وجود زن سے ہے کائنات میں رنگ

ٓگذشتہ روز پاکستان بلکہ دنیا بھر میں عورتوں کا قومی دن منایا گیا آئیے آج ذرا جائزہ لیں کہ عورت کا معاشرے کی تعمیر و ترقی میں عورت کا کردارکتنا ہے اور کس حد تک موئثر ہے ، اس سے پہلے کہ میں اس پہ اپنے خیالات کا اظہار کروں تھو ڑا سا اس کا پس منظر بھی اگر سامنے رکھ لیا جائے تو مجھے بات کہنے اور آپ کو میری گذارشات سننے اور سمجھنے میں آسانی ہو گی،روایتی باتوں سے ہٹ کر میرا پرسیپشن اس حوالے سے ذرا مختلف ہے یہ مو ضوع نہایت ہی جامع اور وسیع ہے اور اس پر آج تک اتنا کچھ لکھا اور بولا جا چکا ہے کہ اس سے کئی کتابیں اور دیوان مرتب کیے جا سکتے ہیں مگر نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نجانے کیوں ہمیں آج تک مطلوبہ نتائج حا صل نہیں ہو سکے،لوگ اس کو سمجھ نہیں سکے یا سمجھانے والے اپنی بات بہتر انداز میں سمجھا نہیں سکے،وجہ کوئی بھی ہوابھی تک معاشرہ عورت اور اس کے کردار کے بارے میں الجھن کا شکار ہے اور مختلف طبقات میں بٹاہوا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ہر کوئی اپنے آپ کو حق پر بھی سمجھتا ہے،کسی کے خیال میں عورت کو چار دیواری سے باہر نکلنا تو دور کی بات کسی سے بات کرنا اور سننا بھی منع ہے جبکہ دوسری طرف والا طبقہ یہ چاہتا ہے کہ عورت کو یوں آزادی مل جائے کہ دنیا کا کوئی بھی قانون اس پر لاگو نہ ہو وہ جس وقت چاہے جو چاہے کر گزرے کوئی اس سے پوچھنے والا کوئی اسے روکنے اور ٹوکنے والا نہ ہو،ان میں کون سا طبقہ صیح ہے کیا پہلا، بالکل بھی نہیں کوئی بھی صائب الرائے بلکہ اوسط دماغ رکھنے والا شخص بھی اس بات کی حمایت نہیں کر سکتا کہ کسی بھی عورت کو کسی ایک جگہ مقید کر کے رکھ دیا جائے تو کیا دوسرا طبقہ جو کچھ کہہ رہا ہے اس کی بات قابل عمل یاقابل قبول ہے شاید نہیں تو پھر یہ ابہام کیسے دور ہوگا کہ کون صحیح کہہ رہا ہے اور کون غلط یہ کیسے پتہ چلے گا تو کیوں نہ اس کے لیے اسی مذہب سے راہنمائی لی جائے جس کے بارے میں مغرب اور مغرب زدہ لو گوں کی یہ رائے ہے کہ اسلام نے عورت کی آزادی سلب کر لی ہے ،کیوں نہ میں آپ کو یہ بتاؤں کہ اسلام نے عورت کو کیا مقام و مرتبہ دیا ہے میرے موضوع کی مناسبت سے یہ ضروری ہے کہ پہلے پورا پس منظر بھی سامنے آنا چاہیے ،اسلام نے عورت کو کاروبار اور پیشہ وعمل کی مکمل آزادی دی ہے ،اس کے لیے تجارت زراعت،لین دین،صنعت و حرفت،ملازمت،درس و تدریس،صحافت و تصنیف الغرض سب ہی کاموں کی اجازت دی ہے،تاہم اس کے ساتھ اس پہ کچھ پابندیاں بھی عائد کی ہیں اور وہ جبریا ظلم ہر گز نہیں ہیں ان پابندیوں کے دو مقاصد ہیں ایک یہ کہ اس کے خاندانی نظام میں خلل او ر انتشار نہ پیدا ہو اور دوسری وجہ تاکہ وہ ایک با عفت و باحیا زندگی گذار سکے اور اسے ایسے حالات میں نہ ڈ الا جائے جس سے اس کے لیے اخلاقی حدود و قیود میں رہنا مشکل ہو جائے،اسلام نے عورت کو دینی روحانی، معاشرتی،سیاسی و اخلاقی اور تہذیبی سمیت وہ تمام حقوق دیے جو اس نے مردوں کو دیئے اور ساتھ ہی جو فرائض مردوں پہ عائد کیے وہی عورت پہ بھی عائد کیے کہیں نہیں لکھا کہ مرد پانچ نمازیں پڑے گا اور عورت پندرہ، نہ ہی کہیں پہ یہ حکم دیا کہ مرد تیس روزے رکھے گا اور عورت ساٹھ،عام طور پر کمزور کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے سخت ترین جد جہد کرنا پڑتی ہے اور آج بعض نام نہاد روشن خیال اس کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا بھی رہے ہیں،مگر اسلام نے چودہ سو سال پہلے یہ حقوق عورت کو دے دیئے،اور یہ حقوق اسلام نے اس لیے نہیں دیئے کہ اس وقت بھی عورتوں کی آزادی کے لیے مارچ ہو رہے تھے یا مدینہ کے بازاروں میں بینرز لگ رہے تھے بلکہ یہ عورت کے فطری حقوق تھے اور اسلام تو ہے ہی دین فطرت۔ اور دوسری وجہ اس دور میں عورت مظلوم تھی اس کی کسی بھی سطح پر کوئی نمائندگی اور شنوائی نہ تھی،کہیں پیدا ہوتے ہی زندہ گاڑھ دی جاتی تھی،کہیں ونی اور ستی کی جاہلانہ رسموں کی بھینٹ چڑھ رہی تھی کہیں جوئے کی بازیوں میں ہاری جا رہی تھی ان قبیح رسموں نے عورت کی حیات کو جہنم زار بنا رکھا تھا،اسلا م کی آفاقی تعلیمات میں ہر مظلوم کی حمایت فرض ہے سو اسلام نے اسے وہ حقوق وہ عزت اور وہ مرتبہ دیا جس کا دنیا کے کسی اور مذہب میں تصور تک بھی ممکن نہیں،اور ایک کمال حیرت کی بات کہ دنیا کے تمام مذاہب کسی بھی فر د کو کوئی حق دے کر اس کے بعد خاموشی اختیا رکر لیتے ہیں لیکن اسلام وہ واحد مذہب ہے جو عورت کو یہ حقوق دیتابھی ہے اور ساتھ ہی ان کی ترغیب کے لیے کبھی جنت ماں کے قدموں کے نیچے رکھ کے اور کبھی دو بیٹیوں کے پرورش کرنے والے کے لیے جنت کی بشارت دے کر ان حقوق پر عمل درآمد کا زبردست جذبہ اور تحریک بھی پیدا کرتا ہے جب ہم بات کرتے ہیں معاشرے کی ترقی اور تعمیر میں عورت کے کردار کی تو زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو عورت ہر میدان میں ہر وقت ہمیں مردوں کے شانہ بشانہ نظر آتی ہے،کا رو بار و تجارت کی بات ہو تو ام المومنین حضرت خدیجہ ۃالکبریٰؓ عورتوں کے لیے ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتی ہیں،علم و ادب کی بات کی جائے تو نظر حضرت عائشہ صدیقہؓ،ام سلمہ ؓ،ام حبیبہؓ،اسما بنت ابوبکرؓ،فاطمہ بنت قیس ؓاور خولہ بنت تویت ؓ تک جا پہنچتی ہے،یہ وہ عظیم اور فقیہہ خواتین ہیں کہ بڑے بڑے صحابہ کرامؓ ان سے علم کے معاملات میں راہنمائی لیتے تھے،عورت جب عظمت و رفعت کی بلندیوں کو چھوتی ہے تو کبھی حضرت آمنہ ؓ اور کبھی حضرت فاطمہ ؓ بنتی ہے اور عظمت و بلندی انہیں دیکھتی رہ جاتی ہے،ولایت کی طرف بڑھتی ہے تو حضرت زینبؓاور حضرت رابعہ بصری ؒبن جاتی ہے،ہم زیادہ دور نہیں جاتے اپنے ملک کی تعمیر سے ہی شروع کریں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں جو یہ پیارا ملک دیا ہے اس کے حصول کے لیے ہمارے آباؤ اجداد نے جوبے بہا قربانیاں پیش کیں ان میں عورتوں کا کردا ر ناقابل فراموش ہے،ایک مرد اپنی جدجہد کے ناتے بابائے قوم بنا تو ایک عورت کو اسی قوم نے اس کی عظیم خدمات کے عوض مادر ملت کا خطاب دیا،اس ملک کے حصو ل کے لیے جو طویل اور صبر آزما جدو جہد کی گئی اس جد وجہد میں سے کسی بھی صورت فاطمہ جناح کی محنت اور قربانی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جس نے اپنی جان اورجان