انسان نہ سہی…… گدھ کیلئے ہی قانون سازی کرلی جائے!
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
میٹنگ جاری تھی ۔شرکاء میٹنگ میں
بے چینی اوراضطراب کی کیفیت نمایاں تھی۔ان کی حرکات وسکنات کسی اہم
ایشوکاعندیہ دے رہی تھیں۔کچھ نوجوانوں میں جذبات کی گرمی زیادہ تھی تووہ
اونچی آواز میں بات کر رہے تھے۔کچھ دھیمے لہجے میں اپنا مدعابیان کررہے تھے
اورکچھ جو عمر رسیدہ اورجہاندیدہ تھے وہ خاموشی سے سب کچھ دیکھ رہے
تھے۔اتنے میں ایک مخصوص آواز سنائی دی اور سب خاموش ہوگئے۔پھر ان کا سربراہ
گویا ہوا۔ میرے دوستو! ایک وقت تھا کہ ہم سب خوشحال تھے۔کھانے پینے کی کوئی
فکر نہ تھی۔ہمہ وقت نت نئے کھانے اورخوراک ہمارے منہ کاذائقہ اورپپٹ
کاایندھن بھرنے کیلئے موجودرہتی تھی۔ہرعلاقے میں کہیں نہ کہیں سے
غذاکاملناروزکامعمول تھا۔اس وقت کے لوگ بھی اتنے مہذب نہیں کہلاتے تھے۔اس
وقت بھی غربت تھی۔لیکن ہمیں کبھی بھوکا نہیں سونا پڑاتھا مگر آج کے موجودہ
دور میں ہمیں پیٹ کاجہنم بھرنے کیلئے معقول خوراک نہیں ملتی۔ہمارے حصے میں
آنے والی غذا اور خوراک آج کا مہذب کہلوانے والا انسان نہیں چھوڑتا۔ مرے
ہوئے حلال جانور گائے بھینس بکری بھیڑاور مرغیاں تو استعمال میں تو لاہی
رہا ہے حرام جانوروں گدھوں اور کتوں کا گوشت بھی ان کی ڈشزکی زینت بنایا
جارہا ہے۔یہ ہمارے حصے کی خوراک تھی جسے آ ج کا مہذب انسان اپنے ہی انسان
بھائیوں کو حلال بناکرفروخت کررہا ہے۔مردار اور حرام جانوروں کا گوشت کوڑا
گھروں اور ویرانوں میں پھینکنے کی بجائے ہوٹلوں کے دسترخوانوں پرسجایا جائے
گا توغذا کی قلت ہمارا مقدر بننا ہی ہے۔ آج کی میٹنگ بلانے کا مقصد بھی یہی
تھا کہ ہم کیسے اپنا حق وصول کرسکتے ہیں اس کیلئے احتجاج کرنے کے علاوہ او
ر کیا حکمت عملی اپنائی جاسکتی ہے ہم کمزور ہوتے جارہے ہیں ہماری نسل معدوم
ہوتی جارہی ہے بھوک کا وبال ہماری آدھی سے زیادہ نسل کوہڑپ کرچکا ہے کیا
صورت اختیار کی جائے کس سے بات کی جائے کہ اس اشرف مخلوق کو سمجھائے کہ وہ
مردار جانوروں کو ذبح کرنے سے باز آجائے۔قارئین یہ میٹنگ گدھ جاتی کی میٹنگ
تھی جس میں تمام چھوٹے بڑے گدھ سردار اور ان کی قوم نے شرکت کی تھی۔ وہ سب
مضطرب اور پریشان تھے اور ان کی پریشانی جائز بھی تھی کہ ان کی خوراک کو
ایک دوسری نسل ہڑپ کررہی تھی۔
معزز قارئین اگر ہم پندرہ بیس سال ماضی میں جھانکیں تو ہم دیکھ رہے ہوتے
تھے کہ کسی ایک جگہ پر بہت سے گدھ اور اسی نسل سے تعلق رکھنے والے مردار
خور فضا میں منڈلارہے ہوتے تھے جو اس بات کا پیش خیمہ تھا کہ کہیں قریب ہی
کوئی مرا ہوا جاندار موجود ہے اور ان کی خوراک بننے والا ہے لیکن اب اگر
غور کریں تو آپ کو ان گدھوں چیل کوؤں کے غول فضا میں منڈلاتے دکھائی نہیں
دیتے اس کی وجہ یہی ہے کہ جب بھی کوئی جانور مرتا ہے تو اسے کہیں پھینکا
