہمیت اختیار کرچکی ہے یہ واحد راستہ ہے جوبذریعہ سڑک چنیوٹ شہر کی طرف جاتا ہے لیکن یہ سڑک اور اس کے اردگرد تجاوزات ٗ بدنظمی اور غلاظت کے ڈھیراس تاریخی اہمیت کے شہر کی شہرت کو داغدار کر رہے ہیں۔ کالج تک جانے والی سڑک لہلہاتے کھیتوں کے خوشگوار ماحول کے باوجود انتہائی خستہ حال ہے جس پر چل کر کالج پہنچنا واقعی بہت دشوار ہے۔ارادہ تو تھا کہ مقامی اسسٹنٹ کمشنر سے مل کر ان سے پوچھوں کہ کیا اس تاریخی شہر کی صفائی کروانا ان کے فرائض میں شامل نہیں ہے لیکن پروفیسر اسد سلیم ہمیں پنڈی بھٹیاں کے تاریخی شہر دکھانے لے گئے ۔جو واقعی تاریخی اہمیت کا حامل شہر ہے ۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ تحصیل پنڈی بھٹیاں ضلع حافظ آباد اور وسطی پنجاب کا تاریخی قصباتی شہر ہے ۔لاہور سے 110 کلومیٹر کی مسافت پر یہ شہردریائے چناب کے کنارے آٹھ صدیاں قبل بھٹی قبیلے نے آباد کیا تھا ۔اس سرزمین کے لوگ بہت بہادر ٗ جفاکش اور دلیر مانے جاتے تھے ۔دلا بھٹی کی قیادت میں بھٹی قبیلے کے غیور لوگوں نے اکبر بادشاہ کے دور میں بغاوت کرکے اپنی الگ ریاست قائم کرلی۔دلابھٹی کی اس خود مختار ریاست میں گوجرانوالہ ٗ شیخوپورہ ٗ ننکانہ صاحب ٗ حافظ آباد ٗ چنیوٹ اور فیصل آباد کے بیشتر علاقے شامل تھے۔اکبر بادشاہ کو جب دلابھٹی کی بغاوت کی خبر پہنچی تو اس نے سرکوبی کے لیے کئی لشکر بھیجے۔ دلابھٹی کی قیادت میں بھٹی قبیلے کے لوگوں نے بہادری کے جوہر تو دکھائے لیکن زیادہ دیر اکبری لشکرکے سامنے ٹھہرنہ سکے چنانچہ دلابھٹی کو گرفتار کرکے لاہور میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا اورلاہور کے تاریخی قبرستان میانی صاحب میں دلا بھٹی کی قبر آج بھی جرات اور بہادری کی علامت بن کر اپنے قبیلے کی پہچان کرواتی ہے ۔پروفیسر اسد سلیم شیخ ٗ دلابھٹی ٹرسٹ کے صدر اورپنجابی کے ممتاز شاعر بشیرصاحب جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے آج بھی ہر ہفتے جہاں ادبی محفلوں کا انعقاد کرتے ہیں وہاں وہ اپنی نثر اور شاعری کی صورت میں اپنے جد امجد دلا بھٹی کے کارناموں کو اجاگرکرنے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔بشیرصاحب نے پنجابی کی ایک بہت ہی اچھی غزل"ٹالی دے تھلے" سناکر محفل کو چار چاند لگا دیئے۔ میں سمجھتا ہوں پروفیسر اسد سلیم شیخ اور بشیرصاحب جیسے لوگ ایک پھول کی مانند ہوتے ہیں جن کی خوشبو کو کسی ایک شہر میں قید نہیں کیاجاسکتا اور ایسے لوگ پورے معاشرے اور ماحول کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ یہاں عرض کرتا چلوں کہ پروفیسر اسد سلیم شیخ ایک اچھے استاد اور ادیب ہی نہیں وہ بہت اعلی پائے کے گائیڈ بھی ہیں ان کا پنڈی بھٹیاں شہر کی ایک ایک بات از بر ہے۔وہ ہمیں لے کر ایک ایسی تاریخی عمارت میں داخل ہوئے جو انجمن اصلاح المسلمین کے نام سے منسوب تھی انجمن اصلاح المسلمین کی عمارت میں پنڈی بھٹیاں کی سب سے تاریخی اور پرانی لائبریری بھی موجود تھی۔یہ لائبریری 1932ء میں قائم ہوئی جہاں نہ صرف قرآن پاک کے چار سو سال پرانے قیمتی اور بہت چھوٹے نسخے بھی ہمیں دکھائے گئے پھر ایک پہاڑ کا ٹکڑا بھی شیشے کے جار میں رکھا ہوا دکھایاگیا جس پر حضرت عثمان غنی ؓ سے مناسبت کی تحریر کندہ تھیں۔ اس لائبریری میں نہ صرف اردو اور فارسی کے الگ الگ سیکشن موجود تھے بلکہ مشاہیر اسلام اور مشاہیر پاکستان کے حوالے سے نہایت قیمتی دستاویز اور کتابیں بھی موجود تھیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ لائبریری پنڈی بھٹیاں جیسے شہر میں اپنی نوعیت کی منفرد اور تاریخی اہمیت کی حامل ہے لیکن نوجوان نسل کی عدم توجہی اور فنڈز کی عدم دستیابی کی بنا پر لائبریری کی بوسیدہ عمارت کسی بھی وقت زمین بوس ہوسکتی ہے ۔ اس لیے تاریخی اہمیت کی اس لائبریری کو محفوظ کرنا مقامی انتظامیہ کا اولین فرض ہونا چاہیئے۔پروفیسر اسد سلیم شیخ کی رہائش گاہ اپنی نوعیت کا منفرد گھر ہے جو ان کے خاندانی مزاج کا حسین امتزاج ہے۔اس دورے کی خوشگوار یادیں ہمیشہ ہمارے دامن گیر رہیں گی۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 786 Articles with 687163 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.