سے پیارا بھائی مسلمانوں کے الگ وطن کے لیے وقف کر دیئے،یہی وہ خدمات تھیں جن کے اعتراف میں ان کو مادر ملت کا خطاب دیا گیا،یہ تو ایک خاتون ہیں ان کے علاوہ پردے کی سخت پابند خاتون بیگم مولانا محمد علی جوہر نے بھی تحریک پاکستان اور اس وقت کی سیاست میں سرگرم حصہ لیا اور میں یہاں یہ بھی یاد کراد وں کہ یہ بر صغیر کی وہ واحد خاتون سیاستدان ہیں جنہوں نے سب سے پہلے قرارد اد لاہور کی تائید کی تھی،ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی بیگم محترمہ رعنا لیاقت علی خان کو کون بھول سکتا ہے یہ وہ عظیم خاتون تھیں جنھوں نے سخت مشکل ترین حالات میں دور دراز علاقوں کا سفر کیا ، مسلم لیگ کو متحد کیااور لوگوں میں ایک الگ وطن کے حصول کی تحریک پیدا کی،فاطمہ بیگم ،،پیسہ اخبار،، کے مدیر محبوب عالم کی صاحبزادی تھیں ان کا کردار بھی نہایت قابل ستائش ہے یہ وہ خاتون ہیں جنھوں نے سب سے پہلے خاتون نامی اخبار جاری کیا،پنجاب سے جن خواتین نے تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا ان میں لیڈی مراتب علی،فاطمہ بیگم،بیگم اقبال حسین،بیگم سلمہ تصدق حسین،بیگم شائستہ اکرام اﷲ،بیگم وقار النساء نون،اور بیگم نواب اسماعیل شامل ہیں جب کہ سندھ سے تعلق رکھنے والی بیگم نصر ت خانم لیڈی عبدﷲ ہارون کا نام بھی نمایاں ہے،ان مثالی خواتین نے تحریک پاکستان میں وہ کردار ادا کیا جس نے اس تحریک کو ایک نئی جلا بخش دی،ان خواتین نے بڑے برے عوامی جلسوں سے خطاب کیا اور عوام کے جوش و جذبے میں ایک نئی جان ڈال دی،ان تمام خواتین کی خدمات اس وقت تک یاد رکھی جائیں گی جب تک پاکستا ن قائم ہے اور اگر ہم آج کی بات کریں تو آج بھی علم کے میدان میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی،قانون وعدالت میں جسٹس ناصرہ جاویداور، عاصمہ جہانگیر فن وثقافت میں ملکہ ترنم نورجہاں اور لتا منگیشتر،علم وادب میں فاطمہ ثریا بجیا،آن سان سئیکیاور ٹونی موریسن، سیاست وحکومت میں مسز مارگریٹ تھیچر،ہیلری کلنٹن اور سب سے بڑھ کر شہید محترمہ بے نظیر بھٹو سماجی خدمات میں مدر ٹریسا اور بلقیس ایدھی بچیوں میں ملالہ یوسف زئی اور ارفع کریم رندھاوا روشن اور قابل تقلید مثالیں ہیں بات صرف ماحول وسیع ذہن و دل اور بہتر تربیت کی ہے اگر یہ تمام چیزیں آج کی عورت کو بہم مہیا کر دی جائیں تو وہ کسی بھی طرح زندگی کے کسی بھی میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ کارہائے نمایاں سر انجام دے سکتی ہے ،اور جہاں پر یہ تمام وسائل میسر ہیں وہاں عورت مرد مل کے معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا رول ادا کر رہے ہیں اور وہی لوگ آج دنیا کو لیڈ بھی کر رہے ہیں ، اگر ہم نے آج کی تیز رفتار دنیا کے ساتھ چلنا ہے یا اس کا معاشی دفاعی یا کسی بھی شعبے میں مقابلہ کرنا ہے تو اب ہمیں روایتی اور رٹی رٹائی باتوں سے ہٹ کر عملی طور پر کچھ کرنا ہوگا،آپ عورتوں کو سازگار ماحو ل اور بہتر وسائل مہیا کر دیں ہمارا ملک و معاشرہ نہ صرف تعمیر و ترقی کی نئی راہوں سے متعارف ہو گا بلکہ دنیا کے لیے بھی باعث تقلید ہوگا۔
اﷲ تعالیٰ آپ سب کا حامی و ناصر ہو،،،،