نہیں جاتا بلکہ اسے کم قیمت پرفروخت کردیا جاتا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل ایسا بھی
ہوتا تھا کہ چڑیا گھر ووالے یہ مردہ جانور خرید لیتے تھے اور پالتو درندوں
شیر بھیڑیا لومڑ ریچھ و دیگر کو کھلا دیا جاتھا اب چڑیا گھر میں جانوروں کی
کمی کی وجہ سے کھپت کم ہے اس لئے انسانوں کیلئے زیادہ تر ہوٹلزپر فروخت
کردیا جاتا ہے اور باقاعدہ جوڑتوڑ کیا جاتا ہے بعد ازاں یہ گوشت اور اس کے
بنائی گئی مختلف الانواع ڈششزامیر سے لے کر غریب تک کو کھلادی جاتی ہے۔ یہ
چٹخارے دار ڈششز کھا کر انسان جہاں بہت سے قباحتوں میں گھر جاتا ہے وہاں پر
اس کے کھانے سے انسانی دماغ کند آنکھیں کمزور ہوجاتی ہیں اور وبائی و موذی
امراض کے غلبہ کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کا جناز ہ بھی نکل جاتا ہے کیونکہ جب
حرام کی آمیزش جسم و جان میں سرایت کرے گی تو اس کے نتائج بھی بھیانک ہی
ہونگے۔
پچھلے دنوں کہروڑپکا میں چار من کا ایک مردہ جانور فروخت کیلئے ذبح کیا گیا
مخبری پر صحافی دوستوں کے ہمراہ راقم بھی موقع پر گیا پولیس اور وٹرنری
ڈاکٹر کی مدد سے گوشت اور اس کے خریدار کو تحویل میں لے لیا گیا۔دریافت
کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ وہ قصائی موصوف ہیں جو کہ متعدد مرتبہ اس جرم میں
پکڑے جاچکے ہیں لیکن موثر قانون نہ ہونے کی بنا پر دوسرے روز ہی پھر ڈنکے
کی چوٹ پر رہا ہوکر حرام کھلا رہا ہوتا ہے اس روز اسے لعن طعن کیا تو وہ
شرمندہ یا خوفزدہ ہونے کی بجائے ڈھٹائی سے کہنے لگا کہ میرا کچھ نہیں بگڑے
گا جرمانہ بھر کے جان بخشی ہوجائیگی۔ اس سے زیادہ کیا ہوگا۔ ڈاکٹر اور
پولیس سے پوچھا کہ اس کی زیادہ سے زیادہ سزا کیا ہوگی کوئی ایسا قانون کو
ئی شق ہے جو اس کی بدمعاشی کو لگام ڈال سکے تو یہاں پر اس حوالے سے کوئی
قانون موجود نہ تھا۔یہ او ر اس قسم کے دسویں واقعات ہر روز اخبارات میڈ
شائغ ہوتے ہیں لیکن آج تک کسی حرام اور ملاوٹ شدہ اشیا بیچنے والے ناسوروں
کو کوئی سزا نہ ہوسکی۔حکومت وقت کو اس کے حوالے سے کوئی ایسا قانون بنانا
چاہئے کہاایسے ناسوروں کو پھانسی یا کم ازکم عمر قید کی سزا کا تعین کیا
جائے۔ گذشتہ دنوں وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈریسرچ سکندر بوسن چوتھی
بین الاقوامی حلال کانفرنس اور نمائش2015 سے خطاب کررہے تھے جس میں انہوں
نے حلال پروڈکٹس کی سرٹیفکیشن اور اسکی ریگولیٹری کی بات کی حرام پروڈکٹس
کے روک تھام کی بابت کوششوں کی بات کی ۔سب ٹھیک! حرام پروڈکٹس پر تو لکھا
ہوتا ہے کہ اس کے اجزا کیا کیا ہیں لیکن ہمیں جو حلال کے لبادے میں مردار
اور حرام کھلایا جارہا ہے اس کی بھی تو کوئی بات کی جانی چاہیے۔ اور حکومت
وقت کو چاہئے کہ اسے اگر انسانوں کا خیال نہیں تو کم ازکم گدھ اور اسی قبیل
کے مردار خوروں کے بارے ہی کچھ سوچ لے اور ان کے حصے پر ڈاکہ ڈالنے والے
مہذب انسانوں کو نکیل ڈال دے اور قانون سازی کرلے۔ |
|